خوف خدا
ایک درویش سے پوچھا گیا کہ بابا جی مجھے کیا بننا چاہئے تو فرمانے لگے بیٹا جو مرضی بن جا مگر کچھ دیر روزانہ کسی نیک صحبت میں بیٹھا کر جس سے تیرے دل میں خوف خدا پیدا ہو جائے۔
پوچھا بابا جی یہ خوف خدا کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس سے کیا فائدہ ہے۔ بابا جی نے کہا کہ خوف خدا کے بغیر زیادہ تر پروفیسر، انجینئر، ڈاکٹر، سائنسدان، وزیر، مشیر، پیر فقیر، عامل، بیوروکریٹ، جج، وکیل، تھانیدار ایک خوفناک درندہ بنتا ہے جس سے بھلائی کی امید کم اور برائی کی امید زیادہ کی جا سکتی ہے بلکہ انسانیت اور اسلام کا نقصان ہی کریں گے۔
بابا جی بہت سی جماعتیں ہیں جو انسانیت پر کام کر رہی ہیں اور انسانیت کو فائدہ دے رہی ہیں۔ بابا جی نے کہا کہ بیٹا جماعتیں انسانیت کو فائدہ دینے کا کام کم کرتی ہے، البتہ اپنی بلیک منی وائٹ کرنے کا کام زیادہ کرتی ہیں۔ مُلک میں انتشار پیدا کرنے کا بھی کام کرتی ہیں اور زیادہ تر جماعتوں کو فنڈنگ دے کر ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ یہ یہ کام کرو جس سے اچھائی کا نقصان ہوتا ہے۔
بابا جی آپ کوئی جماعت کیوں نہیں بنا لیتے تو بابا جی نے کہا کہ بیٹا میں تو ہر ایک کو اپنے عقائد و اعمال کا ہم خیال بنانا چاہتا ہوں، اگر ہم خیال ہو جائیں گے، شعور آ جائے گا تو ایک جماعت ہی کہلائیں گے۔ اگر ہر کوئی اپنے گھر یا اپنے ایک خاندان کو سمجھا دے تو سمجھ لو پورا پاکستان ایک عقائد کا ہو جائے۔
بابا جی لوگوں کو چھوڑیں وہ تو چڑھتے سورج کی پُوجا کرتے ہیں تو بابا جی نے جواب دیا کہ بیٹا یہ فقرہ ہی غلط ہے چڑھتے سورج کی پوجا مفاد پرست لوگ کرتے ہیں لیکن خدا پرست لوگ اُس کی پُوجا کرتے ہیں جو سورج کو روزانہ مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔
بابا جی اُس اللہ پر یقین کیسے پیدا ہو گا، بیٹا اُس پر یقین اُس کی توفیق سے پیدا ہوتا ہے۔ مجھ سے بچپن میں فجر کی نماز نہیں پڑھی جا رہی تھی تو میں نے اللہ کریم کے آگے عرض کی کہ یا اللہ وہ کونسا جذبہ ہوتا ہے جس میں فجر قضا نہیں ہوتی، بندہ سردی گرمی سے بے نیاز ہو کر اُٹھ پڑتا ہے۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ اذان ہوتی تو آنکھ کُھل جاتی، نماز پڑھی جاتی مگر جذبہ نظر نہیں آیا کیونکہ وہ نظر بھی نہیں آتا۔ بس پھر میں کسی کو وہ کیفیت نہ دے سکا کیونکہ رب کی توفیق جس کے لئے ہے اُس کو ملتی ہے اور جو اُس سے محبت کرے اُس کو بھی اُس میں سے رب حصہ دے دیتا ہے۔
یہ تو بابا جی آپ کا مسئلہ ہو گا لیکن ہمارا تو ایسا مسئلہ نہیں ہے، بیٹا اللہ کریم کے دینے کے انداز عجیب و غریب ہیں۔ وہ ہمیشہ مافوق الاسباب دیتا ہے یعنی کُن فرماتا ہے، روزانہ نئی شان دکھاتا ہے، کسی کو ہنسا کر اور کسی کو رُلا کر آزماتا ہے۔ میری تیری کوشش ہونی چاہئے کہ نیک صحبت میں بیٹھا کریں۔
بابا جی نیک صحبت ملتی کہاں ہے، ہر ایک اپنے اپنے روزگار کے چکر میں ہے، بیٹا تو نے تلاش کب کی ہے، جب کوئی ارادہ کر لے تو اُس کا ہادی خود اللہ کریم ہے وہ اُس کو اُس کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ باقی رب راکھا۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟