Khilafat Abni Muawiya (خلافتِ ابن معاویہ)

خلافتِ ابن معاویہ

1۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بیعت کی تو اُس کی ایک شرط یہ تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے مگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ 28 صفر 50ھ کو وصال کر گئے۔ اُس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی۔

2۔ ابن معاویہ کو نامزد کرنے کے دوران، دو بندوں، حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری4827) اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی (حلیتہ الاولیاء)۔ حضرت عبداللہ بن عمر (بخاری 7111) اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما (طبری) نے یزید کی بیعت کی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنھم سے مخالفت کی کوئی روایت موجود نہیں۔ 60کے قریب صحابہ نے ابن معاویہ کی بیعت کی۔

3۔ حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ عنھما سید اور جنت کے سردار ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ کے ارشادات موجود ہیں، البتہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی بچپن، جوانی، نکاح، اپنے بچوں سے پیار کا ریکارڈ نہیں ملتا یعنی سوائے چند واقعات اور شہادت کے کچھ ریکارڈ نہیں ملے گا۔ اسی طرح یزید ابن معاویہ کا کوئی ریکارڈ خلیفہ بننے سے پہلے موجود نہیں ہے۔

4۔ البتہ اتنا ریکارڈ موجود ہے کہ سیدنا علی کے بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ بن جعفر کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی زینب سے ہوا، اُن کو طلاق دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے ہوا۔ عبداللہ بن جعفر نے ایک نکاح لیلی بنت مسعود سے کیا جس سے دو بیٹیاں ام محمد اور ام ابیہا پیدا ہوئیں اور ام محمد کا نکاح یزید سے ہوا تھا۔ (نسب قریش، طبقات ابن سعد) اسلئے کربلہ کے بعد حضرت زینب بنت علی اپنی سوتیلی بیٹی اور داماد یزید کے پاس رہیں اور شام میں ہی اُن کا مزار ہے۔ یزید اہلبیت کا قریبی رشتے دار ہے۔

نتیجہ: یزید کو نامزد کیا گیا، یہ اچھا یا بُرا فیصلہ تھا، اس کا فیصلہ صحابہ کرام نہیں کر سکے تو جناب عوام اس دور میں کیسے کر سکتی ہے؟ اسلئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ان کا اجتہادی مسئلہ تھا جس پر بے دین اہلتشیع اور اُس کے سہولت کار ڈاکٹر، انجینئر، بابا اسحاق، مفتی قریشی، رافضی یسین، چشتی نقشبندی قادری پیروں وغیرہ کو بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: ہم ابن معاویہ یعنی یز ید کے حق میں ہر گز نہیں ہیں۔ البتہ اس پوسٹ کا سوال یہ ہے کہ کیاعوام بتا سکتی ہے کہ حضرات ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن اور معاویہ رضی اللہ عنھما کو نامزد کس نے کیا اورنامزد کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہونا چاہئے تھا؟

اہلتشیع: اہلتشیع کا دین حضور ﷺ، مولا علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم والا نہیں ہے کیونکہ اہلبیت کا دین وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ اہلبیت نے صحابہ کرام کی کبھی شکایت نہیں کی، اگر کی ہے تو ثابت کریں کہ حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے متعلق کس حدیث میں کچھ فرمایا۔ البتہ اہلتشیع نے امام جعفر صادق سے منگھڑت تین لاکھ کو احادیث قرار دے کر ختم نب وت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور امام صرف حضور ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حُکم ہے۔

اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general