شان عمر رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وصال کی تاریخ یکم محرم الحرام پر اختلاف ہے مگر ترمذی 3682 : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائے دی ہو اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی رائے دی ہو مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نہ اُترا ہو جیسے:
1۔ حجاب کے احکام سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی:اور جب مانگنے جاؤ بیبیوں سے کچھ چیز کام کی تو مانگ لو پردہ کے باہر سے(الاحزاب:53)
2۔ ایک بار آپ نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوگئی:اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ(البقرۃ:125) صحیح مسلم 6206)
3۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں مارنے کا مشورہ دیا۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی:اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب (الانفال:68)
4۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا:اگر نبی چھوڑ دے تم سب کو ابھی اُس کا رب بدلے میں دیدے اُسکو عورتیں تم سے بہتر”۔ (التحریم:5) بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔
5۔ حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کا عام رواج تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق ہدایت دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوئے کا کہدے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے (البقرۃ:219)
6۔ ایک بار ایک شخص نے شراب کے نشہ میں نماز پڑھائی تو قرآن غلط پڑھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر وہی عرض کی تو یہ آیت نازل ہوئی:اے ایمان والو نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو (النسائ:43)
7۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بار بار دعا کی ، الٰہی! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ یہان تک کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پر یہ آیت نازل ہوگئی:اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ (المائدۃ: 90)
8۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت: "اور ہم نے بنایا آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے” نازل ہوئی۔ (المؤمنون:12) تو اِسے سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بے ساختہ کہا:، فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔(المؤمنون:14) ” تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا”۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)
9۔ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو اُس کے لوگوں نے رسول اللہ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ! عبداللہ ابن اُبی تو آپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھیں گے؟ رحمتِ عالمﷺ نے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ، وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ ”اور جب ان (منافقوں) میں سے کوئی مرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے”۔(توبہ 84) (یہ واقعہ صحیح مسلم 6207, 6208)
یہ خیال رہے کہ حضور اکرمﷺ کا یہ فعل صحیح اور کئی حکمتوں پر مبنی تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی وجہ سے اس منافق کی قوم کے ایک ہزار افراد اسلام لے آئے۔ اگر آپ کا یہ فعل مبارک رب تعالیٰ کو پسند نہ ہوتا تو وہ وحی کے ذریعے آپ کو اسکی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرما دیتا۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کا صحیح ہونا عام منافقوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ہے۔
10۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۔(سورہ منافقون 63) ”ان منافقوں کے لیے استغفار کرنا نہ کرنا برابر ہے”۔ اس پر سورۃ المنافقون کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (طبرانی)
11۔ جس وقت رسول اکرم نے جنگ بدر کے سلسلہ میں صحابہ کرام سے باہر نکل کر لڑنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نکلنے ہی کا مشورہ دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:جیسے نکالا تجھ کو تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کام کے واسطے اور ایک جماعت اہل ایمان کی راضی نہ تھی”۔(الانفال:5)
12۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جب منافقوں نے بہتان لگایا تو رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ فرمایا۔ آپ نے عرض کی، اے الله کے رسول ﷺ! آپ کا اُن سے نکاح کس نے کیا تھا؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا، اللہ نے! اس پر آپ نے عرض کی، کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کو چھپایا ہوگا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔ سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان” عَظِیْم” ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:16)
13۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیا اور آیت نازل ہوئی:حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی عورتوں سے”۔ (البقرۃ:187)
14۔ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا:جو کوئی ہووے دشمن اللہ کا اور اسکے فرشتوں کا اور اسکے پیغمبروں کا اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے ان کافروں کا”۔(البقرۃ:98) بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔
15۔ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اور آپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمر سے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس منافق کے خون سے بری رہے:
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔ ترجمہ: سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔ (النساء ٦٥)
16۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک روز سو رہے تھے کہ آپ کا ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی، الٰہی! بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو (النور:27)
17۔ آیت ”الشیخ والشیخۃ اذا زنیا” کا منسوخ التلاوت ہونا بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے سے موافقت رکھتا ہے۔
18۔ جنگ اُحد میں جب ابو سفیان نے کہا، کیا تم میں فلاں ہے؟ تو سیدنا عمر نے فرمایا،”اس کا جواب نہ دو”۔ رسولِ کریم نے آپ کے اس قول سے موافقت فرمائی۔ اس واقعہ کو امام احمد رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی مُسند میں روایت کیا ہے۔
19۔ ایک روز کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آسمان کا بادشاہ زمین کے بادشاہ پر افسوس کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سن کر فرمایا، مگر اس بادشاہ پر افسوس نہیں کرتا جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا۔ یہ سن کر کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، واللہ! توریت میں یہی الفاظ ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سجدے میں گر گئے یعنی سجدہ شکر بجا لائے۔(ایضاً: 201)
20۔ صحیح مسلم میں ہے کہ صحابہ نے نماز کے لیے بلانے کے متعلق مختلف تجاویز دیں تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ایک آدمی کو مقرر کر لو جو نماز کے وقت آواز دیکر لوگوں کو بلائے۔ حضور نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔
21۔ جنگِ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ رسول، سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں عرض کی، اگر اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن کی حفاظت کا مسئلہ نہ پیدا ہو، اس لیے قرآن کو کتاب کی صورت میں جمع کردیا جائے۔ آپ کے بار بار اصرار پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اس کام کے لیے راضی ہوئے۔ یوں آپ کی فراست ودانائی کی وجہ سے قرآن کریم ایک جگہ کتاب کی صورت میں جمع کیا گیا۔ (بخاری باب جمع القرآن)
22۔ اسی طرح آپ کے دورِ خلافت کے شروع تک لوگ الگ الگ تراویح پڑھتے تھے۔ آپ نے انہیں ایک امام کی اقتداء میں جماعت کی صورت میں تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔ تراویح میں قرآن کریم سنانے کی لگن میں مسلمان چھوٹے بڑے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور حفاظ کرام اسے اہتمام سے یاد رکھتے ہیں۔ گویا آج قرآن کریم کا کتابی صورت میں محفوظ ہونا، حفاظ کرام کی کثرت اور قرآن کریم کا صحیح یاد رکھنا یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہی کی فراست کے صدقے میں ہے جنہوں نے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی اہمیت اُجاگر کی اور تراویح کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا۔
(جاری ہے)
اہلتشیع: اہلسنت کی کتابوں میں اہلبیت اور صحابہ کرام کے کثیر مناقب اور فضائل موجود ہیں، البتہ اہلتشیع جماعت حضور ﷺ کی احادیث کی منکر یعنی رسول اللہ ﷺ کی منکر ہے کیونکہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام اور اہلبیت کو ایک جیسی تعلیم دی لیکن اہلتشیع بے دین ہیں ان کا حضور ﷺ، صحابہ کرام، اہلبیت سے تعلق نہیں بلکہ دین اسلام کے مخالف ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قرآن و سنت میں یہ فضائل بیان ہوئے ہیں اور انہی کتابوں میں اہلبیت کےفضائل بھی موجود ہیں مگر اہلتشیع ایک کو مانتے ہیں ایک کو نہیں کیونکہ ان کا مقصد فسا د برپا کرنا ہے۔
اختلاف: سعودی عرب کے پیچھے نماز ادا کرنے والے اہلحدیث اور دیوبندی کو چاہئے کہ سعودی وہابی علماء کے ساتھ ایک ہو جائیں اور بتائیں کہ خلافت عثمانیہ والے 600 سالہ دور کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے کونسا بدعت و شرک سکھایا؟ البتہ اہلسنت خلافت عثمانیہ والے دیوبندی اور بریلوی ہیں جن کا اصولی اختلاف چار کف ریہ عبارتیں ہیں مگر دیوبندی وہابی اور بریلوی تفسیقی و تفضیلی رافضی کی طرف مائل ہیں۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت