بارہ امام

 

قرآن و سنت کے مطابق جن کو معصومیت کا درجہ ملا وہ انبیاء کرام ہیں اور جو سب کے امام ہیں، وہ نبی اللہ، حضرت محمد ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حکم اللہ کریم نے قرآن میں دیا۔ البتہ قرآن میں سیدنا علی اور ان کی اولاد کا نام لے کر "امامت” کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اسلئے حضور ﷺ کے بعد سیدنا علی نے امامت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے ان کو امام مانا ہے۔ اس وقت کسی بھی صحابی اور اہلبیت کا عقیدہ 14 معصوم اور 12 امام کا نہیں تھا، اگر ہے تو کتابوں سے ثابت کر دیں۔
(1) اصحاب کا لفظ صاحب کی جمع ہے اور صاحب کا معنی ڈکشنری میں ”ساتھی“ کے ہیں (2) حدیث جس کا مطلب ہے خبر دینا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام وہ ہیں، جن کے فضائل قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان میں موجود ہیں۔ ان اصحاب نے ہی دین تابعین کو سکھایا اور تابعین نے تبع تابعین کو سکھایا۔ "اہلسنت” علماء کرام نے ان اصحاب سے رسول اللہ ﷺ کی صحیح راوی و اسناد کے ساتھ احادیث لیں مگر ان احادیث کو من و عن نہیں مانا بلکہ ان احادیث کی شرح کے اصول بھی بنائے۔ اہلسنت کی کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
حضرات محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، ابو داؤد (202 ۔ 275)، محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)
اہلتشیع کے نزدیک ان کے چھٹے امام جعفر صادق (42 ۔ 148ھ) کے اصحاب (مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار) جن کا ذکر قرآن و رسول اللہ ﷺ کے فرمان میں نہیں ہے اور نہ ہی ان اصحاب نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کی ہیں بلکہ امام جعفر صادق کے وصال کے بعد امام جعفر صادق کی احادیث لی ہیں جو مندرجہ ذیل اصولہ اربعہ کتب میں موجود ہیں مگر اہلسنت و اہلتشیع کے نزدیک یہ نہج البلاغہ کی طرح صحیح اسناد و راوی کے ساتھ نہیں ہیں اسلئے ان کتابوں سے مُکر بھی جاتے ہیں اور یہ بھی نہیں بتاتے کہ ان احادیث کی شرح کے اصول کیا ہیں؟
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے تقریباً 180برس بعد
(2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230سال بعد
(3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً310برس بعد
فرق: اہلتشیع حضرات کے نزدیک امام جعفر صادق نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد نبی کریم ﷺ کے اصحاب مسلمان نہیں رہے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی غدیر خم کی حدیث پر عمل نہیں کیا اور سیدنا علی کی اما مت کو نہیں مانا۔ اہلتشیع کے اس بیانیے سے قرآن مشکوک کیونکہ اکٹھا صحابہ کرام نے کیا، نبوت مشکوک کیونکہ نبی کریم ﷺ کی تعلیم کے مطابق اصحاب نے خلافت کی بشمول سیدنا علی کے، سیدنا علی پر الزام کہ انہوں نے اما مت نہیں بلکہ خلافت کی ہے اور جو ان کی امامت کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔
برین واشنگ: اہلتشیع حضرات کے نزدیک رسول اللہ ﷺ نے ابتدا سے انتہا تک جن کو تبلیغ سے مسلمان کیا اور جنہوں نے خلافت کی سب کے سب رسول اللہ ﷺ کے بعد مسلمان نہیں رہے اور اس جھوٹے دین کے تخلیق کاروں نے اہلتشیع عوام کی برین واشنگ کر کے ان کو ان الفاظ پر لگا دیا گیا ہے جیسے فدک کے چور، بنو ثقیفہ میں حضور ﷺ کا جنازہ چھوڑ کر حکومت کے لالچی خلفاء، سیدہ فاطمہ کے گھر کو آگ لگانے والے، بغض اہلبیت، بغض علی رکھنے والوں پر ۔۔

امام: ہر مسلمان کے اصل امام حضرت محمد ﷺ ہیں جن کی اتباع کا حُکم اللہ کے قرآن میں موجود ہے۔ اسلئے اہلسنت و جماعت تمام انبیاء کرام سمیت حضورﷺ کو معصوم مانتے ہیں۔

فقہی امام: اہلسنت کے چار علماء“ حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔ 150)، مالک بن انس (93 ۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150 ۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165 ۔ 241 ھ) فقہی امام ہیں جن کی بات حدیث نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی فقہ کی بنیاد اصولوں پر رکھی۔

محدث امام: چھ محدثین امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، ابو داؤد (202 ۔ 275)، محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی) ہیں۔

بارہ امام: اہلبیت کی آل میں سے یہ بارہ نہیں بلکہ سیدنا علی، حسن و حسین و دیگر اہلبیت کی تمام آل ہماری امام ہے مگر یہ بارہ کو مشہور اہلتشیع حضرات نے کسی خاص مقصد کے لئے کیا ہے اور ان میں سے کوئی بھی اہلسنت کے فقہی اور محدث امام کی طرح حضور ﷺ کے برابر امام نہیں بلکہ سب حضور ﷺ کی پیروی کرنے والے غلام ہیں:

لعنت ملامت، برا بھلا، یا علی مدد نعرہ کا “کمنٹ” ڈلیٹ ہونا چاہئے کیونکہ اس پیج پر صرف سیکھنا سکھانا ہے۔ ہر مسلمان کا اللہ ایک، نبی ایک، دین ایک ہے۔ دین اللہ کریم کے قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گذارنے کا حُکم دیتا ہے۔ البتہ اہلتشیع کی تعلیم میں رسول اللہ ﷺ شامل نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک نبوت ختم ہو گئی اور اُس کے بعد خلافت نہیں بلکہ امامت کی تعلیم جاری ہوئی۔ اگر ایسا سچ ہے یا نہیں:
سوال: اہلتشیع حضرات سے سوال ہے کہ نبوت کی تعلیم کونسی تھی اور امامت کی تعلیم کونسی تھی؟ نبی کریم کی احادیث کی کتاب کونسی تھی اور پہلے امام سیدنا علی کی نماز روزے کی تعلیم کی احادیث کونسی تھیں؟ نبی کریم ﷺ نے کونسے مسلمان کئے اور سیدنا علی نے نبی کریم ﷺ کے بعد کونسے مسلمان کئے؟ نبی کریم ﷺ کے بعد جو دین قیصر و کسری تک پہنچا وہ امامت والا تھا یا خلافت والا تھا؟ پہلے امام اہلتشیع کے مولا علی کی امامت اور امامت کی تعلیم کو کس نے خلافت کے مقابلے میں قبول کیا؟
نتیجہ: اگر ان سوالات پر غور کر لیا جائے تو واضح طور پر علم ہو گا کہ اہلتشیع کی بنیاد میں نبوت اور امامت دونوں شامل نہیں ہیں۔
12 امام
1۔ سیدنا علی کی شہادت 40ھ تقریباً عمر 63 سال
2۔ سیدنا حسن (3 – 49ھ) عمر 46 سال
3۔ سیدنا حُسین (4 – 61ھ) 57 سال
4۔ سیدنا زین العابدین (38 – 95ھ) عمر 57 سال
5۔ سیدنا باقر (57 – 114ھ) عمر 46 سال
6۔ سیدنا جعفر صادق (82 – 148ھ) عمر 66 سال
7۔ سیدنا موسی کاظم (128 – 183ھ) عمر55 سال
8۔ سیدنا علی رضا (148 – 203ھ) عمر55 سال
9۔ محمد تقی (195 – 220ھ) عمر 25 سال
10۔ سیدنا علی نقی (212 – 254ھ) عمر 42 سال
11۔ سیدنا حسن عسکری (232 – 260ھ) 28سال
12۔ اہلتشیع کے نزدیک 12واں امام پیدا ہو کر کسی غار میں غائب ہو چکا ہے، اب وہ قیامت والے دن ہی آئے گا، اہلسنت کے نزدیک ابھی وہ پیدا نہیں ہوا۔

1۔ پہلے امام سیدنا علی

سیدنا علی بچوں میں سب سے پہلے حضورﷺ پر ایمان لانے والے، بہادر، نڈر، اورحضورﷺ کے داماد ہیں۔ آیت تطہیر میں، حدیث کساء میں اور مباہلے میں شامل ہیں۔ غدیر خم پر ہر الزام سے پاک کر کے حضوﷺ نے سیدنا علی کو مولا فرمایا، البتہ یہ اعلان امامت یا خلافت ہر گز نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضورﷺ کے وصال کے بعد سیدنا علی جیسا بہادر مومن حضورﷺ کے فرمان پر اعلان نہ کرتا تو منافق کہلاتا۔

سیدنا علی نے تینوں خلفاء کرام کے قرآن و سنت کے فیصلے کو مانا ہے چاہے باغ فدک ہو، چاہے سیدنا ابوبکر کی امامت ہو۔ قرآن و سنت پر سب صحابہ کرام تھے۔ اسلئے حضورﷺ، چاروں خلفاء کرام اورسیدنا حسن کی حضرت معاویہ کی بیعت تک چودہ معصوم اور بارہ امام والے ”شیعان علی“ نہیں ملیں گے۔ سیدنا علی کی ازواج و اولاد کے نام یہ ہیں:

سیدنا علی کا نکاح سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ سے ہوا اوران کی زندگی میں سیدنا علی نے کسی اور سے نکاح نہیں کیا۔ سیدہ فاطمہ کے بطن سے سیدہ علی کے دو بیٹے سیدنا حسن، حسین اور دو بیٹیاں سیدہ زینب کبریٰ و سیدہ ام کلثوم کبریٰ نے عمر پائی۔

دوسری بیوی سیدہ ام البنین بنت حزام عامریہ جن سے چار فرزند حضرت عباس جو ابوالفضل اور علمدار کربلا کے نام سے مشہور تھے، حضرات جعفر، عبداللہ اور عثمان پیدا ہوئے اور یہ سارت کربلا میں شہید ہوئے۔

تیسری بیوی سیدہ لیلیٰ بنت مسعود تیمیہ جن سے دو بیٹے عبیداللہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ یہ دونوں بھی کربلا میں شہید ہوئے۔

چوتھی بیوی سیدہ اسما بنت عمیس خثعمہ جن کا پہلا نکاح سیدنا جعفر بن ابی طالب سے ہوا جو سیدنا علی کے بڑے بھائی تھے اور جن سے سیدنا محمد، عبد اللہ اور عون رضی اللہ عنھم پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح سیدہ اسماء کا سیدنا ابو بکر صدیق سے ہوا جن سے حضرت محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے اور تیسرا نکاح سیدنا علی سے ہوا جن سےحضرت یحییٰ اور محمد اصغر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ (بعض نے محمد اصغر کی جگہ عون رحمتہ اللہ علیہ لکھا ہے)۔

پانچویں بیوی سیدہ ام حبیبہ بنت زمعہ سے حضرت عمر اور سیدہ رقیہ پیدا ہوئے۔ چھٹی بیوی سیدہ ام سعید بنت عروہ سے دو لڑکیاں ام الحسین اور رملہ کبریٰ پیدا ہوئیں۔ ساتویں بیوی محیاۃ بنت امراءالقیس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئیں۔

آٹھویں بیوی سیدہ امامہ بنت ابوالعاص جو سیدنا ابو العاص اور سیدہ زینب بنت رسول ﷺ کی بیٹی ہیں، ان سے سیدہ فاطمہ کے وصال کے بعد نکاح ہوا جن سے محمد اوسط رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ نویں بیوی سیدہ خولہ بنت جعفر حنفیہ ہیں جن سے محمد اکبر پیدا ہوئے، جو محمد حنفیہ کے نام سے معروف ہیں۔

لونڈیاں: متعدد با ندیوں سے حضرات ام ہانی، میمونہ، زینب صغریٰ، رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، فاطمہ، امامہ، خدیجہ، ام الکبریٰ، ام سلمہ، ام جعفر، ام جمانہ، نفیسہ رضی اللہ عنہم اجمعین اولاد ہوئی۔

ٹوٹل: تاریخ کی کتابوں سے سیدنا علی کے کل 14 لڑکے اور 17 لڑکیوں کا علم ہوتا ہے۔ ان میں سے پانچ (سیدنا حسن و حسین اور محمد بن الحنیفہ، عباس، عمر) سے سلسلہٴ نسل جاری رہا۔ حضرات عباس، عمر بن علی اور محمد بن الحنفیہ کی نسل علوی کہلاتی ہے۔

حوالہ جات: (1) ابن کثير، البدايه و النهايه، 7: 332، بيروت، مکتبه المعارف (2) ابن قتيبه، المعارف، 1: 210، القاهره، دارالمعارف (3) ابن کثير، الکامل في التاريخ، 3: 262، بيروت (4) تاریخ اسلام: شاہ معین الدین ندوی، ص: 328)۔

دوسرے امام سیدنا حسن

سیدنا حسن، حضورﷺ کے نواسے، سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی کے بڑے بیٹے، سیدنا حسین کے بھائی ہیں۔ حدیث کساء میں، آیت تطہیر اور مباہلے میں شامل ہیں۔ تاریخ میں سیدنا حسن پرجھوٹا الزام ہے کہ آپ نے 99 یا 150 یا 300 کے قریب عورتوں سے نکاح کئے۔ سیدنا حسن کی زوجہ اور اولاد کے نام:

پہلی بیوی سیدہ ام کلثوم جو حضورﷺ کے چچا سیدنا عباس کے بیٹے سیدنا فضل کی بیٹی تھیں۔ دوسری بیوی سیدہ خولہ بنت منظورجن کا پہلا نکاح سیدنا طلحہ کے بیٹے محمد سے ہوا جو جمل کی لڑائی میں شہید ہوئے، اس کے بعد سیدنا حسن سے ہوا جس سے حسن مثنی پیدا ہوئے۔ تیسری بیوی ام بشیر بنت ابی مسعود انصاری جن سے زید، ام الحسن و ام الحسین پیدا ہوئے۔

چوتھی بیوی ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ (عشرہ مبشرہ) جس سے طلحہ، حسین (لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے۔ سیدنا حسن کی وفات کے بعد سیدنا حسین سے ام اسحاق کا نکاح ہوا۔ پانچویں بیوی ام ولد یا رملہ جن سے حضرت ابوبکر بن حسن پیدا ہوئے جو کربلہ میں شہید ہوئے۔ چھٹی بیوی ام فروہ سے قاسم پیدا ہوئے، یہ بھی کربلہ میں شہید ہو گئے۔

دیگر ازواج میں عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ، جعدہ بنت اشعث، ہند بنت سہیل بن عمرو، ام عبداللہ بنت سلیل بن عبداللہ شامل ہیں جن سے عبداللہ، عبدالرحمن، ام عبداللہ، ام سلمہ و رقیہ پیدا ہوئے۔

ٹوٹل: ابن جوزی، ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک سیدنا حسن کے 15 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہیں۔ کربلہ میں سیدنا حسن کے تین بیٹے حضرت قاسم، ابوبکر اور عبداللہ شہید ہوئے۔ حضرت حسن مثنی کا نکاح سیدنا حُسین کی بیٹی سیدہ فاطمہ سے ہوا جن سے عبداللہ، ابراہیم، حسن و زینب رحمتہ اللہ علیھم پید ا ہوئے۔ حسنی سادات بھی سیدنا حسن کی اولاد سے ہیں جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ۔ اسلئے اہلتشیع ان سے بہت نفرت کرتے ہیں کیونکہ اہلسنت ہیں۔ زیدی حسنی نسل بھی زید بن حسن سے چلی ہے مگر حسن مثنی اور حضرت زید بن حسن رحمتہ اللہ علیھما اہلتشیع کے نزدیک معصوم نہیں ہیں۔

وفات: سیدنا حسن کی وفات طبیعی تھی یا زہر دیا گیا؟ تاریخ کی کتابوں سے قاتلوں کا تعیین نہیں ہوتا۔ اہلتشیع کے نزدیک پیدائش 15رمضان المبارک اور وفات 28 صفرالمظفرکو ہوئی۔

تیسرے امام سیدنا حسین

سیدنا حسین، حضورﷺ کے نواسے، سیدہ فاطمہ اورسیدنا علی کے بیٹے اور سیدنا حسن کے بھائی ہیں۔ حدیث کساء اور آیات تطہیرو مباہلے میں شامل ہیں۔ سیدنا حسین کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ہیں:

پہلی بیوی حضرت شہر بانو جو ایران کے آخری بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھی۔ سیدنا عمر کا ایران کو فتح کرنا، تین شہزادیوں کا لونڈی بننا، تین میں سے ایک کا نکاح سیدنا عبداللہ بن عمرجن سے سیدنا سالم، دوسری کا نکاح محمد بن ابی بکرجن سے قاسم اور تیسری حضرت شہر بانوکا نکاح سیدنا حسین سے ہوا جن سے سیدنا زین العابدین پیدا ہوئے۔ تینوں شہزادیوں کے متعلق کسی کو علم ہو کہ کربلہ سے پہلے یا کربلہ کے بعد کہاں گئیں تو بتا دے۔

دوسری بیوی حضرت لیلی بنت مرہ جو سیدنا معاویہ کی بہن سیدہ میمونہ جو سیدنا حسین اور حضرت لیلی سیدنا معاویہ کی بھانجی ہیں جن سے حضرت علی اکبر(تقریباً 26 سال کی عمر میں کربلا میں شہید ہو گئے) پیدا ہوئے۔ (کتاب نسب قریش از مصعب زبیری)

تیسری بیوی حضرت رباب بنت امراء القیس بن عدی جن سے حضرت سکینہ (جوشام میں باب صغیر میں مدفون ہیں)۔ حضرت عبداللہ بن حسین المعروف علی اصغر(کربلہ میں 6 ماہ کی عمر میں شہید ہوئے) اور رقیہ بنت حسین (چار سال کی عمر میں وفات پا گئیں) پیدا ہوئے۔

چوتھی بیوی ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ جوسیدنا حسن کی وفات کے بعد سیدنا حسین کےنکاح میں آئیں اورجن کے بطن سے فاطمہ صغری پیدا ہوئیں اور فاطمہ صغری کا نکاح سیدنا حسن کے بیٹے حضرت حسن مثنی سے ہوا تھا۔ حضرت حسن مثنی کے بعد حضرت فاطمہ صغری نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے نکاح کیا جن سے محمد، دیباج، قاسم اور رقیہ تھیں۔

چوتھے امام: حضرت علی المعروف زین العابدین (38 – 95ھ) جو کربلا میں بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کا نکاح حضرت فاطمہ بن حسن سے ہوا جن سے حسنی حُسینی باقر رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ سیدنا زین العابدین کے ایک بیٹے حضرت زید بھی ہیں جن سے زیدی نسل چلی مگر اہلتشیع معصوم صرف حضرت باقر کو مانتے ہیں۔ جنت البقیع میں سیدنا حسن مجتبی، زین العابدین، باقر، جعفر صادق کی قبریں اکٹھی ہیں۔

پانچویں امام: سیدنا باقر(57 – 114ھ) کا نام محمد اور لقب باقر تھا۔ اسلئے آپ محمد بن علی بن حسین بن علی ہیں ۔ سیدنا ابوبکر کے بیٹے محمد بن ابی بکر اور اُن کے بیٹے سیدنا قاسم کی بیٹی ام فروہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق ہیں۔ سیدنا محمد باقرکا نکاح سیدنا ابوبکر صدیق کی اولاد سے ہوا، جن سے سیدنا جعفر صادق پیدا ہوئے۔ اسلئے یہاں حسنی حسینی اور صدیقی اکٹھے ہو گئے۔

چھٹے امام: حضرت جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی المعروف امام جعفر صادق (82 – 148ھ عمر 65 سال) ، پہلی بیوی حضرت حمیدہ کے بطن سے حضرت موسی کاظم،اسحاق و محمد پیدا ہوئے۔ دوسری بیوی حضرت فاطمہ سے اسماعیل، عبداللہ، افطح و ام فروہ پیدا ہوئے اوردیگر ازواج سے حضرت عباس، علی، اسماء اور فاطمہ پیدا ہوئے۔

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ساتویں امام: سیدنا موسی، لقب کاظم ( 128 – 183ھ، عمر 55 سال) کی بیوی کا نام نجمہ ملتا ہے جن سے حضرت رضا، معصومہ، ابراہیم، قاسم، شاہ چراغ، حمزہ، عبداللہ، اسحاق، حکیمہ پیدا ہوئے۔آپ کا مزار بغداد عراق میں ہے۔

آٹھویں امام: سیدنا علی، رضا لقب، (148 – 203ھ عمر55 سال) جن کی بیوی کا نام سبیکہ ہے اور اولاد میں حضرت محمد تقی، حضرات حسن، جعفر، ابراہیم، حسین و عائشہ کے نام آتے ہیں۔ ایران کے شہر مشہد میں آپ کی قبر انور ہے۔

نویں امام: نام محمد، لقب تقی (195 – 220ھ)، آپ کی ازواج میں سمانہ، مغربیہ، ام الفضل بنت مامون کے نام ملتے ہیں اور اولاد میں حضرت علی، موسی، فاطمہ اور امامہ کے نام ملتے ہیں۔ سیدنا موسی کاظم کے ساتھ ہی قبر انور ہے۔

دسویں امام: سیدنا علی، لقب نقی (212 – 254ھ)، بیوی کا نام حدیث ملتا ہے اور اولاد میں حضرت حسن، محمد، حسین، جعفر کے نام ملتے ہیں اور عراق میں آپ کی قبر ہے اور ساتھ ہی گیارھویں امام حسن عسکری کی بھی قبر ہے۔

گیارہویں امام: نام حسن (232- 260ھ)، سامرہ کے محلہ عسکر میں رہنے کی وجہ سے عسکری کہلاتے ہیں۔ بیوی کا نام نرجس بتایا جاتا ہے، ان کے گھر اولاد پیدا نہیں ہوئی اور اہلتشیع کہتے ہیں کہ پانچ سال کا بچہ پیدا ہوا جو ایک غار میں غائب ہو گیا اور غائب سے عوام کو دیکھ رہا ہے جسے وہ امام مھدی کہتے ہیں۔ اہلسنت کے نزدیک امام مہدی ابھی پیدا ہوں گے۔

نتیجہ: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے، یہ چودہ معصوم اور بارہ امام کا فارمولہ حضور ﷺ، صحابہ کرام اور اہلبیت سے نام بنام تشکیل نہیں پایا۔ امامت یا خلافت کی ذمہ داری سوائے سیدنا علی اور سیدنا حسن کے کسی نے پوری نہیں کی۔ جب ان کا دین صحابہ کرام ، پنجتن اور بارہ امام کی احادیث کا بھی نہیں ہے تو یہ مسلمان کیسے ہوئے؟؟ ان کی عوام کی برین واشنگ کر کے لعنت لعنت کہنے کی زبان دے کر ان کو عقل و شعور سے بے گانہ کر دیا گیا ہے۔

بیٹیاں: سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ کی نسل سے دو بیٹیاں (سیدہ زینب اورسیدہ ام کلثوم) بھی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سیدہ فاطمہ کی والدہ سیدہ خدیجہ اور بیٹیاں معصوم نہیں کیوں؟؟

سیدہ زینب بنت علی: حضور ﷺ کے چچا ابو طالب، اُن کے بیٹے سیدنا جعفر طیار،سیدنا جعفر کے بیٹے سیدنا عبداللہ سے سیدہ زینب بنت علی کا نکاح ہوا جن سے دو بچے حضرت عون اور محمد پیدا ہوئے جو کربلہ میں شہید ہوئے اور دیگر تین عبداللہ، علی اور ام کلثوم ہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ سیدہ زینب کو سیدنا عبداللہ نے کربلہ جانے سے منع کیا وہ نہ مانیں تو ان کو طلاق دے دی۔

سیدہ ام کلثوم بنت علی: سیداہ ام کلثوم کا پہلا نکاح سیدنا عمر فاروق سے ہوا جس سے دو بچے حضرت زید اور لڑکی فاطمہ پیدا ہوئے۔ سیدنا عمر فاروق کی وفات کے بعد سیدہ ام کلثوم کا نکاح سیدنا جعفر طیار کے بیٹے عون، سیدنا عون کی وفات کے بعد اُن کے بھائی سیدنا محمد اور اُن کی وفات کے بعد اُن کے بھائی عبداللہ جن سے پہلے سیدہ زینب بنت علی کا نکاح ہوا، اُن سے سیدہ ام کلثوم کا نکاح ہوا۔ سیدنا جعفر طیار کے سب بیٹوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے سیدہ ام کلثوم کا نکاح ہوا۔

تاریخ: طبقات ابن سعد اور نساب قریش تاریخی کتابوں کے مطابق سیدنا عبداللہ بن جعفر جو سیدہ ام کلثوم بنت علی اور سیدہ زینب بنت علی کے شوہر تھے، اُن کا ایک نکاح لیلی بنت مسعود سے ہوا جس سے دو بیٹیاں ام محمد اور ام ابیہا پیدا ہوئے۔ ام محمد بیٹی کا نکاح یزید بن معاویہ سے ہوا۔ اسلئے سیدہ زینب اور سیدہ ام کلثوم اور سیدنا جعفر طیار کا خاندان بنو امیہ کے گھر ٹھرتا تھا۔

بنو امیہ: سیدنا علی کی دونوں بیٹیاں ام کلثوم اور زینب کا مزار دمشق شام میں ہے، اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار کا بنو امیہ خاندان سے گہرا رشتہ تھا۔ واقعہ کربلا کے ساتھ ساتھ ان حقائق کو ضرور یاد رکھنا چاہئے تاکہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب گمراہ نہ کرے۔

تاریخ : تاریخ مستند نہیں ہوتی کیونکہ تاریخ کی کتابیں لکھنے والے اہلتشیع ابو مخنف جیسے جھوٹے ہیں جن سے تاریخ طبری اور پھر تاریخ ابن کثیر نے روایات لے کر کہا کہ ہمارے پاس کوئی ماخذ نہیں سوائے ان جھوٹوں کی کتابوں کے۔ اسلئے تاریخ کی کتابوں سے پہلے قرآن و سنت کا علم ہونا چاہئے ورنہ بہت سی عوام گمراہ ہوجاتی ہے۔

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔

سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

نتیجہ: بارہ امام نبی کریم کی تعلیم پر تھے یا ان کا قول بھی نبی اکرم کی حدیث کی طرح حدیث تھی؟ نبی کریم کے مقابلے میں بارہ امام کی بات اگر حجت تسلیم کر لی جائے تو نبوت کی تعلیم ختم ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا علم کتابوں سے ہوتا ہے:
اہلسنت و اہلتشیع کی بنیادی کتابیں
اہلسنت: صحاح ستہ سے پہلے 81 کتابیں احادیث کی موجود ہیں۔ البتہ صحاح ستہ یعنی امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی) نے اسناد و راوی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی احادیث اکٹھی کیں۔ جس کا مطلب ہے کہ 350 ھ میں یہ سب اکٹھی ہو گئیں تھیں۔
اہلتشیع: اصول اربعہ یعنی امام جعفر کی "احادیث” کی کتابیں کیونکہ ان کی اسناد و راوی امام جعفر تک ختم ہو جاتے ہیں، اسلئے ان کتابوں کو رسول اللہ ﷺ کی نہیں بلکہ امام کی کتابیں مانا گیا (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی ہیں۔
فرق: یہ دین اسلام کے بعد ایک نیا دین امامت کے نام پر ایجاد کیا گیا ہے جو منکر قرآن، منکر نبوت اور منکر خلافت، منکر علی، منکر اہلبیت ہیں۔ نبوت کی تعلیم کے منکر اسلئے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے صرف ایک مولا علی کو مسلمان نہیں کیا تھا بلکہ حجتہ الوداع پر اہلسنت کی حدیث کے مطابق 124000 عورت و مرد و بچے شامل تھے۔
دو اسلام: سوال یہ ہے کہ اہلسنت نبوت کی تعلیم کے منکر ہو کر اور امامت کی منگھڑت تعلیم پر کیسے گھوڑا، تقیہ، تبرا، بدا عقائد کی پیروی کر سکتے ہیں۔ اسلئے اہلتشیع جماعت کو غوروفکر کی دعوت ہے یا ہماری اصلاح کر دیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general