Sayyida Fatima Ka Janaza (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ)

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ

1۔ شیعہ حضرات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھاکا جنازہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے نعوذباللہ ناراضگی تھی اسلئے راتوں رات دفن کر دیا اور کسی کو خبر تک نہ ہونے دی- رافضیت بے بنیاد مذہب ہےاور ان کا کام ہی الزامی سوال تیار کر کے “عوام” کو ثابت کرنا کہ اہلبیت سے بڑا ظلم ہوا اور خود کو اہلبیت کے محبتی ثابت کرتے ہیں۔
2۔ امام بخاری و مسلم نے احادیث اکٹھی کی ہیں لیکن علماء اہلسنت سب احادیث کو اکٹھی کر کے قانون سمجھائیں گے ورنہ امام بخاری و امام مسلم کی کتابوں سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے مکمل نماز کیسے ادا کی۔ اسلئے احادیث کی تشریح علماء اہلسنت کریں گے۔
3۔ بخاری حدیث نمبر 4240 کے اندرامام زہری کا قول ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ  کی وفات کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ دی گئ بلکہ راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا۔ یہ امام زہری کی ذاتی رائے ہے ورنہ  امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے بھی یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا۔ لہذا زہری کا اضافہ بغیر دلیل و سند کے ہے اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا۔ علماء کا اجماع ہے کہ بخاری و مسلم کی احادیث صحیح ہیں مگر علماء کا یہ بھی اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں۔( نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)
4۔ سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا ابوبکر عمر عثمان زبیر عبدالرحمن(وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا۔(تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ 1/176، سمط النجوم1/536)
5۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھارات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر عثمان طلحۃ زیر سعیدرضی اللہ عنھم اور دیگر کئ صحابہ جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا (الكامل في ضعفاء الرجال5/422,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر 2492)
.
6۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381)
7۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں۔(حلیۃ الاولیاء 4/96,)
8۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں (ميزان الاعتدال2/488)
9۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھاکا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(الطبقات الكبرى 8/24)
10۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بنت رسول سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (الطبقات الكبرى8/24)
11۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (البدایہ و النہایۃ1/98، اتحاف الخیرۃ2/460، حلیۃ الاولیاء4/96، کنزالعمال15/718)
12۔ بےشک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دفنایا۔ (سنن کبری بیھقی روایت نمبر6896)
فیصلہ: مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ یا اکثر ضعیف ہیں مگر تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق “ وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن ترجمہ: تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے۔ (شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی ناراضگی
1۔ اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا…(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری22/233 وغیرہ کتب)
2۔ بالفرض اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں منا لیا تھا، راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں (ترضاھا حتی رضیت) سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنھا  بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو (غلط فھمیاں دور فرما کر)مناتےرہےحتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں(سنن کبری12735 عمدۃالقاری15/20، السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)
3۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا  کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے۔
سیدہ فاطمہ کی وصیت: میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اورعلی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)
4۔ یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، حضرت علی و عباس رضی اللہ عنھما، ازواج مطہرات، اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم ﷺ  کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا….سچ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نےخود بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک ﷺ نے  اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفع پیداوار ملتی،  اسکو ان پر خرچ کرتے تھے۔ 
اسی طرح رسول کریم ﷺ  کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ فدک وغیرہ رسول کریم ﷺ کےچھوڑےہوئےصدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پراور کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے ۔ حضرت عمر و علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم کا رہا تھا۔ (دیکھیے تاریخ الخلفاء ص305، ابوداود روایت نمبر2970,2972، سنن کبری للبیھی روایت نمبر12724
 بخاری روایت نمبر2776،3712،)
5۔ انبیاء کرام علیھم السلام کی میراث درھم و دینار(کوئی مالی میراث)نہیں،انکی میراث تو فقط علم ہے۔ (شیعہ کتاب الکافی1/34)
غلط فہمی: یہ سب حوالہ جات مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے علماء بیان کرتے اور کتابوں میں لکھتے ہیں۔ بے بنیاد شیعہ مذہب صرف اپنی فقہ جعفر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں کر سکتا۔ ان کے نزدیک تمام صحابہ نعوذ باللہ کافر و مرتد ہو گئے تھے تو روایات ان تک کس نے پہنچائیں اور اسلئے ان کا دین حضور ﷺ سے متصل نہیں۔
قانون:  اہلسنت مسلمان نے تو رافضی ہیں اور نہ ہی خارجی ہیں بلکہ اہلسنت وہی ہیں جو حضورﷺ، صحابہ کرام، چار ائمہ کرام، تمام محدثین سے ہوتے ہوئے سلطنت عثمانیہ میں 625سالہ دور میں تقلیدپر چار مصلے  خانہ کعبہ میں، مشاجرات صحابہ پر کف لسان، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی رسول، حضرت چچا ابو طالب کے ایمان پر خاموشی، امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے نمبر پر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھی وہ امام ہیں۔شریعت و طریقت پر قانون بنائے۔سعودی عرب کے وہابی علماء نے ان کو بدعتی و مشرک کہا۔ ہمیں دیوبندیت اور بریلویت نہیں چاہئے بلکہ اہلسنت کی پہچان اور عقائد اہلسنت کا علم ہونا چاہئے۔
اہلحدیث جماعت 150 سال پہلے وجود میں آئی۔ اس جماعت کی گمراہی یہ ہے کہ تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم صحیح احادیث کے مطابق حضور  کی طرح نماز ادا کرتے ہیں حالانکہ حضور نے ایک طرح سے نماز ادا نہیں کی، چاروں خلفاء، چاروں ائمہ کرام، سب محدثین  نے ایک جیسی نماز ادا نہیں کی۔ اہلحدیث جماعت جس کے کہنے پر تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور جس نے ان کے استادوں کو محمدی نماز سکھائی اس کے مقلد ہیں مگر نام اسلئے نہیں بتائیں گے کہ خود بدعتی و مشرک ہو جائیں گے، اگر نہیں بتاتے تو جھوٹے ہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general