استنجا کرنا
ہر مسلمان روزانہ استنجا یعنی پیشاب اور پاخانہ کر کے جسم کی مخصوص جگہ دھوتا ہے۔ اسی طرح استبراء کرتا ہے یعنی پیشاب کو مکمل طور پر خشک کرتا ہے مگر عوام استنجا اور استبرا الفاظ پر پریشان ہو جاتی ہے حالانکہ:
مقام: پیشاب اور پاخانے کے بعد جس مقام سے پیشاب کا قطرہ یا پچھلی شرم گاہ سے فضلہ نکلتا ہے، صرف اُسی مقام کی مخصوص جگہ کو پانی یا ہر ایسی پاک چیز (ٹیشو، پرانا کپڑا، روئی وغیرہ) سے صاف کرنا جو قیمتی نہ ہو اور ایسی چیز (ہڈی، شیشہ، کوئلہ، گوبر وغیرہ) سے صاف نہیں کرنا جو پاک نہ ہو اور صفائی کے دوران زخم کر سکتی ہو۔ ان دونوں سوراخوں سے زائد جگہ کو دھونا یا صاف نہیں کرنا اور نہ ہی پانی ضائع کرنا ہے لیکن اگر فضلہ پچھلے سوراخ سے نکل کر اطراف میں پھیل گیا ہو جیسے پیٹ خراب (loose motion) ہونے پر ہوتا ہے ہو توپانی سے دھونا ضروری ہے۔
ہوا خارج: کچھ لوگ کہیں گے کہ ہوا خارج ہونے سے بھی استنجا کرنا ضروری ہے۔ یہ عوام کی لا علمی ہے کیونکہ ہوا خارج ہونے پر اُس مقام کے سوراخ سے کچھ نہیں نکلتا جسے صاف کرنا پڑے۔ اسلئے ہوا بدبو کے ساتھ خارج ہو یا بغیر بُو کے خارج ہو اُس جگہ کو دھونے کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔ اسی طرح وضو کرنے سے پہلے بھی استنجا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ضروری: کھڑے ہو کر حاجت پوری کرنے میں کچھ لوگ کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے حالانکہ کھڑے ہو کر حاجت پوری کرنا کسی ضرورت کے وقت ہو سکتا ہے البتہ (1) ایسی جگہ کھڑا ہونا چاہئے کہ جہاں ایک بندہ ہو، ساتھ ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھنا منع ہے (2) حاجت کے بعد قطرے کو صاف کرنے کا طریقہ ایسا ہونا چاہئے کہ کپڑے ناپاک نہ ہوں (3) کھڑے ہو کر ”حاجت“ پوری کرنے میں پانی سے عضو کو دھونا پڑے تو مشکل ہو گا کیونکہ کھڑے ہو کر پریشانی ہو گی اور پھر ٹیشو وغیرہ سے کام چلانا پڑے گا جس سے پاکی حاصل ہو جائے گی البتہ پانی سے دھونے کا اجر نہیں ملے گا۔
ہدایت: پاخانہ کرنے کے دوران باتیں کرنا، موبائل سننا، اخبار پڑھنا، ٹائلٹ میں دیر تک بیٹھنا، قبلہ رُخ ہونا، اپنی شرمگاہ کو دیکھنا یا اُس سے کھیلنا نہیں چاہئے۔ جہاز، ٹرین اور گھرکے مختلف کموڈ وغیرہ پر بیٹھ کر”حاجت“ اس انداز میں پوری کریں کہ فضلہ وغیرہ ”کموڈ“ میں گرنے سے ”ناپاک“ چھینٹے جسم اور کپڑوں پر نہ پڑیں۔ شرم گاہوں کو پانی سے دھوتے ہوئے پانی پریشر سے استعمال نہ کریں۔ ڈاکٹر یا حکیم کی ہدایت ہو توپاخانہ وغیرہ کی رنگت دیکھیں ورنہ نہ دیکھیں۔
ممانعت: مسجد، قبرستان، فُٹ پاتھ (لوگوں کے چلنے کی جگہ)، جانوروں کے درمیان، نہر یا دریا کے پانی کے اندر، کسی بھی سوراخ کے اندر، غسل خانے میں، درختوں کے نیچے اور ہر ایسی جگہ حاجت پوری کرنا منع ہے جہاں لوگوں کو بدبو، تکلیف اورپریشانی ہو۔ غسل خانے میں اگر حاجت پوری کی تو وہاں پانی بہا کر پھر نہائیں۔
بہترین صورت: یہی ہے کہ پیشاب اور پاخانہ جب بھی کیا جائے تو ایسی جگہ کیا جائے جہاں کوئی بھی آپ کے جسم کے مخصوص اعضاء نہ دیکھ سکے۔ سر پر ٹوپی یا کپڑا ہو، بیت الخلاء جانے کی دُعا مانگی جائے، بیت الخلاء میں بایاں پاؤں رکھا جائے، بیت الخلاء سے نکلتے وقت دایاں پاؤں باہر رکھا جائے اور بیت الخلاء سے نکلنے کی دُعا مانگی جائے۔
پیشاب کے قطرے: پہلے (2 یا 3 مرتبہ) پیشاب پاخانہ کر کے اگلی پچھلی ”شرم گاہ“ کو کسی کپڑے سے اچھی طرح صاف کر لیں پھر کھانس کر یا تھوڑی دیر چل کردیکھیں اورجب محسوس ہوکہ قطرہ نکلا ہے لیکن شلوار وغیرہ گیلی نہیں تویہ آپ کا وہم ہے۔ اگرپیشاب کا قطرہ آئے توتھوڑی سی محنت کریں، پیشاب کرنے کے بعد ”شرم گاہ“ کے سوراخ کے آگے ٹیشو پیپر وغیرہ رکھیں، جب قطرہ نکل جائے تو پھر وضو کریں کیونکہ قطرہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
حل: جس مرد یا عورت کا مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل پیشاب، مسلسل ہوا گیس وغیرہ، 2 رکعت یا 4 رکعت ”نماز“ پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ”معذور“ کہتے ہیں اور جب تک یہ ”معذوری“ ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیا تو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔ اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ”معذوری“ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت (پیشاب، پاخانہ، قے، اُلٹی، مذی، نماز میں ہنسنا، خون کا نکل آنا، ہوا کا نکل جانا وغیرہ) ہو تو دوبارہ وضو کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔
آسانی: اسی معذوری میں نماز کے لئے ”پاک“ کپڑا پہنا لیکن نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ کپڑا بھی ”ناپاک“ ہوگیا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
فرقہ واریت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔
حل: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔