مال کی محبت
صحیح بخاری 4042: کتاب المغا زی، باب غزوہ احد کیا بیان میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“
ترمذی 2336: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے“۔
مختلف قوموں کی مختلف وقت میں آزمائش
1۔ سورہ بقرہ 49 میں اللہ کریم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے لئے آزمائش تھی کہ ان کے لڑکوں کو فرعون ذبح کر دیتا تھا اور لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا اور 150000 بچے ذبح ہوئے۔
2۔ اللہ کریم نے سورہ بقرہ 54 میں بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی، ان کو سزا کے طور پر اور توبہ کا طریقہ جو بتایا وہ بھی بہت بڑی آزمائش تھی یعنی اللہ کریم نے فرمایا کہ تم میں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی وہ ہتھ یار اُٹھائیں اور اپنے والدین بھائی بہن رشتے داروں کو قتل کر دیں جنہوں نے پُوجا کی ہے، یہ بھی کتنی سخت آزمائش تھی جس میں 70000 مار دئے گئے۔
3۔ سورہ بقرہ 249 آیت میں جب طالوت لشکر لے کر جالوت کے مقابلے میں نکلے تو فرمایا کہ اللہ کریم تمہیں ایک نہر سے آزمانے لگا ہے جس نے اُس میں سے پانی پیا وہ ہمارا نہیں مگر بہت کم تھے جنہوں نے نہ پیا، باقی سب نے پی لیا۔
4۔ سورہ صفت 106 میں جب اللہ کریم کے حکم پر سیدنا ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے بیٹے کی گردن پر چُھری چلائی تو اللہ کریم نے فرمایا کہ یہ تمہاری بہت بڑی آزمائش تھی مگر تم نے سچ کر دکھایا۔
5۔ ابن ماجہ 4023:میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبت اور آزمائش کا شکار کون ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”انبیاء، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں” یعنی جس کا ایمان زیادہ اس کا امتحان زیادہ۔
نتیجہ: حضور ﷺ نے فرما دیا کہ میری امت کی آزمائش مال ہے، اب اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی معاشی حالت بہتر نہ بنائیں، کیا ہم کمائی کے ذرائع پیدا نہ کریں، کیا در در مانگ کر گذارا کریں۔ اس میں یہ تجاویز سامنے آتی ہیں:
1۔ حضور ﷺ کی طرح زندگی گذاریں اور آخر میں آپ کے گھر سے گھر اور ملک کی حفاظت کے لئے ہتھ یا ر نکلنے چاہئیں مگر اپنی ساری جائیداد کو مال فئے کی طرح ہونا چاہئے کہ اپنی اولاد کو کچھ بھی نہ دے کر جائیں۔ یہ بہت بڑا مرتبہ ہے۔
2۔ حکومت وقت ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے ہم کو قرضہ نہ لینا پڑے بلکہ ہم قرضہ دینے والے بنیں، اس بات کو سب مذاق سمجھیں گے۔
3۔ اپنی اولادوں کے اندر رسول اللہ ﷺ کی محبت پیدا کریں اور ان کو صبر و شکر سکھائیں تاکہ مشکل وقت میں بے ایمان نہ ہوں اور ان کے لئے کچھ چھوڑ کر جائیں۔
4۔ غور و فکر کریں کہ آپ کا مال کہاں لگ رہا ہے جیسے بچے کی سالگرہ پر آپ کھانا کھلائیں مگر تحائف وہ دیں جیسے کپڑے، پیسے یا ایسے تحفے جس کو بچہ یا اس کے والدین بعد میں استعمال کر سکیں۔
5۔ نکاح وغیرہ پر پہلے دھیان رکھیں کہ میاں بیوی کو سمجھا کر ان کی زندگی کا سفر شروع کریں اور ان کو دعاوں کے ساتھ ساتھ وہ تحائف دیں جو ان کی زندگی بھر کا فائدہ ہو۔ مکان، زیور، پیسہ، کپڑا۔ البتہ ڈانس پروگرام، مہندی پروگرام، باجے پروگرام ، کُھسرے پروگرام، میراثی پروگرام نہ ہوں۔
غور وفکر: یہ پیسہ ہم کو جہنم میں لے کر جائے گا اور جنت میں بھی۔ ہر کوئی غور وفکر کرے کہ اپنا پیسہ کہاں لگا رہا ہے اور کیا اُس پیسے سے انسان، مسلمان اور اسلام کو فائدہ ہو رہا ہے یا صرف دکھاوا، ریاکاری اور عوام کی نظر میں آنا مقصود ہے جیسے شادی، سیلاب، زلزلہ، آفات میں آٹے کے تھیلے پیچنے والے کر رہے ہوتے ہیں۔
ترمذی 2417: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“۔
مینجمنٹ: یہ وہی کرے گا جس کو کوئی مینجر مینجمنٹ کرنا سکھائے، کسی ولی اللہ، پیر کامل، استاد، عالم، راہبر کے ہاتھ لگ جائے ورنہ تو حال سب کے سامنے ہے۔ رسک مینجمنٹ، ٹائم مینجمنٹ اور پریشر مینجمنٹ صرف اور صرف آخرت کو یاد کر کے نبی کے کام کے مطابق اللہ کے دین پر چلنے اور پھیلانے سے سمجھ آئے گی۔
اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے۔ اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے اور بدعت و شرک کس عالم نے نہیں سکھایا۔ البتہ سعودی وہابی علماء جو اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے، کا پراپیگنڈا ہے کہ اہلسنت علماء بدعتی و مشرک ہیں، لیکن اہلسنت علماء سے ملکر بات نہیں کرتے۔ دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اہلحدیث اور سعودی وہابی ایک ہو جائیں تو بڑی بات ہے، ان کا فرق ہی مسلماںوں کے لئے ایک تفرقہ ہے جس سے اہلتشیع بے بنیاد دین پروموٹ ہوتا ہے، اہلتشیع وہ جس کے پاس حضور ﷺ کی کوئی احادیث کی کتابیں نہیں ہیں، اسلئے منکر رسول اور ختم نبوت کے منکر ہیں۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟