غدیر خم میں مولا علی کی کہانی
1۔ حضور ﷺ مدینہ پاک سے روانہ ہو کر حج کرنے پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت حج پر پہنچے۔ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں۔ ان میں سے ایک لونڈی بطور خمس حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے لی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔
2۔ آپﷺ حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو اس مقام پر آپﷺنے کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس دوران بعض صحابہ کرام کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جن میں سے ایک شکایت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے متعلق تھی۔
3۔ غدیر خم کے مقام پر 18ذوالحجہ10ھ نبی کریمﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریمﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی اور ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ترمذي حدیث نمبر (3713) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 121) یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) اس کے محبوب اور دوست ہیں۔
4۔ بغض صحابہ رکھنے والوں کے نزدیک یہ حدیث جس مقام پر اُتری وہ مقام مقدس، الیوم اکملت لکم دینکم کی وجہ سے بڑی اہمیت،اسلئے اس حدیث کو متواتر حدیث کا درجہ دے کر قانون بنانا چاہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بجائے پہلے خلیفہ تھے۔
6۔ سبائی ٹولے کے نزدیک “مولا” کے لفظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کے لئے نہیں بولے گئے حالانکہ نبی کریمﷺ نے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے حق میں ارشاد فرمایا: قال لزید انت اخونا و مولانا ترجمہ: آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولا ہیں (مشکوۃ شریف ص293بحوالہ بخاری و مسلم باب بلوغ صغیر الفصل الاول)۔
7۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریمﷺنے غدیر خم کے موقعہ پرحضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب حضرت علی (رضی اللہ عنہ)بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی:
(1) نبی کریمﷺکے انتقال سے کچھ پہلے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریمﷺکا وصال ہو جائے، اس بنا پر ہم نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے اور اگر امارت و خلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریمﷺ ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرما دیں گے۔
اس کے جواب میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریمﷺ سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اور نبی کریمﷺ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تو نبی کریمﷺ کے بعد لوگ کبھی بھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے۔ اللہ کی قسم!نبی کریمﷺ سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے۔
فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہﷺفمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول ﷺ(البدیہ لابنی کثر ج5ص22تحت حالات مرض نبویﷺ بحوالہ بخاری شریف)
اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولاً تو حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیاً حضرت علی (رضی اللہ عنہ)ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریمﷺ غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں۔ لہذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
(2) نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا؟ کیا یہ حضور ﷺ کی نافرمانی نہ ہوئی جس کو اہلتشیع حضرات تقیہ کہہ کر اپنے بے بنیاد مذہب کو ثابت کرتے ہیں۔
(3) تمام مہاجرین و انصار صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبویﷺ کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کر دیا؟اب یہ الزام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سب صحابہ کرام پر بھی ان کی وجہ سے لگے گا جو در والے اور گھر والوں میں فرق کرنے والے رافضی ہیں ورنہ اہلبیت اور صحابہ کرام پر قرآن و احادیث کا ہی قانون لگتا ہے اور اہلبیت و صحابہ کرام میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔
(4) اس طرح دور صدیقی کے اختتام پر حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا، اس وقت حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کے لئے ایک اہم موقعہ تھا۔
(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشورہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ منتخب فرمایا تو اس موقعہ پر کسی ہاشمی!غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا۔
(6) حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے بیعت لینے سے انکار کردیا اور بنی عمر و بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے”و قد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ و فرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ (البدیہ ج7ص225قبل ذکر بیعت علی بالخلافتہ)
شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ دعونی والتمسوا غیری۔۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعی اسمعکم و اطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانا لکم وزیرا خیر لکم منی امیرا یعنی (بیعت کے معاملے میں) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کرلو۔۔۔
اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا۔اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناؤ گے امید ہے کہ میں اس کا تم سے سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لئے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے۔(نہج البلاغتہ للسید الشریف ارضی ص181طبع مصر۔ تحت و من خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیعت بعد قتل عثمان)
مندرجہ بالا کی روشنی میں واضح ہوا کہ سیدناحضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی خلافت بلا فصل کے لئے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیر لکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے۔
(7) امام حسن (رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادے حضرت حسن مثنی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ کیا رسول اللہﷺ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ: من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ اس کے جواب میں حضرت مثنی فرماتے ہیں کہ اگر اس جملہ سے نبی کریمﷺ کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریمﷺ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرما دیتے کہ اے لوگو! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں کیونکہ نبی کریمﷺ تمام لوگوں سے زیادہ فصیح(افصح الناس) تھے۔(طبقات ابن سعد ج5تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنھم) اس سے بھی یہ واضح ہو گیا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کے لئے نص صریح نہیں۔
اہلسنت: یہ بات یاد رکھیں کہ بنو امیہ اور بنو عباس سارے ہمارے کردار ہیں۔ تاریخ میں جھوٹ کا رنگ ابو مخنف کی روایات نے بھرا ہے، اس کے علاوہ تفاسیر، احادیث، تصوف کی کتابوں میں الفاظ اور واقعات بھی پیسہ لگا کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کےقاتل کا مزار بنانے والوں نے کی ہیں۔
اہلتشیع: اہلتشیع پر علمی کام اہلسنت بریلوی عالم جناب علامہ محمد علی صاحب، بلال گنج لاہور والوں نے عقیدہ جعفر، فقہ جعفر اور تحفہ جعفری کتابیں لکھ کر کیا ہےاور عملی طور پر دیوبندی نے کھلم کھلا ان کے عقائد کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ اہلسنت کبھی اہلتشیع نہیں ہو سکتا کیونکہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے۔ بابا اسحاق، مودودی، مرزا انجینئر جیسے اہلتشیع کو ثابت کرنے کی کوشش کر ہے ہیں اس کا واحد حل یہ ہے۔
اتحاد امت: پاکستان میں عوام مذہبی انتشار دور کر سکتی ہے اگر بریلوی اور دیوبندی جماعتوں کو ”مافیا“ سے آزاد کروا لیں۔ دونوں جماعتیں 625سالہ ملک حجاز کے خانہ کعبہ میں چار مصلے والی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اہلسنت علماء کرام کے متفقہ عقائد پر ہے۔ اسلئے دیوبندی اور بریلوی علماء اپنی اپنی عوام کے ساتھ سب کو بتا دیں کہ وہ چار مصلے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دونوں جماعتوں کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتوں پر ہے۔دونوں جماعتیں بتا دیں کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم نہ کرنے والے کو جو جاہل وہابی کہتا ہے وہ اہلسنت نہیں۔
اہلحدیث سارے ہیں البتہ اہلحدیث کی گمراہی تقلید کو بدعت و شرک کہنا ہے، اپنے مجتہد کا نام نہ بتانا ہے، اپنے مدارس کے فتوی کی اندھی دھند تقلید کرنا ہے۔ اسلئے اس تقیہ بازی سے توبہ کریں اور تقلید کو بدعت و شرک کہنا بند کریں۔قرآن و احادیث کے مزید حوالے یا بحث کمنٹ سیکشن میں کر سکتے ہیں۔