جمل کی لڑا ئی
صحابہ کرام اور اہلبیت کا ایک دین، ایک عقیدہ، ایک امام، ایک قرآن ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک سب نے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کئے چاہے ان میں اجتہادی غلطیاں بھی تھیں، اسلئے مشاجرات صحابہ پر خاموش رہنے کا قانون منظور ہوا۔
یہ بھی یاد رہے کہ غدیر خم پر نہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا اعلان ہوا اور نہ ہی باغ فدک پر کوئی لڑائی، نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا گھر جلایا گیا اور نہ ہی سیدہ فاطمہ، حضرات علی حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے اپنے معصوم ہونے کا کبھی اعلان کیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت پر سب صحابہ کا اجماع ہے اورحضرت عمر فاروق نے دین قیصر و کسری تک پہنچایا۔ اس کے بعد سے حضرات عمر و عثمان و حسن و حسین رضی اللہ عنھم کی شہادت کی منظم پلاننگ ہوئی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید باغیوں نے کیا، اگر ان باغیوں کو کچھ کہیں تو تکلیف اہلتشیع جماعت کو ہوتی ہے اور نہ کچھ کہیں تو کہتے ہیں کہ کیا صحابہ کرام بچے تھے جو آپس میں لڑ پڑے۔ البتہ ان باغیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کی لڑائی میں زندہ جلا دیا۔
جمل نر (male) اونٹ کو کہا جاتا ہے، جن گ جمل اسلئے کہ اس لڑائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سُرخ اونٹ پر سوار تھیں۔ یہ لڑائی 36ھ، بصرہ میں، غلط فہمی کی وجہ سے ماں بیٹے کے درمیان ہوئی کیونکہ حضورﷺ کے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہیں۔
خلافت: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے تیسرے جانشین تھے جن کی قانونی حکومت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت سب نے تسلیم کیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حکومت کمزور نہیں تھی بلکہ مضبوط تھی جس میں جدہ کا سی پورٹ اور بحری جن گی جہاز تیار ہو رہے تھے۔
مطالبہ: البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں صحابہ کرام کا مطالبہ نہیں بلکہ باغی اور گمنام لوگ آئے جو خلیفہ وقت پر الزام لگاتے ہیں کہ تم بنو امیہ کے خاندان کے ہو، صرف اپنے رشتے داروں کو نواز رہے ہو، خلافت پر تمہارا حق نہیں ہے حالانکہ یہ الزام غلط تھا، اسلئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے جی دار کی جان پر بن آئی مگر باغیوں کے کہنے پر استعفی نہیں دیا۔
شہید: باغی اور گمنام لوگ کتنے طاقتور تھے کہ مدینہ منورہ میں باب العلم و فاتح خیبر، حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھم اور دیگر صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے GHQ کے اندرآئے، چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور خلیفہ وقت کو شہید بھی کردیا۔ ان کا پراپیگنڈے کا اثر صحابہ کرام پر بھی تھا جیسا کہ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے علم ہوتا ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ ان باغیوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہل رہی تھیں۔
سازش: ایران فتح ہواتو دشمنوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ صرف ان کو اندرونی مسائل میں اُلجھانا ہے ورنہ مسلمان قابو میں نہیں آ سکتے۔
دفن: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتے ہیں کہ تین دن تک مظلوم خلیفہ کی لاش پڑی رہی اور پھر رات کے اندھیرے میں دفن کیا گیا۔ خلیفہ وقت کی لاش ایسے ہی پڑی رہی تو سوال ہے کہ حضرت حسن و حسین و علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟
حیرت: اسقدر شدید فتنہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا جاتا ہے کہ خلافت لیں مگر وہ قبول نہیں کرتے پھر تاریخ بہت کچھ بیان کرتی ہے حتی کہ خلافت کی بیعت لینے کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراً قاتلین عثمان کو تلاش نہیں کرتے۔
سفارت کاری: متقی اور پرہیز گار خلیفہ کا شہید ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی، اسلئے حضرت طلحہ و زبیر وحضرت عائشہ رضی اللہ عنھم قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کامطالبہ لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف گئے۔ آپس میں کامیاب سفارت کاری ہوئی اور دونوں گروپ کے درمیان مصالحت بھی ہو گئی۔
قتل عام: یہودی و سبائی باغی تولڑائی چاہتے تھے اسلئے رات کے اندھیرے میں دونوں گروپ کے مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا۔ غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اونٹ پر سوار ہوئیں مگر تاثر یہ دیا گیا کہ وہ جنگ چاہتی ہیں۔ اسلئے جوش و خروش میں مسائل پیدا ہوتے گئے حتی کہ عشرہ مبشرہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھما کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے کثیر صحابہ کرام شہید ہوئے۔
اونٹ: جب اونٹ کی کونچیں کاٹ کر محمد بن ابی بکر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو نیچے اتارا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو محفوظ مقام کی طرف روانہ کیا۔ لڑائی جیتنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں طرف کے صحابہ کرام کو مسلمان اور جنتی ڈکلئیرکر کے نماز جنازہ ادا کی، اسلئے کسی بھی صحابی عورت یا مرد کو غلام اور لونڈی نہیں بنایا گیا اور مال غنیمت تقسیم نہیں ہوا اور سب کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔
سہولت کار: باقی آجکل کے دور میں اہلتشیع اور اہلتشیع کے سہولت کار مرزا، ڈاکٹر، قریشی، مفتی، پیر حضرات رافضیوں کے ایجنڈے پر نورارنی شکلیں بنا کرعوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مسلمان: ہم مسلمان ہیں اور کسی بھی جماعت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے اپنا حساب و کتاب خود دینا ہے، اسلئے نہ تو علماء کو کل قیامت والے دن ذمہ دار کہیں گے اور نہ کسی اور کو۔ البتہ خود جو ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اہلسنت مسلمان ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی بھی اہلسنت مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔عقائد اہلسنت پر سب اکٹھے ہو جائیں تو بات ختم۔
اہلتشیع: اہلتشیع کا دین حضور ﷺ، مولا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم والا نہیں ہے کیونکہ اہلبیت کا دین وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ اہلبیت نے صحابہ کرام کی کبھی شکایت نہیں کی، اگر کی ہے تو ثابت کریں کہ حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے متعلق کس حدیث میں کچھ فرمایا۔ البتہ اہلتشیع نے امام جعفر صادق سے منگھڑت تین لاکھ کو احادیث قرار دے کر ختم نب وت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور امام صرف حضور ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حُکم ہے۔
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت