اِہلسُنت اَمامِ
جناب احمد رضا خاں صاحب کی ولادت 10 شَوَّالُ الْمُکَرَّم 1272ھ (14 جون 1856) اور وفات 25 صفَر الْمُظَفَّر 1340ھ ( 1921) کو ہوئی۔ دیوبندی علماء اور خلافت عثمانیہ کے دور کے مکہ و مدینہ کے اہلسنت علماء کرام نے جناب احمد رضا صاحب کے متعلق یہ تاثرات نقل کئے ہیں جن کا ایک ایک لفظ ایک دفعہ پڑھنا لازم ہے:
1۔ دیوبند کے محدث انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں: جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت درپیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقہیہ ہیں۔ (رسالہ دیوبند صفحہ21، جمادی الاول 1330ھ)
2۔ فیض مجسم مولانا محمد فیض احمد اویسی صاحب بقول لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں مقیم قاضی اللہ بخش صاحب کہتے ہیں: جب میں دارالعلوم دیوبند میں پڑھتا تھا تو ایک موقع پر حاضر ناظر کی نفی میں مولوی انور شاہ کشمیری صاحب نے تقریر فرمائی کسی نے کہا، کہ: مولانا احمد رضا خان تو کہتے ہیں کہ حضور سرور عالم ﷺ حاضر ناظر ہیں، مولوی انور شاہ کشمیری نے ان سے نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ پہلے احمد رضا تو بنو پھر یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ (امام احمد رضا اور علم حدیث صفحہ 83 طبع لاہور)
3۔ مختار قادیانی نے اعتراض کیا کہ علماء بریلوی علماء دیوبند پر کفر کا فتوٰی دیتے ہیں اور علمائے دیوبند علمائے بریلوی پر، اس پر (انور شاہ) صاحب (کشمیری) نے فرمایا، میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گزارش کرتا ہوں کہ حضرات دیوبند ان (بریلویوں) کی تکفیر نہیں کرتے۔ (ملفوظات محدث کشمیری صفحہ 69 طبع ملتان، حیات انور شاہ صفحہ 323) (روزنامہ نوائے وقت لاہور 8 نومبر 1976ء ، حیات امداد صفحہ 39)
4۔ دیوبند کے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں : مولانا احمد رضا خان کو تکفیر کے جرم میں بُرا کہنا بہت ہی بُرا ہے کیونکہ وہ بہت بڑے عالم اور بلند پایہء محقق تھے۔ مولانا احمد رضا خان کی رحلت عالم اسلام کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ (رسالہ ہادی دیوبند صفحہ 20 ذوالحج 1369ھ)
5۔ دیوبند کے مشہور مناظر اور ناظم تعلیمات دیوبند مولوی مرتضٰی حسن چاند پوری رقمطراز ہیں: بعض علمائے دیوبند کو خان بریلوی (احمد رضا) یہ فرماتے ہیں:۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین نہیں جانتے، چوپائے مجانین کے علم کو آپ ﷺ کے علم کے برابر کہتے ہیں۔ شیطان کے علم کو آپ ﷺ کے علم سے زائد کہتے ہیں، لٰہذا وہ کافر ہیں۔ تمام علمائے دیوبند فرماتے ہیں کہ خان صاحب کا یہ حکم بالکل صحیح ہے جو ایسا کہے وہ کافر ہے، مرتد ہے، ملعون ہے۔ لاؤ ہم بھی تمہارے فتوے پر دستخط کرتے ہیں بلکہ ایسے مرتدوں کو جو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے یہ عقائد بے شک کفریہ عقائد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر (احمد رضا) خان صاحب کے نزدیک بعض علمائے دیوبند واقعی ایسے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے انہیں سمجھا، تو خان صاحب پر ان علمائے دیوبند کی تکفیر فرض تھی اگر وہ ان کو کافر نہ کہتے تو وہ خود کافر ہو جاتے۔ (اشدالعذاب صفحہ 12، صفحہ 13 طبع دیوبند)
6۔ دیوبند کے شیخ الادب مولوی اعزاز علی لکھتے ہیں: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، کہ ہم دیوبندی ہیں اور بریلوی علم و عقائد سے ہمیں کوئی تعلق نہیں مگر اس کہ باوجود بھی یہ احقریہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس دور کے اندر اگر کوئی محقق اور عالم دین ہے تو وہ احمد رضا خان بریلوی ہے کیونکہ میں نے مولانا احمد رضا خان کو جسے ہم آج تک کافر بدعتی اور مشرک کہتے رہے ہیں بہت وسیع النظر اور بلند خیال، علو ہمت، عالم دین صاحب فکر و نظر پایا ہے۔ آپ کے دلائل قرآن و سنت سے متصادم نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں۔ لٰہذا میں آپ کو مشورہ دوں گا اگر آ پ کو کسی مشکل مسئلہ جات میں کسی قسم کی الجھن درپیش ہو تو آپ بریلی میں جاکر مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی سے تحقیق کریں۔ (رسالہ النور تھانہ بھون صفحہ 40 شوال المکرم 1342ھ۔)
7۔ دیوبندی مذہب کے فقہیہ العصر مفتی کفایت اللہ دہلوی کہتے ہیں : اس میں کلام نہیں کہ مولانا احمد رضا خان کا علم بہت وسیع تھا۔ (ہفت روزہ ہجوم نئی دہلی امام احمد رضا نمبر، 2 دسمبر 1988ء صفحہ 6 کالم 4 بحوالہ سرتاج الفقہاء صفحہ 3)
8۔ دیوبند کے مفتی اعظم محمد شفیع دیوبندی آف کراچی لکھتے ہیں : مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے متعلقین کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے۔ (فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج 2 صفحہ 142 طبع کراچی)
یہی مفتی محمد شفیع اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مرید صادق اجمل العلماء حضرت علامہ مفتی محمد اجمل سنبھلی علیہ الرحمۃ کے رسالہ اجمل الارشاد فی اصل حرف الضاد پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
حامداً و مصلیاً اما بعد :احقر نے رسالہ ھذا علاوہ مقدمات کے بتمامہا مطالعہ کیا اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اپنے موضوع میں بے نظیر رسالہ ہے خصوصاً حرف ضاد کی تحقیق بالکل افراط و تقریظ سے پاک ہے اور نہایت بہتر تحقیق ہے مؤلف علامہ نے متقدمین کی رائے کو اختیار فرما کر ان تمام صورتوں میں فساد صلوٰۃ کا حکم دیا ہے جن میں تغیر فاحش معنٰی میں ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں احقر کا خیال بتعاًل ا کابر یہ ہے کہ اپنے عمل میں تو متقدمین ہی کے قول کو اختیار کرنا چاہئیے۔
کتبہ :۔ احقر محمد شفیع غفرلہ خادم دارالافتاء دارالعلوم دیوبند یو۔پی۔ (ہند) (فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج 2 ص 306)
9۔ دیوبند کے شیخ التفسیر مولوی محمد ادریس کاندھلوی کے متعلق دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں : میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی۔۔۔۔۔۔۔۔ سے لیا ہے۔ کبھی کبھی اعلٰی حضرت (احمد رضا بریلوی) کا ذکر آ جاتا تو مولانا (ادریس) کاندھلوی فرمایا کرتے۔ مولوی صاحب اور یہ مولوی صاحب ان کا تکیہ کلام تھا) مولانا احمد رضا خان کی بخشش تو انہی فتوؤں کے سبب سے ہو جائے گی۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ احمد رضا خان تمہیں ہمارے رسول سے اتنی محبت تھی کہ اتنے بڑے بڑے عالموں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا۔ تم نے سمجھا، کہ انہوں نے توہین رسول کی ہے۔ تو ان پر بھی کفر کا فتوٰی لگا دیا۔ جاؤ اسی ایک عمل پر ہم نے تمہاری بخشش کر دی۔ (اعلٰی حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت، صفحہ7، روزنامہ جنگ لاہور 1990۔ 10۔ 03)
10۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:۔ اس احقر نے مولانا احمد رضا صاحب بریلوی کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ ہو کر رہ گئیں، حیران تھا کہ واقعی مولانا بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں مگر آج پتا چلا، کہ نہیں ہرگز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بلکہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شاہکار نظر آتے ہیں۔ جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاد مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حضرت مولانا محمودالحسن صاحب دیوبندی اور حضرت مولانا شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں کے اندر ہے۔ (ماہنامہ ندوہ اگست 1931ء صفحہ 17)
11۔ مولانا شبلی نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں: مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میں سخت ہی متشدد ہیں مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین اس مولوی احمد رضا خان صاحب کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس احقر نے بھی آپ کی متعدد کتابیں دیکھیں ہیں۔ (رسالہ ندوہ اکتوبر 1914ء صفحہ 17)
12۔ مولوی ابو الحسن دیوبندی لکھتے ہیں : فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جو ان (فاضل و محدث بریلوی)کو عُبور حاصل تھا۔ اس زمانہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ (نزہت الخواطر، ج 8، صفحہ 41 حیدرآباد)
13۔ مولوی عبدالحئی لکھتے ہیں : (محدث بریلوی نے) عُلوم پر مہارت حاصل کرلی اور بہت سے فُنون بالخصوص فقہ و اُصول میں اپنے ہم عصر علماء پر فائق ہو گئے۔ (نزہتہ الخواطر، ج 8 صفحہ 38 )
14۔ معین الدین ندوی لکھتے ہیں : مولانا احمد رضا خان مرحوم صاحب علم و نظر مصنفین میں سے تھے۔ دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی مولانا نے جس وقت نظر اور تحقیق کے ساتھ علماء کے استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے اس سے ان کی جامعیت علمی بصیرت قرآنی استحضار ذہانت اور طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے ان کے عالمانہ محققانہ فتاوٰی مخالف و موافق ہر طبقہ کے مطالعہ کے لائق ہیں۔ (ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ستمبر 1949ء)
15۔ دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولوی عبدالماجد دریا آبادی نے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مولانا عبدالعلیم میرٹھی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اور یوں کہا کہ انصاف کی عدالت کا فیصلہ یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا عبدالعلیم میرٹھی مرحوم و مغفور نے اس گروہ (بریلوی) کے ایک فرد ہو کر بیش بہا تبلیغی خدمات انجام دیں۔ (ہفت روزہ صدق جدید لکھنؤ 25، اپریل 1956ء بحوالہ سوئے منزل راولپنڈی اپریل 1982ء 57)
16۔ دیوبندی مشہور عالم سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں: مولانا احمد رضا صاحب بریلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زبردست صلاحیت کے مالک تھے ان کی عبقریب کا لوہا پورے ملک نے مانا۔ (ماہنامہ برہان دہلی اپریل 1974ء بحوالہ امام احمد رضا اور رَد بدعات و منکرات صفحہ 34)
17۔ مشہور وہابی مؤرخ مولوی غلام رسول مہر لکھتے ہیں : احتیاط کے باوجود نعت کو کمال تک پہنچانا واقعی اعلٰی حضرت (بریلوی)کا کمال ہے۔
18۔ ماہر القادری، جماعت اسلامی کے مشہور شاعر ماہر القادری لکھتے ہیں: مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم دینی علوم کے جامع تھے دینی علم و فضل کے ساتھ شیوہ بیان شاعر بھی تھے۔ اور ان کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ مجازی راہ سخن سے ہٹ کر صرف نعت رسول کو اپنے افکار کا موضوع بنایا۔ مولانا احمد رضا خان کے چھوٹے بھائی مولانا حسن رضا خان بہت بڑے خوش گو شاعر تھے اور مرزا داغ سے نسبت تلمذ رکھتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نعتیہ غزل کا یہ مطلع
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جب استاد مرزا داغ کو حسن بریلوی نے سنایا تو داغ نے بہت تعریف کی اور فرمایا کہ مولوی ہو کر اچھے شعر کہتا ہے۔ (ماہنامہ فاران کراچی ستمبر 1973ء )
ایک اور شمارے میں لکھتے ہیں: مولانا احمد رضا بریلوی نے قرآن کا سلیس رواں ترجمہ کیا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ مولانا صاحب نے ترجمہ میں بڑی نازک احتیاط برتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا صاحب کا ترجمہ خاصا اچھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترجمہ میں اردو زبان کے احترام پسندانہ اسلوب قائم رہے۔ (ماہنامہ فاران کراچی مارچ 1976ء )
19۔ عظیم الحق قاسمی فاضل دیوبند لکھتے ہیں : ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ (مدرسہ) دیوبند میں اعلٰی حضرت یا ان سے تعلق رکھنے والے رسائل و کتب نہیں پہنچتے، نہ ہی وہاں طلبہ کا اجازت ہوتی ہے۔ بلکہ دیکھنا جرم سے کم نہیں۔ میں بھی وہیں (دارالعلوم دیوبند)کا فراغ التحصیل ہوں، وہاں سے مجھ کو بریلویوں سے نفرت ان کی کتابوں سے عداوت دل میں پرورش پائی، اس لئے میں کبھی ان کی کتب سے استفادہ نہیں کر سکا۔ قاری چونکہ نیا رسالہ ہے اور ظاہراً یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بریلویوں کا رسالہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سبب سے میں نے قاری کا مطالعہ کیا اور (مولانا احمد رضا) فاضل بریلوی نے شمع رسالت کی جو ضیاء پاشی کی ہے۔ اس کا ادنٰی حصہ پہلی مرتبہ قاری کے ذریعے نظر نواز ہوا جس نے میرے دل کی دنیا کو بدل ڈالا۔ ابھی تو صرف ایک فتوٰی نے اعلٰی حضرت کے عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مجھ کو معترف کر دیا یہ پورا فتوٰی حب رسول کا ایک گلدستہ ہے میں اپنے دل کے حالات ان لفظوں میں بیان کروں گا، کہ اگر ہمارے علماء دیوبند تنگ نظری اور تعصب کو ہٹا دیں تو شاید مولانا اسماعیل سے لیکر ہنوز سب فاضل بریلوی کے شاگردوں کی صفت میں نظر آئیں گے۔ (ماہنامہ قاری دہلی اپریل 1988ء )
20۔ دیوبند کے مولوی احسن نانوتوی نے مولانا تقی علی خان (والد گرامی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی)کو عیدگاہ بریلی سے پیغام بھجوایا کہ میں نماز پڑھنے کے لئے آیا ہوں پڑھانا نہیں چاہتا۔ آپ تشریف لائیے جسے چاہے امام کر لیجئے۔ میں اس کی اقتداء میں نماز پڑھوں گا۔ (مولانا احسن نانوتوی صفحہ 87، طبع کراچی)
نوٹ :۔ اس کتاب پر مشہور دیوبندی عُلماءَ کی تصدیقات موجود ہیں۔ جن میں مفتی محمد شفیع آف کراچی اور قاری طیب دیوبندی بھی شامل ہیں۔
21۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا۔ مولانا احمد رضا خان ایک سچے عاشق رسول گزرے ہیں، میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان سے توہین نبوت ہو۔ (بحوالہ امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں صفحہ 96)
22۔ مولوی فخر الدین مراد آبادی دیوبندی نے کہا: مولانا احمد رضا خان سے ہماری مخالفت اپنی جگہ تھی مگر ہمیں ان کی خدمت پر بڑا ناز ہے۔ غیر مسلموں سے ہم آج تک بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے تھے کہ دنیا بھر کے علوم اگر کسی ایک ذات میں جمع ہو سکتے ہیں۔ تو وہ مسلمان ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ دیکھ لو مسلمانوں ہی میں مولوی احمد رضا خان کی ایسی شخصیت آج بھی موجود ہے جو دنیا بھر کے علوم میں یکساں مہارت رکھتی ہے ہائے افسوس کہ آج ان کے دَم کے ساتھ ہمارا فخر بھی رخصت ہو گیا۔ (بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116)
23۔ صوبہ بلوچستان کے دیوبندی مذہب کے مشہور عالم مولوی عبدالباقی جناب پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں : واقعی اعلٰی حضرت مفتی صاحب قبلہ اسی منصب کے مالک ہیں۔ مگر بعض حاسدوں نے آپ کے صحیح حلیہ اور علمی تبحر طاق نسیان میں رکھ کر آپ کے بارے میں غلط اوہام پھیلا دیا ہے جس کو نا آشنا قسم کے لوگ سن کر صید وحشی کی طرح متنفر ہو جاتے ہیں اور ایک مجاہد عالم دین مجدد وقت ہستی کے بارے میں گستاخیاں کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ علمیت میں وہ ایسے بزرگوں کے عشر عشیر بھی نہیں ہوں گے۔ (فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں صفحہ 17)
24۔عطاء اللہ شاہ بخاری: تحریک ختم نبوت کے دوران قاسم باغ ملتان کے ایک جلسہ میں دیوبندکے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا : بھائی بات یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب قادری کا دماغ عشق رسول سے معطر تھا اور اس قدر غیور آدمی تھے کہ ذرہ برابر بھی توہین الوہیت و رسالت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے پس جب انہوں نے ہمارے علماء دیوبند کی کتابیں دیکھیں تو ان کی نگاہ علماء دیوبند کی بعض ایسی عبارات پر پڑی کہ جن میں سے انہیں توہین رسول کی بُو آئی، اب انہوں نے محض عشق رسول کی بناء پر ہمارے ان دیوبندی علماء کو کافر کہہ دیا اور وہ یقیناً اس میں حق بجانب ہیں۔ اللہ تعالٰی کی ان پر رحمتیں ہوں آپ بھی سب مل کر کہیں مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سامعین سے کئی مرتبہ رحمۃ اللہ علیہ کے دعائیہ الفاظ کہلوائے۔ (ماہنامہ جناب عرض رحیم یار خان غزالی دوراں نمبر جلد1 شمارہ 10، 1990ء ، ص 46۔ 245)
25۔ مولوی محمد شریف کشمیری: خیرالمدارس ملتان کے صدر مدرس دیوبندی شیخ المعقولات مولوی محمد شریف کشمیری نے مفتی غلام سرور قادری کو ایک مباحثہ میں مخاطب کرکے کہا کہ : تمہارے بریلویوں کے بس ایک عالم ہوئے ہیں اور وہ مولانا احمد رضا خان، ان جیسا عالم میں نے بریلویوں میں نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے وہ اپنی مثال آپ تھا اس کی تحقیقات علماء کو دنگ کر دیتی ہیں۔ (الشاہ احمد رضا بریلوی ص 82 طبع مکتبہ فریدیہ ساہیوال)
26۔ بانی تبلیغی جماعت مولوی محمد الیاس کاندھلوی: کراچی میں ایک عالم دین نے جن کا تعلق مسلک دیوبند سے تھا۔ فرمایا تھا، کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس صاحب فرماتے تھے۔ اگر کسی کو محبت رسول سیکھنی ہو تو مولانا (احمد رضا) بریلوی سے سیکھے۔ (بحوالہ امام احمد رضا فاضل بریلوی اور ترک موالات صفحہ 100)
امام اہلسنت علماء حجاز کی نظر میں
1۔ شیخ عبد اللہ بن محمد صدقہ بن زینی دحلان جیلانی (مسجد حرام مکہ معظمہ)۔
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اسکے موٗلف (امام احمد رضا خان) کو فضائل و کمالات سے مشرف فرمایا اور اسے اس زمانے کیلئے چھپا رکھا(اور باالآخر وقت آنے پر ظاہر فرمایا) (الفیوضات الملکیہ ص36)
2۔ شیخ محمد مختار بن عطارد الجاوی (مسجد حرام مکہ معظمہ)
ترجمہ: بے شک مؤلف ( امام احمد رضا خان) اس زمانے میں علماء محقیقین کا بادشاء ہے اور اسکی ساری باتیں سچی ہیں، گویا کہ وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جو اس یگانہ امام کے دست مبارک پرحق تعالیٰ نے ظاہر فرمایا ہے۔ ہمارے سردار ہمارے آقا، علماء محقیقن کے خاتم، علمائے ایل سنت کے پیشوا سیدی احمد رضا خان، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسکی زندگی سے متمتع فرمائے اور ان سب کے خلاف اسکی حمایت فرمائے جو اس کی بد خوائی کا ارادہ رکھتے ہوں۔ (الفیوضات الملکیہ ص72)۔
3۔ شیخ عطیہ محمود، مدرس مسجد حرام مکہ مکرمہ
ترجمہ: کیا ہی خوب ہے یہ مؤلف جنہوں نے ہمیں دُرِّ بے بہا)
عنایت فرمایا، بلا شبہ اسکی آمد آمد نے ہمارے سینے کشادہ کردئے۔ (الدولۃ المکیہ)۔
۲۔ احمد (رضا) کے دست اقدس نے اعلیٰ درجے کا تحفہ عنایت فرمایا جس کے سرور و کیف سے ارواح مست و سرشار ہوگئیں۔
۳۔ اس کے جوھر کو انہوں نے مکہ میں ڈھالا، وہ خوب سے خوب تر ہوا، جب ظہور پذیر ہوا۔
۴۔ وہ پاکیزہ و برگزیدہ ہے سچ تو یہ ہے کہ اس کے سطور آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
۵۔ بلا شبہ حرمین شریفین میں اس تحریر کے ماہتاب ضوفشاں ہیں۔
۶۔ اے علم کے طلبگار جلدی کر اور انہیں غنیمت جان، یہ بوستان علوم ہیں اسکی گلستاں کی کلیوں کی مہک دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
5۔ شیخ مصطفی بن تارزی ابن عزوز(مسجد نبوی،مدینہ منورہ)
ترجمہ: استاد کامل، برستی گھٹا، فائدہ رساں نے، اللہ کے بندوں کی خوب راہنمائی فرمائی اور آبادیوں کو منور کیا، یہ انکی عظمت سیرت جمیلہ، کامل دسترس، اخلاص نیت، پاکیزگئ فطرت، حسن کمال علم اور پاکیزہ واقفیت کی نشانی ہے۔ (الفیو ضات الملکیہ ص ۱۴۶ و۱۴۸)
6۔ شیخ موسی علی شامی الازھری احمدی علیہ الرحمۃ(درویری مدنی)
ترجمہ: امام الائمہ، ملت اسلامیہ کے مجدد، نور یقین، اور نور قلب کو تقویت دینے والے یعنی شیخ احمد رضا خان اللہ تعالیٰ دونوں جہاں میں ان کو قبول و رضوان عطا فرما ئے۔(الفیوضات الملکیہ ص ۴۶۲)
7۔ شیخ محمد توفیق الایوبی الانصاری المجاور بالمدینۃ المنورۃ
فاضل مؤلف (مولانا امام احمد رضا خان)چسے میں التجا کرتا ہوں کہ اپنی نیک دعاؤں میں مجھے شامل رکھیں اس لئے کہ انکی دعائیں اجابت و قبولیت ہیں کیوں کہ وہ رسول اکرم ﷺ کے سچے عاشقوں میں سے ہیں۔چ(الفیوضات الملکیہ ص ۴۹۴)
8۔ شیخ احمد ابو الخیر بن عبداللہ میر داد علیہ رحمہ( خطیب مسجد حرام ،مکہ معظمہ)
ترجمہ: تو وہ حقائق کا خزانہ ہے اور محفوظ خزانوں کا انتخاب، معرفت کا آفتاب جو دوپہر کو چمکتا ہے، علوم کی ظاہر و باطن مشکلات کھولنے والا، جو شخص اس کے علم و فضل سے واقف ہوجائے اسکو کہنا چاہئے کہ اگلے پچھلوں کیلئے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ خدا کی قدرت کاملہ سے بعد نہیں کہ وہ شخص واحد میں عالم کی تمام خوبیاں جمع کردے۔ (حسام الحرمین علی منحر الکفروالمین، ص ۱۲۷ و ۱۲۸)
9۔ شیخ اسماعیل بن سید خلیل حافظ کتب الحرام علیہ الرحمہ (مکہ معظمہ)
ترجمہ: میں اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس عالم باعمل،عالم فاضل، صاحب مناقب و مفاخر، جس کو دیکھ کر کہا جائے کہ ’’ اگلے پچھلوں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے‘‘۔۔۔ یکتائے روزگار،وحید عصر مولانا شیخ احمد رضا خان کو مقرر فرمایا اور وہ کیوں ایسا نہ ہو کہ علماء مکہ معظمہ اس کے لئے ان فضائل کی گوہی دے رہے ہیں، اگر وہ اس مقام رفیع پر متمکن نہ ہوتا تو علماء مکہ معظمہ اس کے لئے یہ گواہی نہ دیتے۔ہاں ہاں میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجدد ہے تو حق و صحیح ہے۔(حسام الحرمین صفحہ 140 تا 142)
10۔ شیخ علی بن حسین مالکی علہ الرحمۃ (مدرس مسجد الحرام المکہ المکرمہ)
ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا اور آسمان صفاء کے آفتاب ورفان کی روشنی سے میرے قلب کو منور فرمایا وہی جس کے افعال حمیدہ اس کے فضل و کمال کو عالم آشکار کرتے ہیں ہیں۔ ایساکیوں نہ ہوں وہ آج دائرہ معارف کا مرکز ہے (اس کا وجود) ملت اسلامیہ کے گھر میں آسمان علم و عرفان کے ھلملاتے تاروں کا مطلع ہے، وہ مسلمانوں کا یارومددگار ہے، ہدا یت یابوں کا نگہبان و نگران، گمراہوں اور ملحدوں کی زبانوں کو اپنے دلائل و براہین کی تلوار سے کاٹ پھینکتا ہے۔ ایمان کے مینارے کو بلند سے بلند تر کرتاہے (کون) ہمارے آقا احمد رضاخان۔ (حسام الحرمین ص۔ ۱۵۸)
11۔ شیخ کریم اللہ مہاجر مدنی :
میں کئی سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہوں، ہندوستان سے ہزاروں صاحب علم آتے ہیں ان میں علماء صلحاء اور اتقیا سب ہی ہوتے ہیں میں نے دیکھا کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں مارے مارے پھرتے ہیں کوئی بھی ان کو مُڑکر نہیں دیکھتا لیکن فاضل بریلوی کی عجیب شان ہے یہاں کے علماء اور بزرگ سب ہی انکی طرف جوق جوق چلے آ رہے ہیں ان کی تعظیم و تکریم میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ۔ (الاجازات المتینہ ص۔ ۷)
12۔ شیخ عبد الرحمان دھان مکی ۔۔۔۔
وہ جس کے متعلق کہ مکہ معظمہ کے علماء کرام گواہی دے رہے ہیں۔ وہ سرداروں میں یکتا ویگانہ ہے امام وقت میرے سردار میرے جائے پناہ ، حضرت احمد رضا، اللہ تعالٰی ہم کو اور سب مسلمانوں کو اس کی زندگی سے بہرہ ور فرمائے اور مجھے اس کی روشنی نصیب کرے کہ اس کی روش سیدعالم و ہی کی روش ہے ۔(حسام الحرمین ص۔ ۱۷۶)
13۔ شیخ عبد الرحمن حنفی علیہ الرحمہ (مدرس جامعہ الازہر مصر)
مجھے اپنی عمر کی قسم مؤلف (امام احمد رضا خان) نے رسالے میں کافی دلائل ذکر فرمائے ہیں اور حاسد کے لئے تو طویل عبارتیں بھی کافی نہیں۔ (قلیل البضاعت فی الحدیث و التفسیر ص ۵۴۱)
(اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں جسے مزید معلومات درکار ہوں تو دیکھیں کتاب ’’فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں‘‘)
نتیجہ: خلافت عثمانیہ کے دور میں جناب احمد رضا خاں صاحب دنیا سے تشریف لے گئے اور 1924 میں سعودی عرب کے وہابی علماء نے مزارات ڈھا کر ساری دُنیا کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مُشرک کہا۔ سعودی عرب طاقتور ملک ہے اسلئے دیوبندی اور اہلحدیث نے مل کر اہلسنت عالم کی کردار کشی کی اور ان کو سعودی عرب میں بین کروا دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہلسنت علماء اور پیر رافضیت کی طرف مائل ہیں۔ خوش رہو مسلمانوں کہ کسی کے علم کی روشنی بُجھا کر تمہارے گھر کا خرچہ چلتا رہے۔
اس پیج پر علماء اور جماعتوں کا دفاع نہیں کیا جاتا بلکہ قرآن و سنت کے مطابق اجماع امت، عثمانیہ خلافت، مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے ساری دنیا کے لئے جو 10 عقائد منظور کئے اُس کا دفاع بریلوی کو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کو المہند کتاب اور دیگر کتب سے ریفرنس دیا جاتا ہے تاکہ عوام کو شعور ملے اور ایک عقائد پر سب اکٹھے ہوں۔
شہادت: میں گواہی دیتا ہوں کہ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جو کربلہ کے بعد لانچ کیا گیا ہے ورنہ ان تین سوالوں کے جواب دے دے تو خود اس کی عوام کو سمجھ آ جائے گی۔ (1) قرآن کی تشریح کونسی احادیث کی کتابوں سے کریں گے جو شہادت حسین سے پہلے کی ہوں۔ (2) چودہ معصوم اور بارہ امام کا عقیدہ مولا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم سے ثابت کریں۔ (3) حضور ﷺ کی نماز، روزہ، حج کی احادیث سیدنا علی،فاطمہ، حسن و حسین سے ثابت کریں۔ تحقیق یہ کہتی ہے کہ اہلتشیع کا دین کربلہ کے صدیوں بعد دین اسلام کے مقابلے میں نہروان کے باغیوں نے لانچ کیا ہے۔
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت