کام کی باتیں
کھیل: ہر وہ کھیل نہیں کھیلنا جس سے نماز قضا ہو جائے اور وہ کھیل بھی نہیں کھیلنا جس میں دو پارٹیاں مالی ہار جیت کی شرط لگائیں کیونکہ اس کو جوا کہتے ہیں۔
نذرانہ: یا تحفہ کسی کو خوش کرنے کے لئے دیا جاتا ہے اور اللہ کریم ہر مسلمان کو جو قرآن اور حضور ﷺ کے فرمان پرچلتا ہوا، ایمان کی حالت میں وفات پائے گا، جنت کا نذرانہ دے گا۔
اللہ کا بندہ: میت یعنی مُردہ ہونے سے پہلے پہلے تیرا نام ڈاکٹر، انجینئیر، پروفیسر، وزیر یا مشیر کچھ بھی ہو مگر اصل کام ”میت“ بننے سے پہلے پہلے اللہ کریم کا بندہ بننا ہے۔
روحانیت: رو حا نیت اس”رو حا نی قوت“ کو کہتے ہیں جو ایما ن وا لے کو شر یعت یا دین پر عمل کر نے سے نصیب ہو تی ہے اور جس سے وہ اپنی ذا تی خواہشا ت اور شیطانی تقا ضو ں کو چھو ڑ دیتا ہے اور یہ اس کی سب سے بڑی کرامت ہوتی ہے۔
کشش: گناہ کی کشش گنا ہ گا ر کو”نیکی” پر چلنے سے رو کتی ہے اور نیکی کی کشش ہمیشہ نیکو کار کو”گنا ہ“ کر نے سے رو کتی ہے، اس کے ضمیر کی ”آواز“ بن جاتی ہے۔ جیسے نما ز بے حیا ئی او ر بر ائی کے کاموں سے رو کتی ہے۔
سوچ: دل میں انتقا م لینے کا منصوبہ ہو تو انسا ن انتقا می کا روا ئی کر تا ہے، جذبات ہوں تو انسان جذبا تی فیصلے کر تا ہے اور دل میں اگر اللہ کر یم کی محبت ہو تو پھر ہر شے میں اللہ کا”نو ر و ظہو ر“ نظر آتا ہے۔
نمازی: مسجد خوبصورت بنا نے سے بڑھ کر کام،کسی بند ے کو نمازی بنانا ہے۔
نقصان: بر ے کا م،برائی اور گناہ سے ہوتا تو کچھ بھی نہیں بس اللہ کریم کا رستہ ”گُم“ ہو جاتا ہے، مقصد سمجھ نہیں آتا، منز ل نظر نہیں آتی، ارادے ٹوٹ جا تے ہیں اور زندگی بوجھ بن جا تی ہے۔
مستقبل: دنیا میں مستقبل کاتعلق دنیا یا پیسے کے حصول کو سمجھا جاتا ہے اور دین میں مستقبل کو آخرت یا حشر میں ”کامیابی“ کو سمجھا جاتا ہے۔
بوجھ: محبت میں کسی کام کا بھی بوجھ اور وزن محسوس نہیں ہوتا اور نفرت میں ہر کام بوجھ اور زخمت لگتا ہے۔ ہر مسلمان جو دین سے دور ہے اُس کو دین سے نفرت ہے ورنہ دین کا بوجھ ضرور اُٹھاتا۔
قانون: شک اپنی ذا ت پر ہو تو کوئی بات نہیں کیونکہ انسانوں میں نقص ہوتا ہے اورشک اللہ کریم کی”با ت یا ذات“ پر ہو توبندہ مسلمان نہیں رہتا۔
گرفت: بند ہ شیطان کی گر فت سے تو نکل سکتا ہے مگر اللہ کریم کی گر فت اور پکڑ سے نہیں نکل سکتا۔
مشن: رب کو جواب دینا ہے کہ یا اللہ میں اپنی تحقیق مکمل کر کے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے اور اہلسنت وہی ہیں جو چار مصلے اجماع امت والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔
اہلتشیع: اہلتشیع کا دین حضور ﷺ، مولا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم والا نہیں ہے کیونکہ اہلبیت کا دین وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ اہلبیت نے صحابہ کرام کی کبھی شکایت نہیں کی، اگر کی ہے تو ثابت کریں کہ حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے متعلق کس حدیث میں کچھ فرمایا۔ البتہ اہلتشیع نے امام جعفر صادق سے منگھڑت تین لاکھ کو احادیث قرار دے کر ختم نب وت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور امام صرف حضور ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حُکم ہے۔
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت