Masharti Islam (معاشرتی اسلام)

معاشرتی اسلام

1۔ اس پوسٹ میں واضح طور پر، عورت اور مرد، کے لئے زندگی گذارنے کا قانون دیا گیا ہے، پوسٹ لمبی ہے مگر شاندار ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ "”دینِ اسلام” قرآن و احادیث کے مطابق دنیا داری کرنا سکھاتا ہے مگر معاشرتی اسلام سنی سنائی باتوں،رسم و رواج، ڈرامہ، فلم اور گندے کرداروں سے بنتا ہے جس سے بندہ شریعت کے خلاف چلتا ہے۔

پہلی بات: سب سے بڑی”ذمہ داری“ علماء کرام پر آتی ہے کہ عوام کو ”دو حرفی“ لفظوں میں مسائل سمجھائیں۔ اس کے بعدہر مسلمان مرد (باپ، بھائی،شوہر اور بیٹا) کو چاہئے کہ اچھے طریقے سے مسئلہ سُن کر اپنے گھروالوں کو سمجھائے تاکہ ہماری نسلوں کی”تربیت“ ہو سکے۔ علماء عوام پر ڈال رہے ہیں اور عوام علماء پر ڈال رہی ہے لیکن کل قیامت والے دن ہر ایک نے اپنا اپنا جواب دینا ہے۔

دینِ اسلام میں والدین نے اولادکی”تربیت“ بالغ ہونے کی عمر (15سال) تک کرنی ہوتی ہے اس لئے فرمایا گیا کہ بچہ 7 سال کا ہو تو پیار سے نماز کے لئے کہو اور10 سال کا ہو جائے تو مار کر نماز پڑھاؤ تاکہ نیک اعمال کی عادت پڑ جائے۔ بالغ ہونے کے بعد ”اولاد“ اپنی زندگی گذارنے میں آزاد اور والدین کی حیثیت ایک اچھے دوست کی ہوتی ہے جو اچھا مشورہ دیتا ہے۔ معاشرتی اسلام کا مذہب صرف ”پیسہ“ ہے، اس لئے ہر رشتہ پیسے کے لالچ میں ”ڈنڈی“ مار جاتا ہے اورعوام اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ملک اور مذہب سے بھی ”غداری“ کرجاتی ہے۔ یہ سب نفسا نفسی ”یومِ آخرت“ کو بھول جانے اور”تربیت“ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ مدرسہ، خانقاہی نظام، پیری مریدی، اسکول، کالج زیادہ تر ”مال“ بٹور رہے ہیں مگر تعلیم نہیں دے رہے۔ عوام اچھائی چاہتی ہے مگر جادو کی چھڑی سے لیکن خود ہمت نہیں کرنا چاہتی۔

مشورہ: اولاد کو اورخاص طور پر ہر بیٹی کو موجودہ حالات کے مطابق ایسا ہُنر اور ایسی تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہئے کہ اگر اس کو اپنے والدین یا شوہر کے مرنے کے بعد ”ایمان“ اور ”عزت“ بچانے کے لئے کسی بھی ”جائز” کام کے ذریعے سے ”کمائی“ کرنی پڑے تو کر سکے کیونکہ ”سہارے“ روٹھ جانے پرعورت زکوۃ لینے کے لئے دربدر پھرتی ہے اور معاشرہ اس کا”مذاق“ بنا دیتاہے۔

باپ کی پریشانی: 9 سے13 سال کی عمرمیں لڑکی بالغ ہو جاتی ہے یعنی اس کو ماہواری، حیض یا Menses شروع ہو جاتے ہیں جس پر شریعت یہ کہتی ہے کہ اب لڑکی پر ”پردہ“ کرنا ضروری ہو گیا ہے اور جتنی جلدی ہو سکے اس کی ”شادی“ کر دی جائے۔

پردے کی آسان تعریف: ”عورت“ کے لباس کا ایسا انداز یا اسٹائل جس سے اس کے اگلے پچھلے ”اُبھار“ چُھپ جائیں اور ”مرد“ عورت کو دیکھنے میں کوئی کشش محسوس نہ کرے، اس کو”پردہ“ کہتے ہیں۔ اس کیلئے وہ اپنی عقل کے مطابق کوئی بھی لباس پہن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عورت کی آواز، بال، اندازاور حرکات میں بھی کشش ہے جس سے کسی کو بھی حیوانی، شہوانی، نفسانی،جوانی یا شیطانی بیماری لگ سکتی ہے۔

خطرہ: پردے کے علاوہ آج کل گندی یا واہیات فلمیں دیکھنے پر جو جذبات بھڑک جاتے ہیں وہ پردہ توڑ کر بھی گناہ کروا دیتے ہیں۔ اس لئے بداخلاقی، زنا، اجتماعی بد اخلاقی اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات زیادہ تر سامنے نہیں آتے اورجتنے سامنے آئے توان میں دنیا داروں کے علاوہ کئی دین دار بھی ملوث پائے گئے۔

دلائل: پردہ نہ کرنے کے لاکھوں دلائل مل سکتے ہیں کہ پردہ نظرکا ہوتا ہے،گرمی بہت لگتی ہے، چھوٹی سی عمر میں لڑکی پر اتنا بوجھ ڈال دیا، پردے میں بھی جس نے خراب ہونا ہوتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔

سوال: اگر پردہ ایک ”مجاہدہ“ یا ضرورت نہیں ہے تو کیا مرد و عورت ننگا پھر سکتے ہیں یا اتنا پردہ کہ مرد اپنی شرم گاہ کو ڈھانپ لے اور عورت بالکل مختصر لباس پہن لے یا عورت کے لئے باریک کپڑے ہونے چاہئیں جس سے اس کے جسم کا ہر حصّہ نظر آتا ہو۔کیا متفقہ طور پر”پردے“ کے مخالف کوئی رائے قائم کر کے بتاسکتے ہیں کہ کتنا پردہ ضروری ہے؟

دینِ اسلام عورت کو اپنی”عزت“ کی حفاظت کے لئے پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ اس کے ساتھ کوئی بھی شرارت نہ ہواور عورت گندے لوگوں کی گرم نظروں سے محفوظ رہے۔
معاشرتی اسلام زیادہ تر”عورت“ کو ننگا یا باریک کپڑوں میں ”ناچتا“ دیکھنا چاہتا ہے اور یہی میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے، ہماری اولادوں کا ”مذہب“ کلچر کے نام پر گانا، ناچنااور عشق کرنا ہے۔

کن سے پردہ؟ دینِ اسلام ”عورت“ کو کام یا کاروبارکرنے سے بالکل منع نہیں کرتا اور موجودہ دور میں ہر ایک کے علم میں ہے کہ عورت اور مرد ہر جگہ یعنی شادی بیاہ، آفس، کو ایجوکیشن اسکول وکالج، ڈاکٹر، نرسز وغیرہ اکٹھے ہیں لیکن کیا اتنا کیا جا سکتا ہے کہ اگر اکٹھے رہتے ہوئے یا کام کرتے ہوئے، جہاں اورجس وقت کسی کو دیکھنے پر بُرے، گندے یا واہیات ”خیال“ آنے شروع ہو جائیں اور اس کے ساتھ گناہ کرنے کو دل کرے تو اپنے غلط قدم، نظر اور سوچ کوروک لے کیونکہ ہمارا معاشرہ غلطی کرنے پر اصلاح نہیں کرتا بلکہ زندگی بھر ذلیل کرتا ہے اور دین اسلام عشق کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ البتہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کسی کے دل کو کوئی پسند آجائے تو اس کے گھر نکاح کا پیغام دیا جائے لیکن ”مجازی عشق“ یا ”جسمانی تعلقات“ بنانے کا حکم نہیں دیتا، جس سے کسی مسلمان کا ”کردار“ گندہ ہو اور ان کے گھر والوں پر بھی بُرے اثرات پڑیں یا خاندان میں بدنامی ہو۔

بڑا مجاہدہ: دین اسلام نے عورت اور مرد کواس مجاہدے اور امتحان میں ڈالا ہے کہ ہر وہ رشتہ جس سے نکاح ہو سکتا ہے، اس کو بغیر کسی ضرورت کے ملنا، تحفہ دینا اور لگاوٹ یا نرم گرم لہجے سے بات کرنے کی کبھی کوشش نہ کرے، اس میں تمام Cousins وغیرہ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

گھر میں پردہ: جہاں غیر محرم (دیور، جیٹھ، کرایہ دار، مالک مکان) اکٹھے رہتے ہوں وہاں پر کپڑے یا برتن دھوتے ہوئے اور صفائی کرتے ہوئے عورت اپنے جسم کے”مخصوص اعضاء“ کو خاص طور پراس طرح سے چُھپائے کہ ”غیر“ کی نظرپڑنے پر اس کے دل میں کوئی ”گناہ“ کا ارادہ پیدا نہ ہو اوراسی طرح غیر کے ساتھ کبھی پیار سے بات نہ کرے تا کہ کہیں گناہ کا ”روگ“ نہ لگ جائے۔ اس ملک میں جہاں اسلامی قانون نافذ نہیں ہے اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی تو اس کو بھی آزادی ہے لیکن جو پردہ کرتی ہے اس کو بھی طعنوں کی بجائے ”آزادی“ دی جائے۔

نکاح کی پریشانی: والدین کی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ آجکل کے دور میں جہاں Mediaکی غلط تعلیم کی وجہ سے تین یا چار سال کی بچی سے ”زیادتی“ ہو رہی ہے وہاں میری بیٹی سے بھی ایسا کھیل نہ کھیلا جائے اور فحش فلمیں، ڈرامے گندے گانوں کو سن کر کہیں میری بیٹی بھی ”عشق“ میں مبتلا نہ ہو جائے کیونکہ لڑکا اور لڑکی کے جسمانی تعلقات پیدا ہو جانا اس دور میں معمولی بات ہو گئی ہے۔

ناجائز اولاد: جسمانی تعلقات رکھنا پاکستان کے قانون میں جائز اور کوئی جُرم نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسا ادارہ بھی بنانا چاہئے جوجسمانی تعلقات سے پیدا ہونے والے ”ناجائز“ بچوں کو سنبھال سکے کیونکہ پاکستان میں نا جائز حمل گرانے، کھیت یاگٹر میں نو مولود مردہ بچوں اور ایدھی کے ”جھولے“ میں ”ناجائز بچوں“ کی ”تعداد“ زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ مغرب کی تقلید تو کرتا ہے مگران کی طرح ”ناجائز“ اولاد کو پالنے کا حوصلہ کیوں نہیں کر تا؟ اسلام میں ناجائز بچوں کو ذلیل کئے بغیرپالنا بھی حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

طریقہ: اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لڑکی 9 سال سے لے کر 13 سال کی عمر تک اور لڑکا 13 سال سے لے کر 15 سال کی ”عُمر“ تک بالغ ہو جاتا ہے۔ بالغ پرنکاح کرنا ”سنت“ ہے اس لئے لڑکا اور لڑکی جب دونوں ”ضرورت“ سمجھیں تو کسی وقت بھی نکاح کر سکتے ہیں اور اگر نہ سمجھیں تو ساری زندگی نہ کریں مگر گورنمنٹ کا قانون ہے کہ 18 سال سے پہلے لڑکا یا لڑکی شادی نہیں کر سکتے۔ دور حاضر کے مطابق قانون اچھا ہے مگرکیا اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے کہ اگر 18 سال سے پہلے لڑکا یا لڑکی میڈیا کی غلط تعلیمات کی وجہ سے”گناہ“ کر لیں توپھر ان کا آپس میں نکاح کیا جا سکتا ہے یا 18 سال کے ہونے کا انتظار کیا جائے گا؟

نکاح کے لئے طاقت ہونا: حدیث پاک کے مطابق جوانو ں کے لئے ضروری ہے کہ اگر طاقت رکھتے ہوں تو نکاح کریں ورنہ روزہ رکھیں۔ اس طاقت میں دو باتیں شامل ہیں: (۱) نکاح مرد کو کرنے کی اجازت ہے کسی ”نا مرد“ کو کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لئے کوئی ماں باپ اپنے نقص والے بیٹے کا نکاح کر کے کسی کی بیٹی کی زندگی خراب نہ کریں۔ (2) نشئی، بے روزگار، کام چور اور ہڈ حرام لڑکے کی شادی اس نیت پر نہیں کرنی چاہئے کہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ جو لڑکا ”بیوی“ کو کھانا، کپڑا وغیرہ لے کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کیلئے نکاح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کا ایسے جوانوں کو مشورہ ہے کہ کثرت سے روزے رکھیں۔
٭ نبی کریمﷺ نے کسی ایک صحابی کو رزق کی تنگی دور کرنے کے لئے تین یا چار شادی کرنے کا وظیفہ کبھی نہیں بتایا، یہ سب منگھڑت ہے، البتہ ”روزہ“ رکھنے کا وظیفہ ہر نوجوان کیلئے ہے جو نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

مرد کے لئے عورت کے حقوق

کھانا اور کپڑا: لڑکی سے رشتہ کرنے سے پہلے لڑکا اپنی تنخواہ، مزدوری، کاروبار میں ماہانہ آمدنی وغیرہ دُرست طور پر لڑکی والوں کو بتائے اور لڑکی کے گھر والوں کا رہن سہن بھی دیکھ لیا جائے کہ کیا کھاتے ہیں اور کیا پہنتے ہیں۔ اس لئے مرد امیر عورت کو امیروں کی طرح اور غریب عورت کو غریبوں کی طرح ”کھانے“ کا خرچہ دے گا۔ خرچہ اس قدر ہونا چاہئے کہ لڑکی کھا بھی سکے اور بچا بھی سکے۔ عورت کو کھلانا مرد کی ذمہ داری ہے، اس لئے کھانے کا سامان لا کر دے اور وہ پکا کر کھا لے اور اگر مرد کو یا اس کے گھر والوں کوبھی پکا کر کھلائے گی تو یہ اس کا ثواب ہو گا۔

اہم مسئلہ اور تقریباً ہر مسئلہ کا حل
مرد کے ذمّہ ہے کہ عورت کو رہنے کے لئے ایک ”مکان“ دے چاہے وہ کچا ہی ہو، ایک ہی کمرے کا ہو، جس میں شوہر کا کوئی رشتہ دار (بہن، بھابھی، جیٹھ، دیور،ماں، باپ)نہ رہتا ہوالبتہ اگر عورت سب کے ساتھ گذارہ کرنا چاہے تو ایک کمرہ اس کو دیا جائے، جس میں وہ خود رہے سہے، اپنا سامان، مال وغیرہ حفاظت سے رکھ سکے اور اس کی”تالا چابی“ بھی اپنے پاس رکھے،مرد کے علاوہ، مرد کے کسی اور رشتے دار کا اس کمرے میں بغیر عورت کی اجازت کے عمل دخل نہ ہو۔علیحدہ گھرکا فائدہ یہ ہوتاہے کہ پردہ کسی سے کرنا نہیں پڑتا، کسی کی مداخلت نہیں ہوتی، اپنی سمجھ کے مطابق ”گھر“ کا نظام چلانا ہوتا ہے، کتنی بار نہاتے ہیں یا کیا کھاتے ہیں، سب بھرم رہ جاتے ہیں۔اس طرح دیور بھابی اور سالی بہنوئی کے غلط ”واقعات“بھی سامنے نہیں آئیں گے۔ ہر”ساس“اور”ماں“کی”بیٹی“ اپنے علیحدہ گھر میں رہے تو معاشرہ سُکھی ہو جائے گا۔ گھر ضرورت میں شامل ہے چاہے ایک کمرے کا ہو۔ اس لئے اگر کسی شادی شدہ غریب کو زکوۃ یا خیرات یا اپنی نیک کمائی سے گھر لے کر دیا جائے تو بہت بڑی نیکی ہے۔

مرد کااختیار: جس طرح عورت کو اختیار ہے اسی طرح مرد کو بھی اختیارہے کہ جو گھر عورت کو رہنے کے لئے دیا ہے وہاں اس کے رشتہ داروں کو نہ آنے دے۔ عورت اپنے ماں باپ کو دیکھنے کے لئے ”ہفتہ“ میں ایک دفعہ جا سکتی ہے اور ماں باپ بھی ”ہفتہ“ میں ایک مرتبہ ”بیٹی“ سے ملنے آ سکتے ہیں۔ ماں باپ کے سوا اور رشتے دار”سال“ میں ایک مرتبہ اور یہ وہ رشتے دار ہوں گے جن سے نکاح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور باقی رشتے دار جن سے نکاح ہو سکتا ہے وہ ”غیر“ کے برابر ہیں۔ دینِ اسلام اصول سمجھاتا ہے البتہ میاں بیوی اپنے حالات کے مطابق ہر رشتے دار کے ساتھ کم یا زیادہ اپنی مرضی سے مل بھی سکتے ہیں اور اکٹھے رہ بھی سکتے ہیں، باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کی خدمت بھی کر سکتے ہیں لیکن تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا جائز نہیں۔

دینِ اسلام نے ہر عورت کو اپنے گھر میں آزاد (Independent) کیا ہے تاکہ عورت ہنسی خوشی زندگی گذارے۔ اس لئے لڑکے پر نہ تو اس کی ساس، سالی یا سسر کی خدمت ہے اور نہ ہی لڑکی پراپنے خاوند کی خدمت کے سوا کسی ساس، سسر، نند، جیٹھ کی کوئی ذمہ داری ہے۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کے والدین اور رشتے داروں کی ”خدمت“ باہمی رضامندی سے کر سکتے ہیں۔ البتہ معاشرتی اسلام کی وجہ سے اکثر لڑائی اس بات پر ہوتی ہے کہ ماں گھر کے کام کرنے کے لئے لڑکی کو بیاہ کر لاتی ہے جس نے ذمہ داری کبھی نبھائی نہیں ہوتی، سسرال والوں کی مرضی نہ مانے تو لڑائی، بیمار، پریشان اور طلاق بھی ہو جاتی ہے لیکن نکاح کا اصل مقصد درمیان سے نکل گیا ہوتا ہے۔

نکاح یا ذمہ داری: نکاح کے لئے اردو لفظ ”شادی“ نہیں بلکہ ”ذمہ داری“ ہونا چاہئے کیونکہ شادی سے یہ تصور لیا جاتا ہے کہ شاید کوئی ”مزے“ کا کام ہے حالانکہ یہ بہت بڑی ”ذمہ داری“ کا نام ہے۔ ”نکاح“ ایمان بچانے اور جنسی و جسمانی تسکین کا ایک پسندیدہ طریقہ ہے جیسے کوئی بھی انسان بھوکا نہیں رہ سکتا، اسی طرح اپنی جنسی وجسمانی بھوک کی تسکین کیلئے مرد کو عورت اور عورت کو مرد کی ضرورت ہے۔ اس لئے شادی شدہ عورت کے جسم کا حق ہے کہ چار ماہ میں کم از کم ایک دفعہ اس سے صحبت کی جائے۔ اس کے علاوہ یہ سب طریقے زنا، اغلام بازی، ہم جنس پرستی، مشت زنی یا ایک ہاتھ سے نکاح کرنا دینی لحاظ سے ناپسندیدہ اور گناہ ہیں۔

فطری تقاضا: شریعت کو اس فطری تقاضے کا علم تھا اس لئے علمائے کرام نے دینی لحاظ سے فرمایا ہے کہ ”ولی“ نابالغ اولاد کا نکاح کرنے کا اختیار رکھتا ہے یعنی چھوٹی سی عمر میں ہی نکاح کر کے کسی کے ساتھ منسوب کر دیا جائے تاکہ ان کے ذہن ایک ”مرکز“ پر رہیں لیکن رخصتی بالغ ہونے کے بعد ہو گی۔

ولی کی تعریف: لڑکی اور لڑکے کا سب سے قریبی، محبتی اور پیارے رشتے دار کو ولی کہتے ہیں۔ اس لئے ”ولی“ بالترتیب باپ، دادا، سگا بھائی، بھتیجا، سگا چچا اور اگر یہ سب مر گئے ہوں تو تب بالترتیب ماں ”ولی“ ہے پھر دادی، نانی، حقیقی بہن، پھوپھی، ماموں، خالہ وغیرہ۔

اختیار: ولی میں سب سے قریبی باپ یا دادا ہیں، اگر لڑکی کا نکاح چھوٹی عمر میں باپ یا دادا کریں تو لڑکی کے لئے مشورہ ہے کہ نکاح کو نہ توڑے اور اگر لڑکی پھر بھی نہیں رہنا چاہتی تو”خلع یا طلاق“ لے لے اور اگر باپ دادا کے علاوہ کسی اور رشتے دار ”ولی“ نے نکاح کیا ہوتو دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جیسے ہی اولاد جوان ہو گی چاہے تو ”نکاح“ برقرار رکھے یا توڑ دے یہ (15 سال) کی چھوٹی سی عمر میں اولاد کوشریعت نے آزادی اور اختیار دیا ہے، والدین اس کو نافرمانی کرنا نہ سمجھیں۔

رشتہ کرنے سے پہلے: دینِ اسلام کا ”اولاد“ اور”والدین“ کو یہ مشورہ ہے کہ بے جوڑ نکاح نہ کئے جائیں بلکہ رشتہ مسلمانوں میں کرنا چاہئے۔ دیندار عورت کا کسی شرابی و بدکار کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ مالدار عورت کا مفلس و نادار کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ اعلی نسب کی برادری والے کواپنی برابری والی ذات میں کرنا بہتر ہے۔ کوئی جولاہا، درزی، نائی، دھوبی وغیرہ کا پیشہ رکھتے ہیں یا کام کرتے ہیں تو بہتر ہے کہ اپنے پیشے والے سے نکاح کریں۔

سوچ: لڑکا لڑکی اگر کسی کوپسند کرتے ہیں یا والدین ان کے لئے کسی کو پسند کرتے ہیں توآپس میں جذباتی ہو کر لڑنے کی بجائے افہام و تفہیم سے دلائل دے کر مسئلہ کا حل نکالیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ محبت کی شادی تو ہو گئی مگر لڑکا بعد میں معاشرے کے طعنوں سے یا ذمہ داری سے بھاگ کر اپنے والدین کے پاس چلا گیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ اس ”ڈائن“ کے لئے گھر بار چھوڑا اور پھر لڑکی تنہارہ جاتی ہے، جس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ اگربالغ لڑکی یا لڑکا اپنی مرضی سے کہیں بھی نکاح کرنا چاہیں تو اس کی بھی آزادی دی جائے گی اوراگر والدین کو بتائے بغیر بھی نکاح کر لیا تو نکاح تب بھی ہو جائے گا۔

دینِ اسلام ہر ایک کے جذبات یا احساسات کا خیال کرتا ہے اوراپنا اچھا بُرا سوچ کر زندگی گذارنے کا شعوردیتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسلام کو تنگ نظر کہا جائے تو ”ظلم“ ہے۔ معاشرتی اسلام پہلے تو ”بیٹی“ کو ڈرامے، فلمیں، ناول، شاعری، گانے، ناچنے کی اجازت دیتا ہے لیکن جیسے ہی ”بیٹی“ کسی سے عشق کر لے، کسی سے Court Marriage کر لے یا گھر سے بھاگ جائے تو بعض ”بے غیرتی“ کے نام پر قتل کر دیتے ہیں یا لوگوں سے ڈرتے ہوئے گھر سے نکال کر ساری زندگی کے لئے رشتہ توڑلیتے ہیں لیکن دینِ اسلام لڑکی سے رشتہ توڑنا، قتل کرنا یا قطع تعلقی کرنے کو جائز قرار نہیں دیتا ہے۔

نکاح اور صلاح: ایک شادی کے موقعہ پر مذاق میں Cousins لڑکا اور لڑکی رشتے داروں (گواہوں) کی موجودگی میں ایک دوسرے کو”قبول“ کہہ رہے تھے تو ان سے کہا گیا کہ تمہارا آپس میں نکاح ہو گیا ہے۔ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ نہ ڈھول، باراتی، سہرا، مولوی، خطبہ، کلمے، لکھنا لکھانا، ولیمہ اور نہ ماں باپ رشتہ دیکھنے گئے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ان کو سمجھانے کے لئے بتایا گیا کہ:

1۔ پیلا جوڑا پہنانا، تیل، مہندی لگانا، مقلاوہ، دودھ پلائی، جوتی چھپائی، گود بٹھائی منع نہیں ہے اگر ”غیر محرم“ شامل نہ ہوں لیکن اگر یہ سارے کام نہ کئے جائیں تو بھی اچھی بات ہے کیونکہ وقت یا پیسے کا ضیاع اور غیر ضروری ہیں۔ دینِ اسلام میں نکاح کے وقت باجا، ناچنا، اورڈھول بجانے کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن معاشرتی اسلام میں اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

2۔ منگنی اور شادی کے بعد شب برات، معراج شریف یا عیدی کے نام پرایک دوسرے کو ”تحفہ“ دینا ”رسومات“ میں شامل ہے، جن کا کرنا غریب پر بوجھ ہوتا ہے اس لئے ان رسموں کو نہ کیا جائے۔

3۔ ”سلامی“ زیادہ تر قرضے کے طور پر دی جاتی ہے اس لئے لکھی جاتی ہے اور بعض اوقات ایک دوسرے کو جتائی بھی جاتی ہے حالانکہ یہ مدد اللہ واسطے اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کو کرنی چاہئے۔

4۔ نکاح کوئی بھی پڑھا سکتا ہے، مولوی صاحب پر پڑھانا لازمی نہیں ہے مگر نکاح خواں کوگورنمنٹ نے چار کاغذ دئے ہوتے ہیں جس میں لڑکا، لڑکی اورگواہوں کا نام، حق مہر وغیرہ تحریر کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں کوئی جھوٹ نہ بولے۔ اس میں سے ایک کاغذ لڑکا، دوسرا لڑکی، تیسرا نکاح خواں اور چوتھا لڑکی کے گھر کے پاس جو یونین کونسل کا دفتر ہے اس کے ریکارڈ میں رکھا جاتا ہے۔ نکاح کے بعد اپنا اپنا کاغذ نکاح خواں سے لڑکے اور لڑکی کو ضرور لینا چاہئے ورنہ بعد میں بہت پریشانی بھی ہو سکتی ہے۔

5۔ بارات کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن نکاح کے وقت کم از کم 2 گواہ ضرور ہونے چاہئیں اور نکاح کے وقت میں چھوہارے، مٹھائی یا بِد بانٹی جا سکتی ہے۔

6۔ پہلے دن ولیمہ کرنا سنت، دوسرے دن جائز اور تیسرے دن ”ریاکاری“ میں آتا ہے اور کھانے میں سموسہ، برفی، پوپٹ بدانہ، چائے وغیرہ کچھ بھی کھلا سکتے ہیں مگر”قرضہ“ پکڑکر کھلانے کو پسند نہیں کیا گیا۔

7۔ ”وری“ یعنی سونا یا کپڑے دینا، مرد کی طرف سے اور ”جہیز“ عورت کی طرف سے سمجھا جاتا ہے حالانکہ لڑکی کے والدین کی ذمہ داری میں ”جہیز“ نہیں صرف لڑکی دینا ہے۔ اگر پھر بھی لڑکا یا لڑکی کی طرف سے جہیز، وری یا انگوٹھی وغیرہ دی جائے توکاغذ پر لکھ کر دستخط کروا لیں کیونکہ اگرطلاق ہو جائے تو دونوں کو ایک دوسرے کی چیزیں مل جائیں۔ شریعت دین داری کے مطابق دنیاداری کرنا سکھاتی ہے۔

مشورہ: دینِ اسلام میں ہے کہ لڑکی کے لئے علیحدہ مکان ہونا چاہئے، اگر لڑکا یا لڑکی کے خاندان والے باہمی ملاقات میں ایک دوسرے کو تجاویز دے کر نکاح سادگی سے کر لیں اورپیلا جوڑا، تیل، مہندی، باجا، سونا، کپڑے، سلامی، مقلاوہ وغیرہ پر جتنا خرچ آتا ہے اس کو بچا کر لڑکا لڑکی کے لئے دو مرلے کا مکان لے دیں تو ساری زندگی کے لئے ان کا بھلا ہو جائے گا۔ یہ ہمت والدین کو اپنی اولاد اور جہاں رشتہ کیا جا رہا ہے ان سے مذاکرات کر کے کرنی چاہئے تاکہ وقتی معاشرتی دکھاوا، رونق اوردل بہلاوے کو چھوڑکر ساری زندگی کا فائدہ لیا جائے۔ سادگی سے نکاح کو عوام ”جنازہ“ کہتی ہے لیکن ”جنازہ“تو ویسے بھی قرضہ پکڑ کر اکثر ”والدین“ کانکل گیا ہوتا ہے۔

شرائطِ نکاح
1۔ دینِ اسلام میں ”نکاح“ کرنا بہت آسان کام ہے البتہ ایجاب و قبول اورگواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اس لئے پہلی شرط جوان لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔

2۔ دوسری شرط کم از کم دو مرد کا گواہ ہونا ہے یا ایک مرد اور دو عورتیں، چاہے گواہ اجنبی ہوں اورنکاح Court، Ground یا محفل میں ہو البتہ اللہ کریم یا نبی کریم ﷺ کو گواہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اہلسنت و جماعت کے نزدیک ”گواہوں“ کے بغیر ”نکاح“ نہیں ہوتا بلکہ اس کو”مُتعَہ“ کہا جاتا ہے جو کہ ایک پیشہ ور عورت پیسہ (حق مہر) لے کر وقتی طور پر کرتی ہے۔

٭ حق مہر کا مطلب ہے کہ عورت سے جسمانی فائدہ (صحبت) لینے سے پہلے مرد کوکم از کم دس درہم کی چاندی (30.618 گرام) کے پیسے عورت کو دینا اور زیادہ سے زیادہ مکان، زمین،سونا وغیرہ دینا، چاندی کاریٹ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے آج کا ریٹ 1441 روپیہ ہے۔اگرمرد حق مہر نہیں دیتا تو عورت کو اختیارہے کہ اس کو اپنے ساتھ صحبت کرنے نہ دے۔

٭ جاہل عوام شرعی حق مہر32.50 روپیہ سمجھتی ہے حالانکہ حق مہرلڑکے والوں سے پوچھ کر نہیں رکھا جاتا بلکہ غریب عورت اپنی حیثیت اور مالدار عورت اپنی حیثیت کے مطابق رکھتی ہے اورحیثیت سے کم رکھنا یا طلاق سے بچنے کے لئے لاکھوں کا حق مہر لکھوا نا ٹھیک نہیں ہے بلکہ عورت کے خاندان میں جو رواج ہے اتنا رکھنا بہتر ہوتا ہے جسے مہر مثل کہاجاتا ہے۔

٭ حق مہر میاں بیوی کاشرعی مسئلہ ہے، جس کی اہمیت عورت کو بتائی نہیں جاتی، اس لئے کبھی وہ مرد کو معاف کر دیتی ہے اور کبھی مدرسہ، مسجد یا فقیر کو اللہ واسطے دے دیتی ہے۔حق مہر عورت کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ قسطوں میں لے لے اور مرد بھی دینے کے بعد عورت سے کاغذ پر دستخط کروا لے۔

حق مہر کی اہمیت: دینِ اسلام عورت کوپیسہ بچانے، کام یاکاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی”جائیداد“ بنانے کا حق بھی دیتا ہے کیونکہ ہر رشتہ ”دھوکہ“دے سکتا ہے۔ اس لئے عورت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ”دین“نے حل دیا ہے کہ باپ کی جائیداد میں سے حصہ، نکاح کے وقت شوہر سے حق مہر لینااور کھانے کے لئے روزانہ یا ماہانہ کا خرچہ لینا اور اس میں بچانا، شوہرکی وفات کے بعد جائیداد میں حصہ، باپ یا بھائی کی طرف سے تحفہ، جو کچھ ملے اس کو لے کراپنے بڑھاپے اور مستقبل کے لئے رکھنا چاہئے۔

عورت اور مرد کے لئے بچے: نکاح سے مقصود بچے پیدا کرنا بھی ہے تاکہ نسل انسانی چلتی
رہے۔ اگر کسی عورت کو حیض نہیں آتا یا بانجھ ہے تو شادی سے پہلے مرد کو دھوکہ نہ دیا جائے بلکہ بتایا جائے۔

بچوں کی تعداد: حدیث پاک میں ہے کہ محبت کرنے والی،بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ میں تمہاری وجہ سے امتوں پر فخر کروں گا جس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے ہی بچے ہوں بلکہ میاں بیوی رضامندی سے اتنے”بچے“ لے سکتے ہیں جتنوں کی تربیت کر کے نبی اکرمﷺ کا امتی بنا سکیں ورنہ زیادہ بچے پیدا کرنا ”فرض“ نہیں ہے۔ بچوں کی تعداد کو روکنے کے لئے عَزل یا کوئی بھی اچھا طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔

اولاد کی پیدائش: معاشرتی اسلام میں پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی لڑکی کواس کے والدین کے گھر بھیجنے کا ظلم کیا جاتا ہے تاکہ زچگی سے لے کر40دن تک سارا خرچہ لڑکی کے والدین کریں اور بعد میں سسرال والے لینے جاتے ہیں، کھانے بھی کھاتے ہیں اور ساتھ میں سب گھر والوں کوسوٹ بھی دئے جاتے ہیں۔ معاشرے کی ان خرافات کی وجہ سے والدین ”بیٹی“ کی پیدائش کوپسند نہیں کرتے۔

بیٹی کی پیدائش: اس معاشرے میں جب ایک باپ کے گھر میں ”بیٹی“ پیدا ہوتی ہے تو ”باپ“ کا غم کی وجہ سے منہ کالاپڑ جاتا ہے،گھر سے باہر نہیں نکلتااور کوئی خوشی نہیں کرتا۔
بعض عورتیں الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے علم ہونے پر کہ میرے گھر میں بیٹی پیدا ہونے لگی ہے تو طعنوں کے ڈر سے حمل ضائع کروانے کا جرم بھی کرتی ہیں، جس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طعنے دینے والے یا عورت کو حمل ضائع کروانے کے مُجرم یا گناہ گار ہیں کہ نہیں؟

حمل ساقط: علماء کرام فرماتے ہیں کہ کسی مجبوری کے عالم میں اگر حمل ساقط یا بچہ گروانا پڑے جیسے اگر عورت بچہ پیدا کرے گی تو مر جائے گی تو 120 دنوں یعنی چار ماہ سے پہلے کرانا جائز ہے اس کے بعد کیونکہ بچے میں جان پڑ جاتی ہے اس لئے گناہ اورناجائز ہے۔

خوشخبری: دینِ اسلام یہ بشارت دیتا ہے کہ بیٹی یا بہن کی پرورش اور تربیت کرنے والا”نبی کریمﷺ“ کے ساتھ ہو گا، اس لئے”بیٹی“ کی ”ذمہ داری“نبی کریمﷺ کا حشر یا جنت میں ساتھ حاصل کرنے کے لئے کوئی”بھاری“ نہیں ہے۔

نصیب: عورت کو جو خون آتا ہے وہ دو طرح کا ہوتا ہے:
1۔ خون،حیض، ماہواری یاMenses: یہ خون عورت کو شرم گاہ سے آتا ہے جو عورت کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ جس کے آتے ہی عورت بالغ ہو جاتی ہے اورکچھ عورتوں کو ایک ماہ میں دو دفعہ بھی آسکتا ہے۔ اس کی مدت کم از کم تین دن سے لے کر سات دن ہوتی ہے یعنی ایک دن یا دو دن خون آیاتو پھر نہیں آیا اور عورت نے نماز چھوڑ دی تو ان دو دنوں کی چھوڑی ہوئی نمازیں قضا کرے گی۔ اگر تین دن آیا تو اس کو حیض کہتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ سات دن سے لے کر دس دن تک ہوتا ہے۔ اگر دس دن سے بڑھ جائے تو اس کو بیماری(استحاضہ) قرار دیا جاتا ہے اس لئے دس دن کے بعد عورت نماز روزہ بھی کرے گی اور اپنے مرد کے ساتھ صحبت بھی کر سکتی ہے۔ عورت حیض کے دنوں میں صحبت نہیں کرے گی اور اگر مرد زبردستی کرے گا تو گناہ گار ہے۔

2۔ نفاس (بچہ پیدا ہونے پر خون): اسی طرح عورت کو بچہ پیدا ہونے پر اس کی شرم گاہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے جس کو نفاس کا خون کہتے ہیں۔ اس کی مدت یہ ہے کہ جس لمحے خون آنا بند ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ 40دن تک ہوتی ہے۔ یہ خون پانچ منٹ میں بند ہو جائے یا پندرہ دنوں میں، اسی وقت سے نماز روزہ کرے گی اور مرد اس کے ساتھ صحبت کر سکتا ہے۔خون بند ہونے کے بعد نمازیں چھوڑ دینا یہ سب گناہ گاری ہے۔

بچے کے دودھ کی ذمہ داری: جب بچہ پیدا ہو تو ماں کو دودھ پلانا چاہئے البتہ مالدار باپ اگر کسی عورت کو پیسے دے کر دود ھ پلوا لیتا ہے تو عورت نہ بھی پلائے توکوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ دودھ پلانا دو برس ہے اور دو برس کے بعد دودھ پلانا منع ہے، اگر دو برس سے پہلے بچہ دودھ چھوڑ دے تو بھی ٹھیک ہے۔

رضاعی ماں: اس لئے ہر ماں یا دودھ پلانے والی دو سال کے اندر اندر بچے کا دودھ پینا بند کروائے،البتہ ”رضاعت“ کے لئے حکم یہ ہے کہ اگرکوئی بچہ ڈھائی سال کی مدت تک بھی کسی اورعورت کا دودھ پی لے گا تو وہ اسکی رضاعی ماں کہلائے گی اوراس عورت کے بچے دودھ پینے والے کے بہن بھائی کہلائیں گے لیکن دودھ پینے والے کے دوسرے بہن بھائی اس عورت کے کچھ نہیں کہلائیں گے۔

بہن بھائی یاکسی کا بچہ(Adopted Son): یتیم اور غریب بہن بھائیوں کے بچوں کی کفالت کرنا اچھی بات ہے مگراس میں جھوٹ کو ہر گز شامل نہ کیا جائے۔ لے پالک کو اپنا بیٹا نہیں کہا جا سکتا اور اسکول، مدرسہ یا کاغذات میں باپ کے خانے میں اپنا نام نہیں لکھا یاجائے گا بلکہ سر پرست یاGuardianکے خانے میں اپنا نام لکھا جائے گا۔ اس کا جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔اگر کسی کا بچہ لے کر پالا ہے تو لڑکے کے بالغ ہونے پر”ماں“ لڑکے سے پردہ کرے گی اور لڑکی بالغ ہونے پراپنے پالنے والے باپ(سر پرست) سے پردہ کرے گی۔ اسی طرح منہ بولی بہن یا ماں کا دینِ اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے بلکہ منہ بولی ماں اور بہن سے شادی کرنا جائز ہے۔ اپنا نسب یا ذات بدلنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ دینِ اسلام میں حرام ہے۔

طلاق یا خُلع: دینِ اسلام سمجھاتا ہے کہ طلاق دینا کوئی اچھی بات نہیں ہے بلکہ طلاق دینے سے پہلے: (۱) بیوی کی غلطی کی اصلاح کی جائے اور خوبیوں کو نظر میں رکھا جائے۔ (۲) ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے پاس نہ سویا جائے۔ (۳) بیوی کو کم سے کم طاقت سے مار بھی سکتے ہیں لیکن چہرے یا اس مقام پر نہیں جہاں پر چوٹ لگنے سے عورت کا کوئی نقصان ہو جائے (اس دور میں مشورہ ہے کہ نہ مارا جائے) (۴) اپنے گھر کے بڑے اور اس کے گھر کے بڑے بلائے جائیں تاکہ وہ سمجھائیں اور پھر بھی تصفیہ نہ ہوتو طلاق دے دی جائے۔(۵) طلاق ہونے کے بعد لڑائی نہ کریں بلکہ اللہ پر یقین رکھیں، وہ دونوں کو غنی کر دے گا۔

لفظوں کا استعمال: دینِ اسلام ایک مسلمان کوسمجھاتا ہے کہ جیسے نکاح کے وقت کے تین لفظ ”میں نے قبول کیا“ کہ کہنے سے ”نکاح“ ہو جاتا ہے،جس سے مرد کے لئے عورت سے صحبت، جماع، پیار کرنا جائز ہو جاتا ہے، اسی طرح تین لفظ ”طلاق“کے ”مرد“ چاہے (۱) مذاق یا پیار سے (۲) شراب پی کر (۳) غصے میں (۴)لکھ کر(۵) کسی کے ذریعے طلاق کا پیغام بھیج دے (۶) گول مول لفظوں میں طلاق کی نیت سے کہہ دے جیسے میری طرف سے تم فارغ ہویا تم میری بیوی نہیں، کسی اور سے شادی کر لو وغیرہ، تو اسی وقت طلاق ہو جائے گی، چاہے عورت (۱)حائضہ ہو یا(۲)حاملہ (Pregnant) ہو طلاق ہو جائے گی جب کہ(۱) گالی نکالنے (۲) مارنے(۳) خرچہ نہ دینے(۴) ماں کے گھر سالوں بیٹھنے سے”طلاق“ نہیں ہوتی اور نہ ہی ”نکاح“ ٹوٹتا ہے مگر ان”تین لفظوں“ سے ٹوٹ جاتا ہے۔

طلاق دینے کا طریقہ: تین طلاقیں کبھی بھی اکٹھی نہ دی جائیں بلکہ جب عورت حیض(Menses) سے فارغ ہو تو اس کو کہا جائے کہ میں نے تجھے ایک طلاق دی۔ اس کے بعدایک مہینہ خود بھی عورت کے پاس نہ جائے، اس سے پتا چل جائے گا کہ نفرت اتنی زیادہ ہے کہ بیوی کے بغیر گذار ہو سکتا ہے۔ پھر دوسرے مہینے ایک طلاق دی جائے اور بیوی کے پاس نہ جایا جائے اور پھر تیسرے مہینے تیسری طلاق دی جائے۔ طلاق کی تین قسمیں ہیں:

۱۔ طلاق رجعی: اس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اس کو ایک”طلاق“ کہی جائے، جس پر عورت کو تین مہینے کی عدت شوہر کے گھر میں گذارنی پڑے گی مگر اس عدت میں پیار محبت والے انداز سے اپنے خاوند کو قائل کرتی ر ہے تا کہ وہ اس سے رجوع کر لے۔ اگر خاوند تین مہینے کے اندر معاف کر دے تواب ساری زندگی میں صرف دو مرتبہ طلاق کا لفظ کہہ سکتا ہے چاہے دس سال بعد ایک دفعہ پھر کہا کہ تجھے ایک طلاق ہے تو اس کے بعد ایک لفظ طلاق کا اختیار اس کے پاس رہ جائے گا۔

۲۔ طلاق بائن: اگر طلاق رجعی میں خاوند رجوع نہیں کرتا اور تین مہینے(حیض) گذر جاتے ہیں تواب طلاق بائن ہو جائے گی یہ طلاق کی دوسری قسم ہے جس کا مطلب ہے کہ میاں بیوی اب بھی مل سکتے ہیں مگر اب دوبارہ ”نکاح“ کرنا پڑے گا اور عورت کسی دوسرے سے بھی نکا ح کر لے تو جائز ہے۔

۳۔ طلاق مغلظہ: عورت کو ایک وقت میں اکٹھی”تین طلاقیں“ دے دیں تو ایسا کرنا خلاف سنت، بدعت اور کم علمی ہو گی مگر اب عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرے اور اگر دوسرا خاوند اپنی مرضی سے طلاق دے تو پھر اپنے پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔ آئمہ اربعہ اہلسنت و جماعت کا موقف ہے کہ اگر لڑکی کو تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو طلاق ہو جائے گی لیکن اہلحدیث حضرات اس موقف کے مخالف ہیں ان کے نزدیک تین طلاقیں کہنے سے ایک ہی طلاق ہو گی اورپھر دودفعہ مزید طلاق دی جائے گی۔ اہلحدیث حضرات بحث کرنے کی بجائے تصدیق کریں کہ کیا چاروں ائمہ کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) قرآن و احادیث کے خلاف تھے؟

پاکستان کا قانون: طلاق دیتے وقت طلاق کا”نوٹس“ لڑکی کے گھر کے پاس جو یونین کونسل کا دفتر ہے اس میں جمع کرایا جائے اوروہ میاں بیوی اور ان کے رشتے داروں کو بلائیں تاکہ صُلح کا کوئی موقعہ نکل آئے۔ اس لئے زبانی طلاق نہ دیں بلکہ”طلاق نامہ“ یونین کونسل میں جمع کرائیں ورنہ بعد میں پریشانی بھی ہو سکتی ہے۔

طلاق یا خُلع:طلاق کا دینا مرد کے اختیار میں ہے لیکن خُلع بھی طلاق ہے جو کہ عورت مرد سے”حق مہر“واپس کر کے یا کچھ پیسے دے کریاکورٹ کیس کے ذریعے سے لیتی ہے۔ البتہ کورٹ کی طلاق میں بھی میاں بیوی کا رضا مند ہونا ضروری ہے۔

حلالہ: اسلام میں ”حلالہ“ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ”میاں بیوی“ میں ”طلاق“ ہو جائے تو اس کے بعد لڑکی کسی دوسرے مرد سے ”نکاح“کر سکتی ہے، اگر خدا نخواستہ دوسرے نکاح کے بعد لڑکی کا خاوند مر جائے یا طلاق دے تو پھر دوبارہ پہلے شوہرسے نکاح کر سکتی ہے یعنی اب دوبارہ آپس میں نکاح کرنا”حلال“ اور”جائز“ ہو گیا، اس کو”حلالہ“ کرنا کہتے ہیں۔ آجکل تین طلاق دینے والوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ حلالہ کروالیں۔ یہ مشورہ ہی غلط ہے اسلئے پہلے ہی سکھایا جا رہا ہے کہ تین طلاقیں نہیں دینیں۔ یہ علم بھی ہوا ہے کہ اس حیلے کو بنیاد بنا کر ”حلالہ سنٹر“ بھی کُھلے ہوئے ہیں لیکن یاد رہے کہ(پیشہ ور)حلالہ کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے اور اسلام حلالہ کرنے کرانے والے کو پسند نہیں کرتا۔

تین طلاقیں: جس عورت کو مل گئیں وہ جذباتی ہو کراپنے ماں باپ کے گھر نہیں جائے گی بلکہ تین مہینے (تین حیض) کی عدت میں اس کااپنے خاوند کے گھر میں رہنا ضروری ہے اور اس کے کھانے پینے کا خرچہ بھی خاوند کے ذمہ ہو گا مگر عدت میں خاوند سے پردہ کرنا بھی لازمی ہو گا، اگر ڈر ہو کہ خاوند صحبت کر لے گا تو اس کے لئے کوئی سد باب کر ے یعنی کسی بھائی یا بی بی وغیرہ کو ساتھ رکھ لے۔

عدت: اللہ کریم کی طرف سے عورت کیلئے خاوند کے گھر میں اعتکاف ہے جو کہ نفلی حجوں اور عمروں سے بہتر ہے۔ عدت میں عورت خوبصورت بننے والا کوئی کام نہیں کرے گی یعنی خوشبو، تیل، سرمہ، کنگھی، مہندی، اچھے کپڑے نہیں پہنے گی اوراپنے گھر سے باہر نہیں نکلے گی۔بیماری ہو تو ڈاکٹرکو گھر بُلوایا جائے، جنازہ اگر بھائی کا ہی ہو اور شادی کسی قریبی کی بھی ہو مگرپردہ کر کے جانا بھی منع ہے۔

بیوہ: جس کا خاوند مر گیا ہو اس کی عدت اور سوگ قمری مہینے (محرم، صفر وغیرہ) سے چار ماہ دس دن ہے۔ اگرکوئی کمانے والانہ ہو تودن کو کام کرے لیکن رات اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی۔ تین طلاق اگر حاملہ عورت کو ہو جائے یاجس کا خاوند مرگیا ہو اور وہ حاملہ Pregnant)) ہو،ان ”دونوں عورتوں“ کی عدت ”بچہ“ پیدا ہونے تک ہے۔ادھر جنازہ پڑا ہے ادھر بچہ پیدا ہوا تو عورت کی عدت ختم ہو گئی۔

بچے: عورت کی اولاد اس کے خاوند کا خون ہے، اس لئے جذباتی ہو کر”والدین“ کے گھر بچے لے کر ہر گزنہ آئے اور نہ ہی ان کو پالنے کی ذمہ داری لے۔مرد اپنی اولاد کو مارے یا اچھا بنائے، اب یہ اس کی ذمہ داری ہے۔عورت اگر ہو سکے تو جلد دوسرا نکاح کر لے تاکہ اپنے ”کسی“ پر بوجھ نہ بنے۔

غلط فہمی: کچھ عورتیں خاوند کے مرنے کے بعد، پہلے سب رشتے داروں سے ملتی ہیں اورپھر ”عدت“ شروع کرتی ہیں حالانکہ خاوند کی موت کے بعد عدت میں ایک لمحے کی دیر کرنا بھی گناہ ہے۔ عدت کے دوران نکاح نہیں ہوتا اور اگر کوئی عورت کسی مرد کے علم میں لائے بغیر کر لے تواس میں ”عورت“ گناہ گار ہو گی اور مرد کے علم میں آنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔
پردے کے متعلق غلطی: کچھ عورتیں جب شوہر کے مرنے کے بعد”عدت“ پر بیٹھتی ہیں تو جیٹھ، دیور یا کسی بھی رشتے دار سے پردہ کر لیتی ہیں اور TVپر ڈرامے دیکھنا بند کر دیتی ہیں حالانکہ یہی پردہ انہوں نے ساری زندگی ان کے ساتھ کرنا ہوتا ہے اور ضرورت کے تحت بات چیت تو عدت میں بھی ان کے ساتھ ہو سکتی ہے مگر وہ سمجھ رہی ہوتیں ہیں کہ پردہ ”عدت“ کے وقت ہوتاہے۔

دوسری شادی: دینِ اسلام اجازت دیتا ہے کہ مرد اگر چار عورتوں کے رزق، کپڑا اور مکان کی ذمہ داری لے اور ان کے حقوق ادا کرنے میں برابری کر سکے تو چار”نکاح“ کر سکتا ہے۔ اس میں طلاق یافتہ، بیوہ، غیر شادی شدہ، بانجھ وغیرہ سب عورتیں داخل ہیں۔اس طرح عورت کو رزق اور جسمانی تسکین بھی حاصل ہو سکے گی اور اس کے ساتھ ساتھ اگر بیوہ کے بچے ہوں تو ان کو بھی باپ کا سہارا مل سکتا ہے۔ معاشرتی اسلام یہ شور ڈالتا ہے کہ دوسری شادی ”مرد“ مزے کے لئے کرتا ہے جو کہ شیطانی خیال ہے حالانکہ نکاح کے بعد ذمہ داری ہوتی ہے مزہ نہیں ہوتااور مزہ تو ہمیشہ غلط کام میں ہوتا ہے۔ اس لئے بہت سی طلاق یافتہ اور بیوہ عورتیں بدکاری کرتی نظر آتی ہیں اور ان کی شرح بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ معاشرہ ان کے ”روزگار“ کا کوئی حل نہیں نکالتا اور میڈیا ”گناہ“ کی تشہیر کرتا ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق دوسری شادی کرنے سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے تحریری اجازت لینا لازمی ہے اور وہ”اجازت نامہ“ دوسرے ”نکاح فارم“ کے ساتھ یونین کونسل میں جمع کرایا جائے مگر دینِ اسلام میں بغیر کسی کی اجازت سے چار نکاح اکٹھے کرنا بھی جائز ہے۔

حقیقی زندگی: دینِ اسلام کے مطابق دنیاوی زندگی ایک مسلمان کے لئے کھیل نہیں بلکہ آزمائش ہے،اس لئے حق حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں۔اپنی اولاد کو زندگی میں آنے والی تکلیفوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کا بتایا اور سمجھایا جائے تاکہ وہ صبر، شکر اور توکل سے ان کا مقابلہ کر سکیں اور ان کے اندر یہ عقیدہ مضبوط کیا جائے کہ گناہ کا حکم اگر والدین بھی دیں تو ان کا حکم ماننا جائز نہیں۔

غیر حقیقی زندگی: TV اسکرین پر جو کچھ ہمیں دکھایا جا رہا ہے وہ حقیقت نہیں ہے اوریہ کہنا بھی فضول ہے کہ TVیعنی Magic Box کو دیکھنا بند کر دیا جائے کیونکہ اس Magic Boxکی محبت عوام کے دلوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ سب کچھ بُھلا کر بارہ بارہ گھنٹے اسی کو دیکھتی ہے۔ TVپر دینی پروگرام دیکھنے سے بھی کسی کو عالم، فاضل، ولی اللہ اورپرہیزگاربنتے نہیں دیکھا گیا بلکہ زیادہ تر دین کے بارے میں بھی عجیب و غریب شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ضرور دیکھا گیا ہے۔

سچ بتائیں: کیاننگے بدن،ننگی تصویریں، چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت کے مناظرجو کہ Superstars ہیرواور خوبصورت حسیناؤں کے ذریعے سے فلمائے جاتے ہیں اس کودیکھ کر نفسانی، شہوانی یا شیطانی خواہشات کا”بھڑک“ کرگناہ کرنا آسان نہیں ہو جاتا ہے؟کیا اسی وجہ سے ہماری بیٹیاں گھر سے بھاگ نہیں رہی ہیں؟ان مناظر کو دیکھ کر نئی نسل بد اخلاقی(زنا) کو”جائز“ سمجھتی ہے اورغریبی سے چھٹکارا پانے کے لئے چوری، ڈاکہ،تاوان اور قتل کو”حق“ سمجھتی ہے۔یہ واقعات زیادہ ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

دین میں کرپشن: اسی طرح دین میں بھی کرپشن زیادہ ہے اور عوام کو علم ہو کہ ہمارے نزدیک کرپشن اسلئے ہے :

حقیقت: اہلتشیع دین مولا حسین کے مُنکر، ان کے نانا کے دین کے مُنکر، ان کے بابا علی کے دین کے مُنکر بلکہ اسلام کے مُنکر ہیں کیونکہ قرآن ”کتابی” شکل میں ہے تو قرآن کو ماننا اللہ کریم کو ماننا ہے۔ حضور ﷺ اور مولا علی کو ماننے کا مطلب ہے کہ اُس مستند اسناد اور راوی کے ساتھ نماز روزے کی ”احادیث کی کتاب” کو ماننا جو حضور ﷺ اور مولا علی کے الفاظ ہوں تو اہلتشیع بتا دیں کہ ان کی مستند احادیث کی کتابیں کونسی ہیں جس کو مان کر نبی ﷺ اور مولا علی کو مانتے ہیں؟

اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے ۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general