مولا علی
حدیث ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ (ترمذی 3713، ابن ماجہ 121) کے درس کے دوران گھر اور مسجد میں یہ سوال پوچھے گئے جو عام عوام کوبھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے دُشمنوں کے بچوں کو بھی پڑھانا ہے۔ اس حدیث پر اہلسنت اور اہلتشیع کا موقف بیان کیا جاتا ہے:
1۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کو علم تھا کہ اب میری وفات (وصال) کا وقت قریب ہے، اسلئے حج سے واپسی پر 18 ذی الحج کو”غدیر خُم“ کے مقام پر سیدنا علی کو اپنے بعد خلیفہ یا امام بنانے کی وصیت کی، جس پر وہاں موجود سب صحابہ کرام نے بھی مبارک باد دی، اسلئے سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد خلیفہ بلا فصل، وصی رسول اللہ اور امت کے امام ہیں۔ اس پر اہلتشیع ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے:
اہلتشیع کہتے ہیں کہ ان کے پاس دین ”اہلبیت“ کے ذریعے پہنچا ہے تو یہ بتا دیں کہ (1) حضور ﷺ کی نماز روزے کی احادیث اہلبیت (سیدہ فاطمہ مولا علی، سیدنا حسن و حسین) نے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے 25 سالہ دور میں کن کو سکھائیں؟ کونسی احادیث میں حضور ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا علی نے اپنی ”امامت“ کا اعلان کیا ہے؟ اور ان تفاسیر میں جو لکھا ہے کیا وہ غلط ہے؟
اہلتشیع کی تفسیر صافی اور تفسیر قمی میں اس آیت: و اذا اسری النبی الی بعض زواجہ حدیثا جب نبی ﷺ نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز راز کی بات کی“ کے شان نزول میں لکھا ہے:…. میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہو گا۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے، پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ خبر مجھے اللہ علیم و خبیر نے دی (تفسیر صافی ص 714، تفسیر قمی ص 457، سورہ تحریم)
مسجد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے وصال کے بعد آیت کریمہ الذین کفروا صدوا عن سبیل اللہ اضل اعمالھم کی تلاوت کی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے تلاوت کی وجہ دریافت فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو تمہیں رسول دیں وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ، تم گواہ ہو جاؤ کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ہے (تفسیر صافی جلد 2صفحہ 561، تفسیر قمی جلد 2ص301) یہ دیکھ کر کے کہیں فتنہ نہ پیدا ہو جائے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کی بیعت کر لی۔۔ (شیخ علی البحرانی ”منار الہدی ص 685)اور جب ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم ابوبکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے (شرح نہج البلاغہ 2/45)
سفیان ثوری الرحمہ حضرت محمد بن سکندر سے روایت کرتے ہیں کہ انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفہ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ترجمہ: انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے (رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)
2۔ اہلسنت کا موقف ہے کہ سیدنا علی کو حضور ﷺ نے 300 صحابہ کے ساتھ یمن بھیجا تھا، وہاں سے وہ حج کرنے مکہ آئے تو کچھ صحابہ نے سیدنا علی کی شکایت لگائی، اسلئے حضور ﷺ نے غدیر خم کے مقام پر اس نے کی شکایات کا رد فرما کر سیدنا علی کے متعلق فرمایا کہ جو مجھ سے پیار کرتا ہے وہ علی سے بھی پیار کرے۔
اگر یہ امامت کا اعلان ہوتا تو صحیح بخاری 4447 میں سیدنا عباس سیدنا علی سے یہ نہ فرماتے کہ تین دن تک حضور ﷺ کا وصال ہو جائے گا اسلئے حضور ﷺ سے پوچھ لیتے ہیں کہ ان کے بعد خلیفہ کون ہو گا مگر خدا کی قسم کھا کر سیدنا علی نے انکار کر دیا۔ صحیح بخاری 111 میں سیدنا علی یہ نہ فرماتے کہ میرے پاس کوئی خاص تحریر نہیں ہے سوائے دیت، قیدیوں کی آزادی اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرو۔
صحیح بخاری 7366 (حدیث قرطاس) بھی واضح ہے کہ سیدنا علی کی امامت کا اگر اعلان ہوا ہوتا تو اہلتشیع حضرات یہ شور نہ ڈالتے کہ آخری وقت میں قلم کاغذ مانگ کر ”امامت“ کا لکھ کر دینا چاہتے تھے مگر سیدنا عمر نے کہا کہ ہمیں قرآن و سنت ہی کافی ہے حالانکہ جو لکھ کر دینا چاہتے تھے وہ صحیح بخاری 7217 میں ہے کہ حضور ﷺ سیدنا ابوبکر کی خلافت لکھ کر دینا چاہتے تھے۔
ترمذی 3680: حدیث قرطاس پر اگر یہ کہا جائے کہ سیدنا عمر نے قلم کاغذ نہیں لانے دیا تو ترمذی کی حدیث میں ہے کہ میرے دنیا میں دو وزیر ہیں حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما۔ یہ معاملہ بادشاہ اور وزیر کا ہے اور حدیث کے الفاظ کا ترجمہ اہلسنت کریں، اہلتشیع تو ان احادیث کو مانتے ہیں نہیں۔ اسلئے حدیث ثقلین ہو یا کوئی اور حدیث مگر بحث سے پہلے اصول یہ ہے:
اصول و قانون: اہلتشیع حضرات کی احادیث (مرفوع، موقوف، مقطوع)کی کونسی مستند کتابیں ہیں جو قرآن سے نہیں ٹکراتیں، جن کو وہ مانتے ہیں اور ان احادیث کی شرح کن اصولوں پر کرتے ہیں؟ اور اہلسنت کی کتابوں کی تشریح بھی کیا انہی اصولوں پر کرتے ہیں یا سازش کر کے اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہیں؟
سوال: کیا ہر مسلمان اسطرح اپنے بچوں کی تربیت کر رہا ہے تاکہ احادیث کا بچوں کو علم ہو اور نبی کریم ﷺ کا دین پھیلے، اگر نہیں تو تیار ہوں، وقت تھوڑا ہے اور قیامت والے دن جواب دینا ہے کہ اپنے بچوں کو کونسا دین دے کر آئے ہو۔
حقیقت: اہلتشیع دین مولا حسین کے مُنکر، ان کے نانا کے دین کے مُنکر، ان کے بابا علی کے دین کے مُنکر بلکہ اسلام کے مُنکر ہیں کیونکہ قرآن کتابی شکل میں ہے تو قرآن کو ماننا اللہ کریم کو ماننا ہے۔ حضور ﷺ اور مولا علی کو ماننے کا مطلب ہے کہ اُس مستند اسناد اور راوی کے ساتھ نماز روزے کی احادیث کی کتاب کو ماننا جو حضور ﷺ اور مولا علی کے الفاظ ہوں تو اہلتشیع بتا دیں کہ ان کی مستند احادیث کی کتابیں کونسی ہیں جس کو مان کر نبی ﷺ اور مولا علی کو مانتے ہیں؟یہ نہروان کا باغی گروپ ہے کبھی نہیں بتا سکتے۔
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے ۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت