کھانے پینے کے دن
1۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہر محبت کو زوال آ جاتا ہے مگر روٹی کی محبت ایسی ہے جس کو ساری عُمر زوال نہیں آتا بلکہ پیٹ مختلف چیزیں مانگتا ہی رہتا ہے۔ اسلئے بڑھاپے کے عالم میں بھی ڈاکٹر کہہ دیں گے کہ آپ کو شوگر ہے اور آپ نے چینی والی چیزیں نہیں کھانیں تو بندے کہیں گے کہ موت تو آنی ہے یا دوائی تو کھانی ہے مٹھائی کھا لینے دو۔
2۔ کھانا تو کھانا ہی ہوتا ہے مگر جو حُکم رسول کے مطابق کھانا کھایا جاتا ہے جیسے صحیح مسلم 2677: حضور ﷺ نے فرمایا ”ایام تشریق یعنی ذوالحجہ کے 11،12، 13کھانے پینے کے دن ہیں“ اور دس کو قربانی کا دن بھی اس میں شامل ہے۔
3۔ اسلئے مختلف دوست اپنے گھروں میں آپس میں یا رشتے داروں میں بیٹھ کر یا کسی بھی طریقے سے پکا کر اسلئے کھا رہے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے تو اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے کیونکہ ادھر نماز کا وقت ہوتا ہے تو ساتھ تکبیرات پڑھی جاتی ہیں جو 13 کی عصر کو ایام تشریق کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اللہ کریم ان کو اجر دے جو اپنے کھانے میں غریبوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔
4۔ کھانے پینے کے دوران یہ بحث چلی ہے کہ گائے یا اونٹ میں سات حصے ہوتے ہیں دس حصے ہوتے ہیں توہ یاد رہے کہ اہلسنت کے نزدیک گائے یا اونٹ میں صرف 7حصے ہوتے ہیں اور 10جائز نہیں ہیں اور یہی فتاوی سعودی عرب اور اہلحدیث، دیوبندی و بریلوی موجود ہیں جنہوں نے اونٹ میں 7حصوں کو صحیح احادیث کے مطابق مانا ہے جیسے صحیح مسلم 3185 اور ابوداود 2807: حضور ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام نے اونٹ اور بیل سات آدمیوں کی طرف سے ذ بح کیا۔
5۔ ابن ماجہ 3131میں ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے“۔ جمہور علماء کے نزدیک اونٹ میں بھی سات حصے ہوں گے کیونکہ حدیث روایت کرنے والے کو شک ہو گیا کہ اونٹ میں بھی سات حصے تھے یا دس حصے تھے۔
نتیجہ: اہلحدیث جماعت سے عرض ہے کہ یہ بتا دیں کہ تقلید کو بدعت و شرک، حرام اور خلافِ شرع کس مجتہد نے کہا اور کس کے قانون پر صحیح احادیث پر عمل کرتے ہو اور ضعیف کے منکر بنتے ہو۔ یہ بھی یاد رہے کہ صحیح احادیث (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود) کی ساری احادیث صحیح (صحیح لذاتہ، صحیح لغیرہ) نہیں ہیں اور دیگر احادیث کی کتاب میں سب ضعیف نہیں ہیں، اسلئے ایک حدیث کو من و عن نہیں مانتے بلکہ سب احادیث کو اکٹھا کرکے اہلسنت قانون بناتے ہیں۔
6۔ اصل اہلسنت عثمانیہ خلافت، 600سالہ دور، چار مصلے اجماع امت کے محدثین (امام حجر عسقلانی، امام بدرالدین عینی، امام جلال الدین سیوطی، امام حجر مکی، امام ملا قاری، امام یوسف نبہانی، امام شمس الدین دمشقی، امام زرقانی، امام عابدین شامی، امام مجدد الف ثانی، امام احمد عسقلانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولافا فضل حق خیر آبادی ہیں) ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا، اسلئے سوال یہ ہے کہ سعودی عرب (اہلحدیث، سلفی، توحیدی وغیرہ) کے محدثین کے نام بتائے جائیں جنہوں نے ان سب کو بدعتی و مشرک کہا۔
7۔ دیوبندی اور بریلوی اصولی اختلاف ضرور رکھیں مگر اس اختلاف کا حل 100سال میں نہیں نکلا بلکہ عوام کی یہ حالت ہے کہ انگوٹھے نہ چومنے، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، میلاد و عرس وغیرہ پر ایک دوسرے کو کا فر کہہ رہی ہے اور یہ اختلاف سمجھتی ہے۔انانیت کو درمیان سے نکال کر دینی جماعتیں اور علماء اپنے آپ کو ہی معصوم ثابت نہ کریں بلکہ اتحاد امت کریں۔
8۔ اہلتشع بے دین ہیں نہ تو ان کا تعلق حضور ﷺ سے ہے کیونکہ حضور ﷺ کی اتباع حضور ﷺ کی احادیث سے ہو گی، اہلسنت کی بخاری و مسلم و ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود، نسائی میں صحابہ کرام اور اہلبیت سے احادیث بیان کرتے ہیں لیکن اہلتشیع صرف اتنا بتا دیں کہ حضور ﷺ کی احادیث حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے 25سالہ دور میں کس کو سُنائیں جن سے ہوتی ہوئیں یہ سب احادیث اصول کافی، من لا یحضرہ الفقیہ، الاستبصار اور تہذیب الاحکام میں لکھی گئیں ورنہ مان لیں کہ اہلتشیع حضور ﷺ کے مُنکر اور بے دین ہیں۔