جذبہ و جنون
جذبہ اور جنون اللہ کریم کی عطا ہے، اس کو عشق، لگاو اور محبت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے مگر یہ جذبہ اور جنون اگر دنیا کے لئے ہو، پیسہ کمانے کے لئے ہو، حلال و حرام میں تمیز کئے بغیر ہو تو جذبہ نہیں بلکہ مسلمان پر شیطان کا قبضہ ہے۔
جذبہ اور جنون پیدا ہوتا ہے جب ہم قرآن پاک میں انبیاء کرام، صدیقین، شہدا، مجا ہد ین اور احادیث میں سے رسول اللہ کی جن گی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حکمت عملی کا مطالعہ کریں کہ کسطرح آپ ﷺ نے مسائل پر قابو پایا اور کس کے ساتھ کسطرح کا سلوک کیا۔ اس جذبے کو اب سلیبس میں تبدیلی اور میڈیا میں اپنی مرضی کا دین بیان کرکے سرد کیا جاتا ہے۔
جذبہ اور جنون فضائل کی باتیں سُن کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ مسائل کا حل نکالنے سے پیدا ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی عوام کو امیر نہیں بنایا تھا بلکہ امیری غریبی سے بے نیاز کر دیا تھا۔ وہ جذبہ دیا کہ ہر ایک بیمار، غریب، بدصورت کی توجہ اللہ کریم کی طرف موڑ دی، اسلئے ان میں وہ جذبہ تھا کہ گھر کا گھر دین کو پھیلانے پر لگا دیتے۔
ایک اللہ والے نے اپنے ایک مرید سے کہا کہ بیٹا میں تجھے وقت کا "ولی” بنا سکتا ہوں بس تم تھوڑی سی محنت کر لو، اُس نے کہا کہ جناب میں اس قابل نہیں ہوں تو پیرو مرشد نے فرمایا کہ قابل بننا لازمی نہیں بلکہ قبول ہونا لازم ہے۔ قابل اللہ والے بناتے ہیں اور دعا کر کے رب کریم سے قبول بھی کرواتے ہیں۔ تم نے تو مجھے ٹال کر اپنی دینی حالت کو بہتر بنانے پر لات مار دی۔
ایک وہ ہوتے ہیں جو ایک سو روپیہ بھی ہو تو اس میں سے پانچ اللہ کریم کی راہ پر لگاتے ہیں کیونکہ ان کو جذبہ و جنون ہوتا ہے۔ ایک وہ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک کروڑ کا بانڈ نکلے تو ایک لاکھ اللہ کریم کی راہ پر لگاوں گا حالانکہ اللہ کریم ہی دینے والا ہے اور وہ اپنے دین کا کام کسی سے بھی لے سکتا ہے، لازم نہیں کہ وہ پیسے والا ہو۔
جذبہ و جنون وہ نہیں ہوتا جس کو موت آ جائے بلکہ جذبہ و جنون اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر کام کرتا ہے۔ جذبہ و جنون اس گیند کی طرح نہیں ہوتا جس کو دیوار پر جتنی تیزی سے مارا جائے، اتنی ہی تیزی سے واپس آ جاتی ہے بلکہ جذبہ وہ جنون والے کو سمجھایا جاتا ہے کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں، اسلئے نیکی پر چلنے سے پہلے اپنے گناہوں کو بیان نہیں کرنا کیونکہ جب اللہ کریم قبول کرتا ہے تو اس کے پچھلے سارے گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔
جذبہ و جنون وہ ہوتا ہے جس میں انسان اپنی خامیاں دور کرتا ہے اور اپنے اندر خوبیاں پیدا کرتا ہے۔ جذبہ و جنون وہ ہوتا ہے جس میں مسلمان کے ارادے کبھی کمزور نہیں پڑتے۔ جذبہ و جنون وہ ہوتا ہے جس میں مستقل مزاجی سے اپنے مشن کو جاری رکھا جاتا ہے۔ جذبہ و جنون وہ ہوتا ہے جس میں روٹی سے زیادہ اپنے ایمان کی فکر ہوتی ہے۔ جذبہ و جنون وہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پراسقدر شدید پیار آ جاتا ہے کہ ان کو سوچوں میں رکھے بغیر اور ان کو یاد کئے بغیر گذارہ نہیں ہوتا۔
اگر انبیاء کرام اور صدیقین کے واقعات سُن کر بھی تیرے اندر تبدیلی نہ آئے تو اپنے اندر کو تبدیل کرنے کی ٹھان لی کیونکہ تیرا اپنا وجود ہی تیرے لئے خطرہ ہے۔ اپنے وجود سے محبت کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ زندگی کو انجوائے کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
مشن: ہمارا جذبہ و جنون اپنے پانچ فٹ پر اسلام قائم کرنا۔ اپنے گھر سے تبلیغ شروع کر کے اپنے علاقے سے ہوتے ہوئے پورے پاکستان میں صرف بات بتانی اور پھیلانی ہے تاکہ ہر عقلمند تحقیق کر کے ہمیں بھی سمجھا دے یا پھر دوسروں کو سمجھانا شروع کر دے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے مگر پہلے دیوبندی و بریلوی الفاظ کی پہچان ہٹا کر۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟