27 رجب اور معراج شریف
میرے بیٹے نے سوال کیا کہ ابو جان کیا معراج شریف عبادت کی رات ہےتو میں نے جواب دیا کہ بیٹا ہر رات عبادت کی رات ہے مگر ان احادیث کو غور سے پڑھو، اس میں یہ نہیں لکھا کہ مجھے معراج ہوئی اسلئے 27 کی رات عبادت کرو اور دن کو روزہ رکھو بلکہ لکھا ہے کہ مجھے پیغمبری ملی، اسلئے عبادت کرو۔
1۔ سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھے اللہ تعالٰی اُس کے لئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام محمد عربی ﷺ کے لئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے۔ (تنزیہ الشریعہ ج 2 ص 1061 مطبوعہ مکتبۃ القاہرہ مصر)
2۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : رجب میں ایک دن اور ایک رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام (عبادت) کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رجب کی ستائیسویں تاریخ ہے اور اسی دن محمد ﷺ کو اللہ کریم نے مبعوث فرمایا۔“ (شعب الایمان ج 3 ص 374 رقم الحدیث 3811)
3۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا، “ستائیس رجب کو مجھے نبوت عطا ہوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دُعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو۔“ (فتاوٰی رضویہ ج 4 ص 285 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
عبادت: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔ جو اس ماہ میں بارہ رکعت پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات اور آخر میں سلام پھیرنے کے بعد سو بار سبحان اللہ والحمدللہ ولاالٰہ الااللہ واللہ اکبر، سو بار استغفار اور سو بار درود پاک پڑھے اور اپنی دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالٰی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کیلئے ہو۔(شعب الایمان ج 3 ص 374 رقم الحدیث 3812 )
سوال: بیٹے نے سوال کیا کہ ابوجان لکھا تو 27 رجب ہے تو کیا معراج شریف 27 رجب کو نہیں ہوئی؟ میں نے جواب دیا کہ واقعہ معراج کے دن، تاریخ، مہینے اور سال میں اختلاف مگر جمہور علماء کا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ 27 رجب المرجب کوجسم اور روح کے ساتھ گئے اور اپنی آنکھوں سے اللہ کریم کا دیدار کیا۔ اسلئے مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کا سفر قرآن میں ہے اور انکاری کافر ہے، سدرۃ المنتہی تک جانا احادیث سے ثابت اسلئے انکاری گمراہ ہے اور اجماع امت ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ کریم کا دیدار کیا۔
نیت: البتہ جب عبادت کرنی ہے تو شکرانے کے نفل اس نیت سے پڑھنے ہیں جو حضور ﷺ نے فرمایا۔
غلط فہمی: میں نے کہا بیٹا اگر کوئی کہے کہ معراج شریف کی رات عبادت کی رات نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس رات عبادت کا حُکم نہیں دیا تو اُس نے ٹھیک کہا مگر اس میں اس نے انکار نہیں کیا کہ حضور ﷺ کو 27 رجب کو معراج نہیں ہوئی۔
عبادت: ہر مسلمان عبادت کرے، معراج کا قصہ 27 رجب کو سُنے مگر دیوبندی علماء اگر کہتے ہیں کہ یہ عبادت ضروری یا سنت موکدہ نہیں تو وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں، اسلئے ان کی مساجد اگر بند بھی ہوں تو کوئی گناہ نہیں۔
قانون: اہلسنت کا قانون ہے کہ "اصولِ حدیث کا یہ اصول ہے کہ اگر ضعیف حدیث متعدد طرق سے مروی ہو،تو وہ قوی ہوکر حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ بالفرض اس پر صرف ضعیف روایات ہی ہوتیں تو بھی روزے رکھنے کی ممانعت کا قول کرنا درست نہیں کہ تمام ائمہ حدیث کا اجماع ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث بھی معتبر ہوتی ہیں۔
اصول: اگر اہلحدیث حضرات اُس مجتہد کا نام بتا دیں جس نے یہ اصول اپنی مقلد عوام کو دیا کہ ہم صرف صحیح احادیث پر عمل کریں گے اور ضعیف احادیث کے خلاف محاذ بنائیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ یہ قانون رسول اللہ، خلفاء کرام، امام بخاری میں سے کسی نے نہیں بنایا۔
فرائض: یاد رکھیں کہ جو اپنی نمازیں اور روزے قضا رکھتے ہیں، ان کو چاہئے کہ پہلے اپنی فرض نمازیں اور روزے پورے کریں پھر نفل نمازیں اور روزے رکھیں۔ اگر فرائض پورے کرنے والے نفلی عبادت نہ بھی کریں تو کوئی گناہ نہیں، اگر کریں تو اجر ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی الفاظ ہٹا کر اہلسنت کی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے اگر قیامت کا ڈر ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟