Hadees Amar Bukhari 447 (حدیث عماربخاری 447 (باغی گروپ))

حدیث عماربخاری 447 (باغی گروپ)


حضور ﷺ نے فرمایا اے عمار تجھے ایک باغی جماعت شہید کرے گی۔ اس حدیث کی شرح من و عن نہیں ہوتی بلکہ اصل حقائق یہ ہیں "حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قا تلوں سے قصاص لینے کے مسئلے پر امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی جس پر جمل و صفین کی لڑائیاں مسلمانوں کے درمیان ہوئیں”۔

دعوت: حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم صفین میں تھے تو جب اہل شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی، شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے، پھر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ سیدنا امیر علی رضی اللہ عنہ کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیں، وہ ہرگز انکار نہ کریں گے، تب قرآن لیکر ایک آدمی معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے آیا پھر اس نے کہا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان یہ اللہ کی کتاب فیصلہ کرنے والی ہے تو سیدنا امیر علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں تو اس کا زیادہ حقدار ہوں، ٹھیک ہے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کتاب اللہ ہے جو فیصلہ کرے “۔ (تاریخ ابن کثیر)

واقعہ تحکیم: دونوں گروپس کی طرف سے کتاب اللہ کے حکم کےمطابق فیصلہ کرنے کے لئے دو جہاندیدہ اور دانشور صحابی حضرت ابو موسی اشعری اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما ثالث مقرر ہوئے۔ تاریخ کی کتابوں میں صُلح کی شرائط کے یہ نُکات لکھے ہیں:

"سیدنا امیر علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کوتمام ساتھیوں سمیت اہل ایمان تسلیم کیا جائے۔ ایسا حل دیا جائے کہ دوبارہ لڑائی نہ ہو اور ثالث اپنا فیصلہ گواہوں اور مشورے کے بعد تحریری طور پر پیش کریں۔ ثالثوں کو تقریباً دس ماہ اس کام کے لئے دئے گئے۔”

فیصلہ: دونوں ثالثوں نے نہایت ایمانداری اور جفاکشی سے سارے اسباب پر غور کرتے ہوئے تحریری طور پر فیصلہ پیش کیاجس سے دونوں طرف کی لڑائی ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی ۔

سوال: اسلئےحضرت علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ انکا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے، باقی یہ معاملہ میرا یا معاویہ کا ہے۔ (ابن ابی شیبہ ج 7 ص 552) اور جمل کے مقتولین کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا بھائی کہا (ابن ابی شیبہ ج7، ص 535)

اہم بات: صفین کے سلسلے میں جو لوگ حضرت معاویہ کے متعلق زبان درازی کرتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں اس سے روک دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ امارت معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا نہ سمجھو، کیونکہ وہ جس وقت نہ ہوں گے تو تم سروں کو گردنوں سے اڑتے ہوئے دیکھو گے۔ ( تاریخ ابن کثیر جلد8 صفحہ 131)

وقت کے ساتھ بدلنے والے شیعہ کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام شہریوں کی طرف گشتی مراسلہ جاری کیا کہ صفین میں ہمارے اور اہل شام کے درمیان جو جنگ ہوئی اس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، ہمارا رب، نبی اور دعوت ایک ہے ۔ ہم شامیوں کے مقابلے میں اللہ و رسول پر ایمان و یقین میں ذیادہ نہیں اور نہ وہ ہم سے ذیادہ ہیں ۔ ہمارا اختلاف صرف قتل عثمان میں ہے ۔( نہج البلاغہ جلد2، صفحہ 114)

باغی گروپ: ثالث صحابہ حضرات کے فیصلے کے بعد ایک باغی و خارجی اہلتشیع گروپ اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ حاکم مقرر کرنا جُرم ہے اسلئے نعوذ باللہ علی مسلمان نہیں رہا۔ یہ وہ باغی گروپ تھا جس نے حضرت عمر، عثمان، عمار، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو شہید کیا۔ ان سے نہروان کے مقام پر حضرت سیدنا امیر علی رضی اللہ عنہ کی لڑائی ہوئی اور آپ نے ان کو زندہ جلا دیا۔ انہوں نے حضرت علی، عمرو بن العاص اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنھم کو شہید کرنے کی پلاننگ کی جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔

جھوٹی کہانیاں: تاریخ میں ابو مخنف جیسے دشمن صحابہ کرام نے گند ڈالا ہے، اس نے یہ سب جھوٹ لکھا کہ قرآن نیزوں پر اُٹھایا گیا جھوٹی کہانی، امیر معاویہ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں حالانکہ وہ خلیفہ تھے ہی نہیں جھوٹی کہانی، صحابہ کرام ایک دوسرے کو فیصلے کے وقت برا بھلا کہتے رہے جھوٹی کہانی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج سے دلبرداشتہ تھے جھوٹی کہانی ۔

آج یہ روایتیں ہماری ایف اے، بی اے، ایم اے کی تاریخ اسلام کی درسی کتابوں میں بھی بغیر کسی تحقیق و تبصرہ کے اسی طرح نقل ہوتی آرہی ہیں جیسے منگھڑت احادیث نصاب میں شامل کی گئیں تاکہ احادیث اور اکابر صحابہ کرام کو نعوذ باللہ عوام میں مشکوک ثابت کیا جا سکے اور اہلتشیع جماعت اس میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔

تاریخ : تاریخ اسلام پڑھنے کا مشورہ اہلتشیع باغی گروپ کا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ تاریخ میں ابو مخنف جیسے راوی موجود ہیں اور تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر، تاریخ ابن خلدون، خلافت و ملوکیت لکھنے والوں کے پاس ابو مخنف کے علاوہ کوئی معتبر ذریعہ نہیں ہے۔ تاریخ طبری بھی جھوٹی روایات پر مبنی ہے البتہ تفسیر طبری ٹھیک ہے۔ قرآن و احادیث کی شرح اہلسنت علماء کرام کی معتبر ہے لیکن اہلتشیع رافضیوں کے سہولت کار مرزا، ڈاکٹر، پیر، بابا اسحاق، تفسیقی و تفضیلی قریشی مفتی علماء کی نہیں کیونکہ یہ اہلسنت نہیں ہیں۔

اہلتشیع: اہلتشیع کا دین حضور ﷺ، مولا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم والا نہیں ہے کیونکہ اہلبیت کا دین وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ اہلبیت نے صحابہ کرام کی کبھی شکایت نہیں کی، اگر کی ہے تو ثابت کریں کہ حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے متعلق کسی حدیث میں کچھ فرمایا۔ البتہ اہلتشیع نے امام جعفر صادق سے منگھڑت تین لاکھ کو احادیث قرار دے کر ختم نب وت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور امام صرف حضور ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حُکم ہے۔

اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general