Imam Ya Khalifa (ا ما م یا خلیفہ)

ا ما م یا خلیفہ

80ھ میں پیدا ہو کر15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ھ کو68 سال کی عمر میں وصال کر کے جَنَّتُ الْبَقِیْع میں آرام فرمانے والے، حضرت جعفر رحمتہ اللہ علیہ کے والد حضرت محمد باقر اور والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیں۔ اسلئے والد کی جانب سے آپ ”حسینی سَیِّد“ اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ ہیں۔ سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو”صادِق‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔(سیر اعلام النبلا، 6/438) 

امام یا خلیفہ: آپ کے ساتھ امام کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ صحیح مسلم 4708، صحیح بخاری 7222، ترمذی 2223 میں حضور ﷺ کی احادیث میں بارہ خلفاء کا لفظ ہے لیکن لفظ امام نہیں ہے۔ خلیفہ وہی ہوتا ہے جو اپنی حکومت میں رعایا کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ سیدنا علی اور سیدنا حسن صرف خلفاء میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اہلبیت میں سے خلیفہ نہیں ہوا۔

فرق: اہلتشیع کے نزدیک بارہ امام جن کو خود ہی چُن کر اہلتشیع حضرات نے بنایا ورنہ مسلمانوں نے ان کو خلیفہ نہیں بنایا، اہلتشیع کے نزدیک امام اور نبی میں کوئی فرق نہیں۔ نبوت کی تعلیم وہی ہے جو امام دے ورنہ صحابہ کرام کی روایات کو اہلتشیع نہیں مانتے۔

انہونی: کیا آپ مان سکتے ہیں کہ حضور ﷺ نے 23 سالہ زندگی میں سوائے سیدنا علی کے کسی کو مسلمان نہیں کیا؟ سیدنا علی نے بھی تینوں خلفاء کی بیعت نہیں کی؟ سیدنا علی کو گورنمنٹ نے کسی وزارت کا عہدہ نہیں دیا ہوا تھا اور نہ ہی ان کا کوئی روزگار تھا ورنہ کوئی اہلتشیع بتا سکتا ہے کہ آپ کو فدک یعنی مال فئے سے حصہ ملتا تھا یا نہیں؟

سوال: کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک نہیں تھا؟ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، معاشرتی و معاشی مسائل کی احادیث ایک نہیں تھیں؟ کیا سیدنا علی نے تینوں خلفاء کے دور میں ان کی امامت میں نماز ادا کی یا نہیں؟

سچ: رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے راوی صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین سب اہلسنت ہیں مگر اہلتیشع حضرات کا کہنا ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کا دین سیدنا علی، حسن و حسین، زین العابدین، باقر، جعفر رضی اللہ عنھم سے لیا ہے۔ تحقیق کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ ان کتابوں کو فقہ جعفریہ کی بنیادی کتابیں کہا جاتا ہے مگر یہ کتابیں منگھڑت ہیں:

(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے تقریباً 180برس بعد اور حضور سے 320 سال بعد
(2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230سال بعد
(3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً310برس بعد

2۔ اصول کافی نمبر2میں لکھا ہے ”پھر امام باقر آئے ان سے پہلے تو شیعہ حج کے مناسک اور حلال و حرام سے بھی واقف نہ تھے۔ امام باقر نے شیعہ کے لئے حج کے احکام بیان کئے اور حلال و حرام میں تمیز کا دروازہ کھولا۔ یہاں تک کے دوسرے لوگ ان مسائل میں شیعہ کے محتاج ہونے لگے جب کہ اس سے پہلے شیعہ ان مسائل میں دوسروں کے محتاج تھے۔“ اس اعتراف سے ظاہر ہے کہ امام باقر سے پہلے شیعہ حلال و حرام سے واقف ہی نہ تھے۔ پہلی صدی ہجری میں فقہ جعفریہ کا وجود ہی نہیں تھا۔

3۔ حالانکہ حضورﷺ نے حلال و حرام کی نشاندہی اپنے دور میں فرما دی تھی لیکن اہلتشیع حضرات کے نزدیک یہ قرآن معتبر نہیں ہے اور ان کے نزدیک تین صحابہ کے علاوہ نعوذ باللہ سب مرتد ہو گئے۔ امام باقر رضی اللہ عنہ کے بعد امام جعفر رضی اللہ عنہ کا دور ہے مگر امام جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کوئی فقہ تدوین کی ہی نہیں ہے۔ اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملتا۔

فقہ جعفریہ کے ائمہ کرام

1۔ مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی ”حق الیقین“ کتاب صفحہ 371 پر لکھتے ہیں ”اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز و عراق، خراسان و فارس وغیرہ سے فضلاء کی ایک جماعت کثیر حضرت باقر اور حضرت صادق نیز تمام ائمہ اصحاب سے تھی مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار کے اور ان کے علاوہ اور کثیر جماعت بھی تھی جن کا شمار نہیں کر سکتے“۔ اب جن کے نام دئے گئے ہیں ان کے بارے میں شیعہ علماء نے کیا کہا:

زرارہ: ان صاحب کو امام جعفر کے ہم پایہ تصور کیا جاتا ہے ”قال اصحاب زرارہ من ادرک زرارہ بن اعین فقد ادرک ابا عبداللہ (رجال کشی صفحہ 95) لیکن دوسری جگہ شیعہ کتاب حق الیقین اردو صفحہ 722 پر لکھا جاتا ہے کہ ”یہ حکم ایسی جماعت کے حق میں ہے جن کی ضلالت پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ زرارہ اور ابوبصیر یعنی زرارہ اور ابو بصیر بالاجماع گمراہ ہیں“۔ اب سوال یہ ہے کہ جو خود گمراہ ہے وہ دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا۔ اسی طرح رجال کشی صفحہ 107 پر لکھا ہے ہے کہ امام جعفر نے فرمایا کہ ”زرارہ تو یہود و نصاری اور تثلیث کے قائلین سے بھی برا ہے“۔ امام جعفر نے تین مرتبہ فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو زرارہ پر (رجال کشی صفحہ 100)۔ اسی کتاب رجال کشی کے صفحہ 106 پر ہے کہ زرارہ نے کہا ”جب میں باہر نکلا تو میں نے امام کی داڑھی میں پاد مارا اور میں نے کہا کہ امام کبھی نجات نہیں پائے گا“۔ امام جعفر نے لعنت کی زرارہ پر اور زرارہ داڑھی میں پاد مار رہا ہے، کیا یہ دین سکھائیں گے؟

ابو بصیر: فقہ جعفریہ کے مسائل میں یہ شخص بھی سرداروں میں شامل ہے، البتہ امام جعفر رضی اللہ عنہ کو رجال کشی صفحہ 116 پر لالچی کہہ رہا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ ابو بصیر امام جعفر کے دروازے پر بیٹھا تھا اندر جانے کی اجات چاہتا تھا مگر امام اجازت نہیں دے رہے تھے ابو بصیر کہنے لگا اگر میرے پاس کوئی تھال ہوتا تو اجازت مل جاتی پھر کتا آیا اور اس کے منہ میں پیشاب کر دیا“۔ کیسے عالم ہے کہ امام کے پاس جانے کی اجازت بھی نہیں ملتی اور کتا منہ میں پیشاب کر دیتا ہے۔

محمد بن مسلم: اس کا دعوی ہے کہ امام باقر سے30 ہزار حدیثیں سنیں اور 16 ہزار احادیث کی تعلیم پائی۔ (رجال کشی صفحہ 109)۔ البتہ رجال کشی صفحہ 113 پر مفصل کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے سنا فرماتے تھے کہ محمد بن مسلم پر اللہ تعالی کی لعنت ہو یہ کہتا ہے کہ جب تک کوئی چیز وجود میں نہ آئے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔“ کیا علامہ مجلسی نے جن تین اصحاب کو سر فہرست رکھا، کیا فقہ جعفریہ ان جیسوں کی روایات کی مرہون منت ہے۔

جابر بن یزید: رجال کشی صفحہ 128 پر لکھا ہے کہ میں نے امام باقر سے ستر ہزار حدیث تعلیم پائی۔ اب رجال کشی صفحہ 126 پر زرارہ کہتا ہے میں نے امام جعفر سے جابر کی احادیث کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب سے صرف ایک مرتبہ ملا اور میرے پاس تو کبھی آیا ہی نہیں۔“ 70,000 احادیث کی تعلیم کیسے پائی؟

اصول کافی صفحہ 496 میں امام جعفر کا بیان ہے ”اے ابو بصیر اگر تم میں سے (جو شیعہ ہو) تین مومن مجھے مل جاتے جو میری حدیث ظاہر نہ کرتے تو میں ان سے اپنی حدیثیں نہ چھپاتا“۔ اس کا مطلب ہو ا کہ کافی، استبصار، تہذیب اور من لا یحضرہ الفقیہ کی صورت میں ہزاروں احادیث جو امام جعفر سے منسوب ہیں وہ ان سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ رجال کشی صفحہ 160 پر امام جعفر کا قول ہے کہ ”میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں پایا جو میری وصیت قبول کرتا اور میری اطاعت کرتا سوائے عبداللہ بن یعفور کے“

نتیجہ: اس سے معلوم ہوا کہ 460ھ تک فقہ جعفریہ کی کوئی کتاب نہیں تھی اور جو یہ چار کتب تھیں وہ بھی اللہ معاف کرے جھوٹی ہوں گی۔ اہلتشیع حضرات کی کتابیں جن کو عالم کہہ رہی ہیں، ان کو خود ہی گمراہ بھی کہہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ فقہ جعفریہ کے مسائل بتائے نہیں چھپائے جاتے تھے جیسے اصول کافی نمبر340 پر لکھا ہے کہ امام ابو باقر نے فرمایا ”اللہ تعالی نے ولایت کا راز جبرائیل کو راز میں بتایا۔ جبرائیل نے یہ راز محمد ﷺ کو مخفی طور پر بتایا۔ حضورﷺ نے یہ راز حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو کان میں بتایا پھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جسے چاہا بتایا مگر تم لوگ اسے ظاہر کرتے ہو۔

آٹھویں صدی ہجری میں فقہ جعفریہ کہ پہلی کتاب ”لمغہ دمشقیہ“ جو محمد جمال الدین مکی نے لکھی مگر اسے واجب القتل قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اسے شہید اول کا لقب بھی دیا۔ فقہ جعفریہ لکھنے والوں کے کام زیر زمین ہی ہوتے رہے ہیں۔ اس کے بعد علامہ زین الدین نے لمغہ دمشقیہ کی شرح ”روضتہ البھیہ“ کے نام سے لکھی مگر اس کے بھی قتل کر دیا گیا۔

نتیجہ: علامہ مجلسی نے اپنی کتاب ”حق الیقین“ میں لکھا کہ ان ائمہ نے زرارہ، محمد بن مسلم، ابو بصیرنے فقہ جعفریہ کے لئے کام کیا تو انہوں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ ان کا ائمہ کرام سے ملنا بھی محال نظر آتا ہے بلکہ یہ ائمہ کی توہین کرتے رہے ہیں۔

شاگرد: اہلتشیع حضرات جناب حضرات نعمان بن ثابت المعروف امام ابوحنیفہ، مالک بن انس، محمد بن ادریس شافعی، احمد بن محمد حنبل کو حضرت جعفر صادق کا شاگرد ثابت کرتے ہیں حالانکہ چاروں ائمہ کرام اہلسنت کی احادیث کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں اور ان کی فقہ کے اصول علیحدہ ہیں۔

نتیجہ: صحابہ کرام اور اہلبیت سب مسلمانوں کے سردار ہیں۔ ان میں تفریق کرنے والے اور ان کو آپس میں لڑوانے والے اور لڑائی سے فائدہ اُٹھا کر ایک نیا دین گھڑنے والے غیر مسلم ہیں۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اہلسنت ایک قانون پر اکٹھے ہوں۔ ہمارے نزدیک اہلسنت عوام کو یہ سمجھانا ہو گا:

اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔

وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے مگر پہلے دیوبندی و بریلوی الفاظ کی پہچان ہٹا کر۔

غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general