سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
قرآن اور حضور ﷺ کے فرمان سے ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ صحابہ کرام اور اہلبیت نے اسی بنیاد کو مضبوط کیا، اسلئے اہلبیت اور صحابہ کرام کو علیحدہ علیحدہ کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اہلبیت کی شان میں صحابہ کرام کی احادیث ہیں جس سے حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کے بچپن کا علم ہوتا ہے:
حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے کا نام حُسین نام رکھا (مستدرک حاکم 7734)، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش پرحضور ﷺ نے عقیقہ کیا(ابو داود 2841)۔ حسن وحُسین میرے گُلشن دنیا کے دو پھول ہیں (ترمذی 3770)، آیت تطہیر اور آیت مباہلہ میں بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں (مسلم 6620، 6261)، حضور ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ کی اولاد میرے نسب میں شامل ہے (طبرانی 2631)
حسن و حسین سے محبت جنت کی ضمانت ہے (ترمذی 3733)، حسن و حسین سے لڑائی حضور ﷺ سے لڑائی (ترمذی 3870) یا اللہ میں حسن و حسین سے محبت کرتا ہو ں تو بھی ان سے محبت فرما (ترمذی 3782)، جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر حضور ﷺ نے حسن و حسین کو پکڑا (ترمذی 3774) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے حسن و حسین کو چاندی کے کنگن پہنائے تو حضور ﷺ نے ناپسند کیا، فرمایا: میں اہلبیت کیلئے دنیا پسند نہیں کرتا (ابوداود4213)، جنتی جوانوں کے سردار ہیں (ترمذی 3768) حضرت حسن سر سے لے کر سینہ اور حضرت حسین سینہ سے لے کر پاؤں تک حضور ﷺ کی تصویر تھے (ترمذی 3779)
جوانی: حضور ﷺ کی احادیث سے یہ علم ہو سکا، اُس کے بعد یہ علم نہیں ہوا کہ حضور ﷺ کی وفات پر حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی کیا حالت تھی؟ حضور ﷺ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیسے ان کی پرورش کی؟ حضرت ابوبکر، عمررضی اللہ عنھما کے دور میں یہ دونوں بھائی کیا کرتے، کس غزوہ میں شریک ہوئے، کس سے کب نکاح کیا اور نکاح میں کون شامل ہوئے، ان سب باتوں کا علم نہیں سوائے اس بات کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت ان کے گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔
دورِ علی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جمل و صفین میں کارکردگی کیا کچھ نہیں معلوم، البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد فیصلہ کرنے والے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے، اسلئے جس سے حضرت حسن نے صُلح کی اُس سے حضور ﷺ کی صُلح ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صُلح کر کے دینِ اسلام کو اکٹھا حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا جس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی لبیک کہا۔
حضرت حُسین رضی اللہ عنہ نے جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا، اُس وقت بھی بھائی کے پاس آئے مگر بھائی نے نہیں بتایا کہ مجھے زہر کس نے دیا حالانکہ اُن کو معلوم تھا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی بیعت رہی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنے بیٹے کو نامزد کرنے کا تاریخی فیصلہ اور اُس کے بیٹے کے بعد میں کرتوت کو کسی بھی محدث، فقیہ اور مجتہد نے پسند نہیں کیا۔
شہادت: حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا گیا بلکہ حضور ﷺ کے دین کو شہید کیا گیا کیونکہ اُس کے بعد ایک نیا دین ایجاد کیا گیا جس کا تعلق حضور ﷺ، صحابہ کرام و اہلبیت، حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھما سے نہیں بلکہ بے دین اہلتشیع کی تین لاکھ روایات امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہیں حالانکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے خلاف اسلئے تھے کہ وہ حضور ﷺ کے دین پر نہیں تھا مگر حضرت حسین کا دین اورنانا کا دین ایک تھا۔
ماتم: بدری، اُحد، حنین، حضرت عمر، عثمان، علی اور حسن رضی اللہ عنہ کا ما تم نہیں کیا جاتا کیوں؟ اسلئے کہ ان صحابہ و اہلبیت کے دین سے اہلتشیع کا کوئی تعلق نہیں، اسلئے یہ سب مسلمان ہی نہیں ہیں۔
مُنکر رسول ﷺ: حضور ﷺ کی احادیث کے منکر یعنی رسول اللہ ﷺ کے منکر اہلتشیع ہیں جو ہر گز مسلمان نہیں ہیں۔ اہلبیت کے دُشمن اہلتشیع ہیں کیونکہ اہلبیت نے کبھی بھی حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے فیصلے کا رد نہیں کیا مگر یہ کمزور روایات کو بنیاد بنا کر نعوذ باللہ صحابہ کرام کو ظالم اور اہلبیت کو مظلوم کہتے ہیں مگر ان کا دین اسلام سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں بلکہ بے علم لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
حضرت حسنین کی شان میں 60 احادیثے راوی حضرات عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، سلمان فارسی، سیدہ فاطمہ، ابو رافع، علی، ام سلمہ، ابوجعفر، ابو معدل طفاوی، انس بن مالک، عبداللہ بن مسعود، مسیب بن نجبہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، ابو سعید خدری، سعد بن ابی وقاص، یزید بن ابو زیاد، یعلی بن مرہ، عبداللہ بن شداد، ابوبریدہ، اسامہ بن زید، براء بن عازب، زید بن ارقم، ابو ایوب انصاری، عمر بن خطاب، صفیہ بنت شیبہ، عبدالرحمن بن ابی نعم، عکرمہ، رضی اللہ عنھم سے روایت ہیں۔ فضائل میں جو احادیث ہیں وہ صحابہ کرام نے بیان کی ہیں، اگر یہ فضائل ٹھیک ہیں تو بیان کرنے والے صحابہ کرام بھی صدیق ہیں اور کتابیں بھی حق ہیں لیکن اگر فضائل مانیں جائیں لیکن فضائل بیان کرنے والے راوی کو صدیق نہ مانیں جائیں تو پھر انہی صحابہ نے حدیث ثقلین، قرطاس، فدک، حدیث عمار بیان کی ہیں وہ کیوں اہلتشیع مانتے ہیں؟؟کیا منافقت در منافقت نہیں ہے؟
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتح شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت