نا فرمان میاں بیوی
لڑکا لڑکی اور اُن کے والدین و رشتے دار سب اُس وقت ”نافرمان“ ہوتے ہیں جب رب کے نافرمان ہوتے ہیں اور جو رب کا نافرمان ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا گھر میری جنت ہے۔ دوسری بات ہر انسان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس کا ایمان زیادہ اُس کا امتحان زیادہ لیا جاتا ہے، اسلئے کوئی ایسا گھر نہیں جو آزمائش میں نہیں ہے۔ اس پوسٹ کو پڑھ کر فیصلہ کریں اور سوچیں کہ زیادہ تر مسائل ہمارے کلچر، تہذیب، معاشرتی، جذباتی ہے مگر دین کے نہیں اور کیا ہر مسلمان شریعت کے مطابق حل نکالتا ہے۔
بیان: معاشرتی مسائل پر جمعہ کے خطبات میں واضح طور پر نکاح، طلاق، عدت اور دوسری شادی کے مسائل نہیں سمجھائے جاتے اسلئے عوام کی ذہنی مذہبی ٹرینگ نہیں ہوتی۔ اگر سمجھائے جاتے ہیں تو ہم اپنے گھروں میں نہیں سمجھاتے کیونکہ ہم رب کے نافرمان، یہ سمجھتے ہیں کہ اب دُنیا کو اس دین کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ اپنے اپنے گھروں میں عورت اور مرد کو یہ ٹریننگ دینی چاہئے ورنہ رب کا نافرمان ہے۔
پردہ: ہر عورت کو ”غیر محرم“ سے پردہ کرنے کا حُکم ہے ورنہ وہ رب کی نافرمان ہے۔ پردے کی آسان سی تعریف یہ ہے کہ عورت گھر میں یا کام پر ”غیر محرم“ کی گرم نگاہوں سے بچنے کے لئے ایسا لباس پہنے جس سے اُس کے اگلے پچھلے اُبھار چُھپ جائیں اور غیر محرم بھی اُسے تقدس کی نگاہ سے دیکھے۔ دوسری بات، کسی بھی غیر محرم سے کبھی نرم و گرم و میٹھے لہجے میں بات کر کے اُس کو جنسی بیمار نہ بنائے۔ البتہ پردے کے مخالف متفقہ طور پر اپنی کسی متفقہ کتاب سے بتائیں کہ کس قدر پردہ ضروری ہے؟
نکاح: روٹی کی طرح بالغ لڑکا اور لڑکی کو بھی نکاح کی بھوک لگتی ہے اور یہ ضرورت تقریباً 15سال سے شروع ہو جاتی ہے۔ نکاح نہ ہونے کی وجہ سے لڑکا اور لڑکی اندھیرے میں اپنی طاقت کو ضائع کرتے ہیں ۔ دوسر زینب کیس اور مدارس میں بچوں کے ساتھ واردات بھی نکاح نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
طاقت: نکاح کیلئے دو باتیں ضروری ہیں (1) مرد کماتا ہو، اسلئے ہڈ حرام اور نشئی کی شادی یہ کہہ کر کرنا ظلم ہے کہ بعد میں کچھ کر لے گا اور ایسوں کے مجرم تحقیق نہ کرنے والے والدین ہیں اور(2) نا مرد کا نکاح کر کے والدین کو رب کا نافرمان نہیں بننا چاہئے۔ عورت کو حیض آتا ہو کیونکہ جس عورت کو حیض نہیں آتا اُس کو اُس لڑکے سے نکاح کرنا چاہئے جو بچے نہ چاہتا ہو مگر رب کے نافرمان ایسی باتوں پر غوروفکر نہیں کرتے اور دوسروں کو مشکلات میں ڈال کر جہنم کماتے ہیں۔
البتہ جس دور میں معیشت کمزور ہو اور لڑکا لڑکی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو فیصلہ کر لیں کہ آسان انداز میں نکاح کیسے ہونا چاہئے یہ ہر ایک کی اپنی عقل و حکمت و دانائی پر ہے۔
مرد و عورت کے حقوق: لڑکی کو ایک چھوٹا سا گھر، لڑکی کے گرمی اور سردی کے کپڑے اور اُس کی خوراک اور بیماری کا خرچہ لڑکے کے ذمے ہے۔ البتہ لڑکی اور لڑکے کے سسرال والوں کی اُس گھر میں غیر ضروری مداخلت ہر گز نہ ہوبلکہ لڑکا اور لڑکی خود اپنے گھر کو جنت بنائیں۔ اگر لڑکا کماتا کم ہے تو لڑکی اُتنے میں گذارہ کرے اور لڑکا کمانے کے لئے زور لگائے کیونکہ اس وقت کی ضرورتیں پیسہ مانگتی ہیں۔ اگر ایک گھرلڑکا نہیں دے سکتا تو ایک کمرہ ہو، جس میں لڑکی کی پرائیویسی میں کوئی مداخلت نہ کرے۔
گھر: پاکستان کی ہر ماں یہ چاہے گی کہ میری بیٹی کا اپنا گھر ہو جس میں اُس کے سسرال والوں کی کوئی مداخلت نہ ہو تو یہ بالکل ممکن ہے اگر ہر ماں اپنے بیٹے کو علیحدہ گھرلے کر دے جس میں اُس کی بھی مداخلت نہ ہو۔ اگر یہ قانون سمجھ میں آ جائے تو زندگی کے بہت سے مسائل جو سسرال کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ حل ہو جائیں گے ورنہ ساری زندگی ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہوتا رہے گا۔
گھر لینے کا طریقہ: لڑکا اور لڑکی کے گھر لینے میں رکاوٹیں یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی کے والدین پر پریشر تیل مہندی، بارات، جہیز، وری، پیلا جوڑا، بینڈ باجے، کھانے، بارات کے بندے، ولیمہ، زیور وغیرہ کا ہوتا ہے اور یہ سب دکھاوا نہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے نکاح نہیں جنازہ ہے اور یہی بات لڑکا لڑکی کے گھر والے سُن نہیں سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے سے کہہ سکتے ہیں کہ چلو یہ سب رسم و رواج ضروری نہیں ہیں بلکہ یہ تین دن کے کھیل سے بہتر ہے کہ نکاح سادگی سے کر لیتے ہیں اور جتنا سرمایہ ہم نے ملکر لگانا ہے اُس کا ایک کمرے کا مکان لڑکا اور لڑکی کو لے دیتے ہیں۔
فیصلہ: نکاح کی دو شرطیں ہیں (1) دو گواہ (2) اور لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔ حق مہر واجب ہے جو اکثر بے وقوف لڑکیاں معاف کر دیتی ہیں ۔ اسلئے ایک گھر آسانی سے بن سکتا ہے اگر لڑکا اور لڑکی کے والدین صرف تین باتوں کو مدنظر رکھ کر گھر لے کر دینے کی پلاننگ کریں۔ اس پر ضرور نکاح سے پہلے لڑکا لڑکی والے ڈسکشن کیا کریں۔
طبعیت: لڑکا اور لڑکی کی طبیعت کا نہ ملنا ایک بہت بڑا المیہ ہے، لڑکا اور لڑکی دونوں کو غور وفکر کرنا چاہئے کہ میری کونسی ضرورت شریعت کے مطابق پوری نہیں ہو رہی اور مزید ڈیمانڈ کیوں ہے؟ دوسرا لڑکا اپنے والدین کو اور لڑکی اپنے والدین کو ہمیشہ کہے کہ ہم اپنے گھر میں خوش ہیں اور گھر کی باتیں نہ بتائی جائیں۔ لڑکی اور لڑکا اپنے اپنے گھر والوں کو اگر اپنے گھر میں بے جا مداخلت نہ کرنے دیں تو کوئی عذاب پیدا نہیں ہو گا ورنہ دونوں رب کے نافرمان ہیں اور اپنے گھر کو تباہ کر رہے ہیں۔
جسما نی خواہش: میاں بیوی کو علم ہونا چاہئے کہ جسما نی اور جنسی خواہش پورا کرنے کا طریقہ کیا ہے
بچے: بچے اتنے ہی لینے ہیں جس کو نبی کریم ﷺ کا امتی بنا سکیں اور زیادہ بچوں سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور حضور ﷺ نے جو فرمایا کہ بچے زیادہ ہونے چاہئیں اُس حدیث پر عمل کرنا لازم نہیں ہے ورنہ بچے ہوں گے مگر دین نہیں۔ بعض اوقات بیٹا لیتے لیتے بیٹیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں، نو ماہ ماں امید رکھتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو گا اور پھر لڑکی پیدا ہونے پر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ بچہ پیدا نہ ہو تو لے پالک (adopted son) اور دودھ پلانے کی ذمہ داری کس پر ہے؟
طلاق: میاں بیوی دونوں کو شریعت کے خلاف چل کر رب کا نافرمان نہیں بننا چاہئے، اگر دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے سے ہار جائیں، مرد سمجھا سمجھا کر اور عورت سمجھ سمجھ کرتھک جائے تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ نہ سوئیں، اپنے بڑوں سے بات کریں اور ان کے بڑے ملکر حل دیں مگر طلاق نہ دیں۔
طلاق کا طریقہ: اگر سب کچھ کرنے کے بعد بھی دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کی سمجھ نہ آئے تو یونین کونسل جا کر جہاں نکاح کے فارم مولوی صاحب جمع کرواتے ہیں، وہاں لڑکا لڑکی کے گھر والوں کو طلاق کا تحریری نوٹس بھیجیں اورکبھی بھی تین طلاق زبانی نہ دیں کیونکہ اس سے طلاق ہو جاتی ہے ۔طلاق یونین کونسل کے دفتر ہی دینا ورنہ پریشانی ہو گی۔
عدت: عورت کو تین ماہ کی عدت گذارنی ہو گی اور شرعی طریقہ تو خاوند کے گھر میں عدت گذارنے کا ہے جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے مطلقہ عورت کی عدت جب حیض شروع ہو اُس سے تین ماہ ہیں، بیوہ کی عدت قمری مہینے کے چار ماہ دس دن ہو گی اور حاملہ کی عدت خاوند کے مرنے کے فوری بعد بچہ جننے تک ہوتی ہے اور اگر ایک دن بعد بھی بچہ پیدا ہو گیا عدت ختم ہو جاتی ہے ۔عدت میں خوبصورت بننا اور کسی کو نکاح کا پیغام دینا گناہ اور اگر عدت کے دوران نکاح کیا گیا تو نکاح نہیں ہو گا۔
حلالہ: نکاح مسیار، متعہ، نکاح جہاد اور موجودہ دور کا عوامی حلالہ عوام جائز نہیں کیونکہ حلالے میں عوام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ پہلے ہی طلاق دینے کے لئے حلالہ کرتی ہے۔ نکاح کا مطلب ہی صحبت کرنا ہے مگر عورت سے بعض اوقات صحبت بھی نہیں کی جاتی اور طلاق دے دی جاتی ہے جو کہ غلط ہے۔
دوسری شادی: پاکستان میں یہ بہت مشکل کام ہے، عورت اور مرد جو بے وقوفی سے طلاق دے دیتے ہیں، ساری زندگی پچھتاتے ہیں۔ کتنے فیصد لوگ ہیں جنہوں نے طلاق دے کر نکاح کئے اور کتنی بیوہ عورتیں ہیں جو جیتے جی مر رہی ہیں لیکن اپنی جسما نی ضرورت پوری نہیں کر سکتیں۔اللہ کریم ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
اختلاف: سعودی عرب کے پیچھے نماز ادا کرنے والے اہلحدیث اور دیوبندی کو چاہئے کہ سعودی وہابی علماء کے ساتھ ایک ہو جائیں اور بتائیں کہ خلافت عثمانیہ والے 600سالہ دور کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے کونسا بدعت و شرک سکھایا؟البتہ اہلسنت خلافت عثمانیہ والے دیوبندی اور بریلوی ہیں جن کا اصولی اختلاف چار کف ریہ عبارتیں ہیں مگر دیوبندی وہابی اور بریلوی تفسیقی و تفضیلی رافضی کی طرف مائل ہیں۔
اہلتشیع تو حضور ﷺ، اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین پر نہیں ہیں کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت دونوں نے بعد از وصال بھی حضور ﷺ کی اتباع ان کی احادیث کے مطابق کی اور اہلتشیع نہروان کا باغیر گروپ ہے جن نے ڈپلیکیٹ علی کے نام سے علیحدہ دین بنا کر مسلمانوں میں تفریق پیدا کی ہے۔