حدیث نجد
صحیح بخاری 1037: حضور ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ ہمارے لئے شام اور یمن میں برکت عطا فرما۔ بعض لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ پھر یمن اور شام کے لئے برکت کی دُعا کی۔ بعض لوگوں نے پھر عرض کی یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، آپ ﷺ نے فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ وہیں سے نکلے گا۔
ابتدائیہ: کسی بھی اہلسنت عالم نے کسی کتاب میں بدعت و شرک نہیں سکھایا جیسے قرآن و احادیث میں کسی کو بے نمازی بننے کا حُکم نہیں دیا گیا۔ مسئلہ دو ممالک کے حُکمرانوں کے درمیان نہیں بلکہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) اور سعودی عرب کے وہابی علماء کے درمیان اختلاف کا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے محدثین و علماء کے نام امام حجر عسقلانی، امام بدرالدین عینی، امام جلال الدین سیوطی، امام حجر مکی، امام ملا قاری، امام یوسف نبہانی، امم شمس الدین دمشقی، امام زرقانی، امام عابدین شامی ، امام مجدد الف ثانی، امام احمد قسطلانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدلاعزیز محدث دہلوی، مولانا فضل حق خیر آبادی رحمتہ اللہ علیھم ہیں مگر سعودی عرب کے وہابی محدثین کے نام موجودہ دیوبندی اور اہلحدیث علماء بتا سکتے ہیں۔
عبدالوھاب نجدی کون تھا؟
محمد بن عبدالوھاب 1115ھ بمطابق 1705ء نجد میں پیدا ہوا۔ ابتدائی عمر میں مدینہ منورہ میں علم حاصل کرتا تھا مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان سفر کیا کرتا تھا۔ اس کی اصل برو تمیم سے ہے۔ اس کے اساتذہ میں شیخ محمد بن سلیمان الکروی الشافعی اور شیخ محمد حیاء السندی الحنفی بھی ہیں یہ اساتذہ اسی میں الحاد و ضلالت و گمراہی کی علامات پاتے تھے اور فرماتے تھے کہ عنقریب یہ گمراہ ہو جائیگا اور اللہ تعالی اس کی وجہ سے بعد میں آنے والوں کو بھی گمراہ کریگا چناچہ ایسا ہی ہوا اور انکی فراست غلط نہ ہوئی۔ اس کے والد ماجد بھی اس میں الحاد کی علامات پاتے تھے اور اکژ اس کی برائی کرتے تھے اور لوگوں کو اس سے بچنے کی تاکید کرتے تھے۔ اسی طرح اس کے بھائی علامہ سلیمان بن عبدالوھاب بھی اس کی ایجاد کردہ بدعات و ضلال اور عقائد باطلہ کا انکار کرتے تھے بلکہ انھوں نے اس کے رد میں ایک کتاب الصواعق الالھیہ فی رد الوھابیہ لکھی۔ ملاحظہ فرمائیں شٰیخ الاسلام مفتی حرم علامہ احمد بن ذینی دحلان مکی رحمتہ اللہ علیہ کی الدررالسنیہ ص 42 اور محمد عبدالوھاب نجدی کے بھائی علامہ سلیمان بن عبدالوھاب کی کتاب الصواعق الالھیہ فی ردالوھابیہ ص 5 مطبوعہ استانبول سن طبع 1975۔
دیو بندیوں کے شیخ القرآن علامہ عبدالہادی شاہ منصوری اپنی کتاب تسہیل البخاری میں فرماتے ہیں: لعل المراد منہ قرن محمد بن عبدالوھاب النجدی الظاغی الباغی۔ (تسہیل البخاری ص 21 مطبوعہ دارلعلوم تعلیم القرآن موضع شاہ منصور ضلع مردان)
مفتی حرم مکہ علامہ احمد بن ذینی دحلان مکی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: روایت میں ہے کہ دو قرن الشیطان (شیطان کے سینگ) نکلیں گے بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ان دونوں سے مراد مسلیمہ کذاب اور محمد بن عبدالوھاب ہیں۔
علامہ احمد بن محمد صاوی متوفی 1223 ھ لکھتے ہیں: علماء نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ان خارجیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو قرآن پاک اور حدیث کی تاویل میں تحریف کرتے ہیں اور پھر اس تحریف کے زریعے مسلمانوں کے خون بھانے اور مال و متاع کو لوٹ لینے کو جائز قرار دیتے ہیں جیسا کہ انہی جیسے لوگوں سے اسی زمانے میں شاھدہ میں آیا ہے یہ لوگ سر زمین حجاز میں ایک فرقہ ہے جنہیں وھابی کہا جاتا ہے ان کا خیال ہے کہ حق پر صرف وہی ہیں حالانکہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ شیطان نے انہیں بھلا کر اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہ لوگ شیطانی گروہ ہیں اور حقیقتا شیطانی گروہ کے لوگ ہی خسارے میں رہنے والے ہیں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے کرتے ہیں کہ اللہ انکی جڑ کاٹ دے۔ (الصاوی علی الجلالین ص 397 مطبوعہ مصر)
علامہ تھانوی دیوبندی نسائی شریف کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: جو محمد بن عبدالوھاب نجدی کا دین قبول کرتے ہیں اور اصول فروع میں اسی کے راستے پر چلتے ہیں ان کو ہمارے شہروں میں وھابی اور غیر مقلدین کھا جاتا ہے وھابی گمان کرتے ہیں کہ آئمہ اربعہ رضی اللہ عنھم میں سے کسی کی تقلید کرنا شرک ہے اور جو ھماری مخالفت کریں وہ مشرک ہیں وھابی ھم اھل سنت کا قتل اور ھماری عورتوں کو قید کرنا حلال مانتے ہیں ان کے دیگر عقائد فاسدہ جو ہمیں معتبر علماء سے پہنچے ہیں بعض نے انکو خوارج بھی بتاہا ہے۔
محدث دیوبند انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں: ابن عبدالوھاب ایک غبی آدمی تھا معمولی علم رکھتا تھا کفر کا فتوی دینے میں سرعت سے کام لیتا تھا اس وادی میں قدم رکھنا اس کو زیبا ہے جو بڑا بیدار مغز ہو۔ کفر کے وجوہ و اسباب کا حقیقی علم اور پوری معرفت رکھتا ہو۔
حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں: محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتدا تیرھویں صدی نجد عرب سے ظاھر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اھل سنت والجماعت سے قتل و قتال کی ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کہ غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اھل حرمین کو خصوصا اور اھل حجاز کو عموما اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شھید ہو گئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار فاسق شخص تھا اس وفہ سے اھل عرب کو خصوصا اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے اور اس قدر ہے لہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے (شہاب ثاقب ص 42 مطبوعہ محمدی پرنٹنگ پریس لاہور)
امام ابن عابد شامی فرماتے ہیں کہ جیساکہ ہمارے زمانہ میں فتنہ خارجیت برپا ہوا۔ (ابن) عبدالوہاب کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین شریفین پر زبردستی غلبہ پا لیا۔ وہ خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرتے تھے جبکہ انکا عقیدہ تھا کہ صرف وہی مسلمان ہیں۔ اور انکے عقیدے کے برخلاف اعتقاد رکھنے والے مشرک ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اہلسنت اور انکے علماء کو قتل کرنا مباح قرار دیا حتی کہ اللہ تعالی نے انکی شان و شوکت کو توڑ دیا۔ ان کے شہروں کو برباد فرما دیا اور مسلمانوں کے لشکر کی مدد فرمائی۔ یہ 1233 ھ کا واقعہ ہے۔ (فتاوی شامی شریف، ص 413/ج3)
اہلسنت امام جناب احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں: محمد بن عبدالوہاب نے یہ نیا مذہب نکالا، اس کے بھائی شیخ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہ اہل علم سے تھے اُس پر ہر فعل و قول میں سخت انکار فرماتے ایک دن اس سے کہا اسلام کے رُکن کَے(کتنے) ہیں، بولا پانچ۔ فرمایا تُو نے چھ کر دئیے، چھٹا یہ کہ جو تیری پیروی نہ کرے وہ مسلمان نہیں، یہ تیرے نزدیک اسلام کا رُکن ششم ہے۔ اور ایک صاحب نے اس سے پوچھا، اللہ تعالی رمضان شریف میں کتنے بندے ہر رات آزاد فرماتا ہے؟ بولا، ایک لاکھ اور پچھلی شب اتنے کہ سارے مہینے میں آزاد فرمائے تھے۔اُن صاحب نے کہا، تیرے پیرو تو اس کو سوویں (100) حصہ کو بھی نہ پہنچے وہ کون مسلمان ہیں جنھیں اللہ تعالی رمضان میں آزاد فرماتا ہے، تیرے نزدیک تو بس تُو اور تیرے پیرو ہی مسلمان ہیں۔ اس کے جواب میں حیران ہو کر رہ گیا۔۔اور ایک شخص نے اس سے کہا یہ دین کہ تُو لایا نبی ﷺ سے متصل ہے یا منفصل؟ بولا خود میرے اساتذہ اور ان کے اساتذہ چھ سو برس تک سب مُشرک تھے۔ کہا تو تیرا دین منفصل ہوا متصل تو نہ ہوا، پھر تُو نے کس سے سیکھا؟ بولا مجھے خضر کی طرح الہامی وحی ہوئی۔“(فتاوی رضویہ جلد نمبر 27 ص 586)
کمنٹ سیکشن : اس پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں حدیث نجد پر لکھی مفتی ظہور احمد جلالی صاحب کی کتاب کا لنک موجود ہے جس میں انہوں نےثابت کیا ہے کہ نجد وہی ہے جو ریاض میں ہے اور محمد بن عبدالوہاب ہی نجدی و خارجی ہے۔ دیوبندی علماء کی متضاد بیانات کے سکین کے لنک موجود ہیں کہ خلافت عثمانیہ میں بیان کچھ اور ہے اور سعودی عرب کے وجود میں آنے کے بعد منافقانہ بیان ہے۔ اہلحدیث بالکل ثابت کر رہے ہیں کہ محمد بن عبدالوہاب سے پہلے عرب والے بدعتی و مشرک تھے۔ سب کے لنک کمنٹ سیکشن میں ہیں اگر نہ ملیں تو مانگ سکتے ہیں۔
بدبختی: دیوبندی اور اہلحدیث اگر سعودیہ کے ساتھ ہیں تو اپنی شناخت مٹائیں اور کہیں کہ ہم وہابی اہلسنت ہیں۔ دیوبندی قربانی دیں اور اپنے اکابر کو بدعتی و مُشرک کہیں، پیری مریدی دم درود تعویذ دھاگے بند کریں اور المہند کو بدعت و شرک کہیں جو بالکل وہابیت کے اُلٹ ہے۔ سعودیہ سے دیوبندی اور اہلحدیث ایک فتوی ہی لے آئیں تاکہ علم ہو کہ سعودیہ کون ہے، دیوبندی کون ہے اور اہلحدیث کون ہے۔ اختلاف بتائیں، اختلاف مٹائیں اور مسلمان بنائیں، اسطرح مسلمانوں کو برباد نہ کریں۔ علم نہیں کہ یہ علماء اور جماعتیں کل قیامت والے دن اللہ کے حضور کیا جواب دیں گئے۔ ہماری تجزیاتی رپورٹ یہ کہتی ہے۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنا تھا، اسلئے آل سعود اور جناب محمد بن عبدالوہاب جیسے علماء سامنے لائے گئے، 1924 میں 625 سالہ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ساتھ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کا اجماع امت کا دور بھی ختم ہوا اور حرمین شریفین پر سعودی عرب کا قبضہ ہوا، اس کام میں ساری دنیا کی کافر ایجنسیاں لازماً ملوث تھیں اور اب بھی مسلمانوں کو اکٹھا نہیں ہونے دیں گی۔
2۔ جناب محمد بن عبدالوہاب کے نزدیک استغاثہ، استمداد، توسل، حرف ندا، من دون اللہ، مزارات، گنبد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، حضورﷺ کو یا رسول اللہ پکارنا شرک ہے۔ اگر آج بھی اس پر سعودی وہابی علماء کے تحفظات ہیں توعلمی مذاکرات ہونے چاہئیں مگر اسلام کس کو چاہئے؟؟ طاقتور نے فتح مکہ کیا اور سب کو امان دی، یہاں طاقتور نے مسلمان کو بدعتی و مشرک کہا۔
3۔ دیوبندی اور بریلوی اجماع امت کے عقائد پر ہیں، دونوں کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتوں پر ہے، البتہ دیوبندی علماء نے سعودی عرب کے وہابی علماء سے ہاتھ ملا کر جناب محمد بن عبدالوہاب کو اہلسنت بنا لیا، دیوبندیت وہابیت بن گئی، سعودی عرب، دیوبندی اور اہلحدیث کے اکٹھ جوڑ نے اہلسنت کو تنہا کیا، بدنام کیا، رافضیت کی طرف دھکیل دیا جیسا آجکل صرف اہلسنت ہی رافضیت سے لڑ رہے ہیں باقی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اللہ غارت کرے اس فرقہ واریت کو۔
4۔ کچھ صحابہ حضورﷺ کے وصال کے بعد منکرین زکوۃ ہو گئے، اسطرح سلطنت عثمانیہ ختم ہونے کے بعد علماء خارجی یا رافضی (شیعہ) کا ساتھ دیتے گئے۔ طارق جمیل، مودودی صاحب، مرزا انجینئیر، غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائک وغیرہ نے اجماع امت کے عقائد کبھی نہیں بتائے بلکہ ہر ایک نے اپنی اپنی ذات و جماعت یا اہلتشیع و سعودی عرب (وہابی) کو پروموٹ کیا ہے۔
5۔ اگر اہلسنت علماء کرام نے اپنی پہچان چار مصلے بتائی ہوتی، دیوبندی کی چار کفریہ عبارتوں کا سب کو بتایا ہوتا، معمولات اہلسنت کو فرض کا درجہ دینے والی عوام کو مستحب سمجھایا ہوتا تو ہم مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہوتے لیکن سلطنت عثمانیہ جانے سے اہلسنت کا جذبہ جناب احمد رضا خاں صاحب والا نہیں ہے بلکہ اس وقت سب علماء (دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث) جماعتیں آپس میں لڑتی رہتی ہیں، عوام شخصیت پرست ہے، اسلئے وہ علماء یا اپنی اپنی جماعت کا دفاع کرنے میں گالیاں نکالتی ہے۔
6۔ پاکستان میں مذہبی انتشار ایران اور سعودی عرب کی وجہ سے ہے، دیوبندی اور اہلحدیث دونوں جماعتیں سعودیہ ایجنڈے پر ہیں۔ اہلسنت کو پیری مریدی، توسل استمداد وغیرہ پر بدعتی و مشرک کہا جاتا ہے۔ اگر اب بھی سعودیہ والے وہابی علماء علمی مذاکرات کریں اور اپنے تحفظات کا اظہار کریں تو مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ سب اعمال فرض، واجب، سنت نہیں بلکہ جائز ہیں۔
7۔ اگر اکٹھے نہیں ہوتے تو کل جو بھی طاقتور ہو گا پھر بدلہ لے گا کیونکہ ہم سب نور فراست کے مالک نہیں ہیں۔اسلئے ہر مسلمان کو دعوت ہے کہ چار مصلے، سلطنت عثمانیہ کے دور کے اجماع امت کے عقائد پر آئیں یا سعودی عرب کے ساتھ مل جائیں مگر ایک ہو جائیں۔ اپنی اپنی شناخت گُم کرکے اسلام لائیں۔
مثال: دو بیل شیروں کو بھگا دیتے تھَے اور جب دونوں میں نااتفاقی ہوئی تو پھر ایک ایک کر کے دونوں مارے گئے، یہی حال سعودیہ کے وہابی علماء، دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی کا ہونا ہے۔ ہم نے بتا دیا اور سمجھا دیا، تم نہیں مانتے تو نہ مانو۔ اپنی اپنی جماعتوں میں رہو، کل قیامت والے دن تمہارا تماشا دیکھیں گے اور یہاں سمجھاتے رہیں گے۔
اشارہ: اگر دیوبندی اور بریلوی علماء اکٹھے ہو جاتے ہیں تو پھر رافضیت کا خاتمہ بھی ممکن ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
چور چور: یہ یاد رہے کہ اہلتشیع کے پاس اہلسنت کی طرح صحیح اسناد اور راوی کے ساتھ حضور ﷺ، صحابہ کرام و اہلبیت یعنی سیدنا علی، سیدنا حسن و حسین، سیدہ فاطمہ کی احادیث کی کتابیں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود) نہیں ہیں اور نہ ہی اہلسنت کے ائمہ کی طرح فقہ کے مجتہد ہیں۔ اہلتشیع دین چور امام جعفر کے اقوال کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد کو احادیث کہتے ہیں اور یہ اقوال بھی اہلسنت کی کتابوں سے چوری کر کے سند و راوی و کچھ متن بدل کر کتابیں تیار کی گئی ہیں۔
نتیجہ: اہلتشیع کا دین پنجتن والا نہیں ہے، حضور ﷺ کی احادیث والا نہیں ہے، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین والا نہیں ہے۔ اہلبیت نے کسی بھی حدیث میں اہلتشیع کو نہیں کہا کہ تم فدک، جمل و صفین، امامت وغیرہ میں اہلسنت سے بدلہ لینا کیونکہ ان پر ظلم اہلسنت نے کیا نہیں اور اگراہلتشیع سمجھتے ہیں تو اپنی کتابوں سے ثابت کریں اور ان کے پاس پنجتن کی صحیح سند و راوی و متن کے کتابیں نہیں ہیں اور کہتے رہیں گے کہ اہلبیت کے دشمن پر بے شمار مگر یہ ۔۔ خود ان پر ہی پڑ رہی ہے کیونکہ جھوٹے ہیں۔
تحقیق: جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا۔