ماہ رجب
سورہ توبہ 36: "جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا، اسی دن سے اللہ کے نزدیک اسی کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔” اس آیت کی تشریح حدیث کے بغیر نہیں ہو گی اور یہ بات منکرین احادیث کے لئے عذاب ہے۔
صحیح بخاری 4406: "سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔”
سورہ بقرہ 194: ’’حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے بدلے میں اور حرمتیں ایک دوسرے کابدلہ ہوتی ہیں۔ پس جوتم پرزیادتی کرے، تم اس پر زیادتی کرو اتنا ہی جتناتم پر زیادتی کی، اوراللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔‘‘
تشریح: مہینوں میں حرمت کا حکم دو طرح سے ہے، ایک تو اس میں لڑائی کرنا منع اور دوسرا ان متبرک مہینوں میں عبادت کرکے رب کو راضی کریں۔ پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہو گیا یعنی لڑائی کرنا جائز ہے مگراس مہینے میں عبادت کا عمل اب بھی جاری ہے۔
غزوات: اسلئے رجب 2 ھ کو سریہ عبداللہ بن حجش اسدی ہوا۔ (طبقات ابن سعد: 10،2) 6 ھ کو سریہ سیدنا زید بن حارثہ (وادی القریٰ کی جانب ) ہوا (طبقات ابن سعد:89،2) رجب 8 ھ سریہ الخبط زیرقیادت سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح ہوا۔ (طبقات ابن سعد :132،2) 9 ھ کو غزوہ تبوک ہوا۔ (طبقات ابن سعد:165،2)
حدیث:جامع صغیر حدیث 3094 : رجب اللہ کا مہینہ، شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ امام بیہقی نے شعب الایمان میں سیدہ عائشہ سے روایت کی ہے "بے شک رجب اللہ کا مہینہ ہے، اسے اصم بھی کہتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں جب آتا تو لوگ اپنے اسلحہ سے کام لینا چھوڑ دیتے اور انہیں اٹھا رکھتے تھے۔ پھر مسافر لوگ امن سے رہتے اور راستہ پر امن ہو جاتا۔ یہاں تک کہ یہ مہینہ گذر جاتا۔
عبادت: اہلحدیث حضرات کے نزدیک تو رجب میں عبادت کی جتنی احادیث آتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں، اسلئے وہ ان پر عمل کرتے نہیں حالانکہ نفلی عبادت یعنی درود، قرآن پڑھنا کسی وقت منع نہیں۔ نفل نماز مکروہ اوقات کے سوا کسی وقت منع نہیں۔ نفلی روزہ عیدین اور ایام تشریق کے پانچ دن چھوڑ کر کسی بھی دن منع نہیں۔
اصول: دیوبندی و بریلوی تعلیم ایک ہی ہے، اسلئے اگر کوئی رجب کے مہینے میں عبادت نہیں کرتا تو کوئی گناہ نہیں مگر اس کو لازم نہ سمجھے، البتہ اہلحدیث حضرات یہ اصول کبھی نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے کہا تھا کہ اب ہم صرف صحیح احادیث پر عمل کریں گے اور ضعیف احادیث کے منکر ہو جائیں گے۔
دین دُشمنی: اہلحدیث یہ اصول نہیں بتا سکتے کیونکہ اگر بتاتے ہیں تو اُس مجتہد کے مقلد ہو جائیں گے جیسے اہلسنت حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ہیں اور اگر نہیں بتاتے تو پھر رافضیوں کی طرح تقیہ بازی کرتے ہیں۔ (جاری ہے۔۔۔۔)
مشن: ہمارا جذبہ و جنون اپنے پانچ فٹ پر اسلام قائم کرنا۔ اپنے گھر سے تبلیغ شروع کر کے اپنے علاقے سے ہوتے ہوئے پورے پاکستان میں صرف بات بتانی اور پھیلانی ہے تاکہ ہر عقلمند تحقیق کر کے ہمیں بھی سمجھا دے یا پھر دوسروں کو سمجھانا شروع کر دے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے مگر پہلے دیوبندی و بریلوی الفاظ کی پہچان ہٹا کر۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟