اہلتشیع اور حضورﷺ کی چار بیٹیاں
اکثر بے بنیاد مذہب والے رافضی (شیعہ حضرات) کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی ایک بیٹی تھی، جب ان کی کتابوں کے حوالے دئے جائیں تو اپنی کتابوں سے مکر جاتے ہیں۔اہلسنت کی صحاح ستہ کی طرح شیعہ مذہب کی بنیادی چار کتابیں ہیں جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے: (1) اصول کافی (2) من لا یحضر الفقیة (3) تهذيب الاحکام (4) الاستبصار، البتہ اصول کافی کا حوالہ ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں جو 329ھ میں فوت ہوا۔ فارسی نہیں لکھی تاکہ بات لمبی نہ ہو۔ یہ پوسٹ اہلسنت اپنے بچوں کو بھی سنائیں۔
1۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی ” کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ ” میں ذکر کیا ہے کہ ” نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔” (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)
اس کے بعد اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔
2۔ مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبدﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب ” قرب الاسناد” لکھتے ہیں ” حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنھاسے جناب رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔القاسم، الطاہر ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فو ت ہوگئیں پھر رسول ﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ ” (قرب الاسناد لابی العباس)
يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد ﷲ العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص245)
اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبدﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے۔
3۔ شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کے اندر لکھتے ہیں۔” (رسولﷲ ﷺ نے فرمایا) ﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبدﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔” (کتاب الخصال للصدوق ص375)۔
4۔ گیارھویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت ﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضیﷲ تعالی عنھن۔
5۔ شیخ عباس قمی چودہویں صدی کے مجتہد شیعہ ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ "حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ﷺ کی يہ اولاد متولد ہوئی۔ طاہر، قاسم ، فاطمہ، ام کلثوم، رقیہ اور زینب۔ آگے لکھتے ہیں۔” فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی شادی حضرت علی رضیﷲ عنہ کے ساتھ ہوئی زینب رضیﷲ عنہا کا ابو العاص رضیﷲ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور ام کلثوم کا عثمان ابن عفان رضیﷲ عنہ سے نکاح ہوا جب ان کی وفات ہوئی تو رقیہ کی تزویج بھی عثمان رضی ﷲ عنہ سے کر دی۔ ” (منتھی الآمال للشیخ عباس فارسی طبع تہران)
6۔شیعہ مذہب کے ايک اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب لکھتے ہیں: حضرت خدیجہ رضیﷲ عنہا سے جناب رسول ﷺ کے ہاں پہلے فرزند عبدﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبدﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضیﷲتعالی عنہن۔(حیات القلوب ج 2 ص 728 طبع لکھنو)
يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ “ کتابہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید۔(کشف الاسرار) ترجمہ:وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو۔
7۔ شیعہ مذہب کے قدیم مورخ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں رقمطراز ہیں: "جس وقت حضور اکرم ﷺ نے خدیجہ الکبری سے رشتہ قائم فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق30سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبدﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے) اور فاطمہ رضی ﷲ عنہا متولد ہوئیں۔”۔(تاریخ یعقوبی ج 2 ص 20)
8۔ شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضیﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب”نہج البلاغہ“ ہے۔ حضرت علی المرتضی رضیﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی ﷲ عنہ آپ رسولﷲ ﷺ کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضیﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضیﷲعنہما نہیں پاسکے۔’ ’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو۔” وانت اقرب الی رسولﷲ ﷺ شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ ” (نہج البلاغہ ص 303 جلد 1مطبوعہ تہران) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضیﷲ عنہ کو رسولﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی سرکار طیبہﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
9۔ شیعہ عالم علی بن عیسیٰ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ ” خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا حضور اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضیﷲ عنہا سے متولد ہوئے۔ "(کشف الغمہ)
10۔ علماءشیعہ کے معروف عالم شیخ عبدﷲ مامقانی رقمطراز ہیں:خدیجہ رضیﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔(تنقیح المقال ج3ص73طبع لنبان)
حقائق: اہلتشیع (رافضی) ایک بے بنیاد مذہب ہے اور اس مذہب کی حقیقت جاننے کے لئے جناب علامہ محمد علی صاحب کی مکتبہ نوریہ حسنیہ، شیرازیہ، جامعہ رسولیہ شیرازیہ، بلال گنج، لاہور سے شائع کی گئی تحقیقی کتابیں (1) عقیدہ جعفریہ (2) فقہ جعفریہ (3) تحفہ جعفریہ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
تقیہ بازی: بہت سے اس پیج پر آنے والے اپنے آپ کو اہلتشیع (رافضی) نہیں کہتے بلکہ اہلسنت کہتے ہیں کیونکہ اہلسنت کے کچھ علماء، درباروں کے گدی نشین، نعت خواں وغیرہ رافضیت کی طرف مائل ہیں۔ یہ اسلئے بتا رہے ہیں کہ ہم انہیں اہلسنت کے متفقہ عقائد پر واپس دیکھنا چاہتے ہیں جو ملک حجاز کے چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام نے متفقہ طور پر بنائے۔
پہچان: اہلسنت کے لباس میں رافضی پیر کی نشانیاں یہ ہوں گی کہ وہ اہلسنت عقائد کے خلاف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی، فاسق اور عجیب بات ہے کہ ساتھ میں صحابی میں بھی مانے گا۔ اسی طرح چچا ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے وہ ایمان ثابت کرے گا بلکہ کئی تو چچا ابو طالب کا عرس بھی منائیں گے۔
بے حسی: ہمیں دیوبندی اور بریلوی علماء نے مارا ہے، علماء کی لڑائی میں عوام کو عقائد سکھائے نہیں گئے۔ دونوں جماعتوں کے علماء کے عقائد وہی ہیں جو 625سالہ سلطنت عثمانیہ، ملک حجاز، خانہ کعبہ کے اجماع امت کے علماء کرام نے متفقہ طور پر بنائے اور اس دورمیں چار مصلوں پر ایک وقت میں چار امام ساری دنیا سے آئی (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) عوام کو امامت کرواتے تھے۔
سوال: دیوبندی اور بریلوی سے ایک سوال ہے کہ کیا دونوں جماعتیں چار مصلے والی نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ کیا عقائد دونوں جماعتوں نے سکھائے ہیں یا اعمال (اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، قبر پر اذان، قل چہلم) پر ہی ایک دوسرے کو کھلا رہے ہیں۔ یہ اعمال بند بھی کر دئے جائیں یا ان کا طریقہ کار بدل لیا جائے تو کوئی گناہ نہیں مگر کل قیامت والے دن ذمہ داری علماء پر ہو گی۔
چار مصلے: ہمیں چار مصلے نہیں چاہئیں بلکہ ایک مصلہ ہو مگر عقائد اہلسنت سکھائے جائیں جس میں کوئی بدعت و شرک نہیں تھا۔