نبی اور رسول
1۔ انبیاء کرام کے واقعات اسلئے پڑھنے چاہئیں کہ اس میں عقلمندوں کے لئے یقینا نصیحت اور عبرت ہے (یوسف 111)۔ اس لئے ان واقعات کو پڑھنے سے جہاں ایمان تازہ ہوتا ہے وہاں حکمت ودانائی سے اپنی زندگی کی رکاوٹیں دور کرنے کا طریقہ بھی آ جاتا ہے۔
فرق: قرآن و احادیث میں حضور ﷺ کو نبی اور رسول کے دونوں الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔ البتہ رسول اسے کہتے ہیں جسے نئی شریعت اور نئی کتاب دے کر بھیجا گیا ہو۔ نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالی نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔ ہر نبی رسول نہیں جیسے حضرات یوسف و یونس علیھما السلام نبی ہیں مگر رسول نہیں، البتہ حضرات موسی و عیسی علیھما السلام اور حضورﷺ نبی بھی ہیں اور رسول بھی۔( باقی کمنٹ سیکشن میں)
سلسلہ: نبیوں اور رسولوں کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ اسلام سے شروع ہوا اور حضور ﷺ رسول ہونے کے ساتھ آخری نبی ہیں، اسلئے”ختم نبوت“ کے منصب پر فائز ہیں اور ان کے بعد کسی کا دعوی کرنا خود کو جھوٹا کہنا ہے۔
تعداد: حضرت آدم علیہ اسلام سے لے کر حضورﷺ تک اللہ کریم بہتر جانتا ہے کہ کتنے نبی و رسول آئے کیونکہ اللہ کریم فرمایا: آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ ﷺ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے بیان نہیں کئے (النساء 164)۔
البتہ صحیح ابن حبان کی ضعیف حدیث میں انبیاء کرام کی تعداد صحابہ کرام کی تعداد کی طرح 1,24,000 بیان کی گئی ہے۔ البتہ عقیدہ یہ ہے کہ یا اللہ تیرے ہر نبی پر ایمان لائے جو ہمارے علم میں ہیں یا جو ہمارے علم میں نہیں ہیں۔
ذکر انبیاء کرام: قرآن کریم میں جن انبیاء کرام علیھم السلام کا ذکر آیا اور کتنی مرتبہ آیا ان کے نام یہ ہیں (1) حضرت آدم کا تذکرہ 25 بار (2) حضرت ادریس 2 بار (3) حضرت نوح 43 بار (4) حضرت ہود 7 بار (5) حضرت صالح 9 بار (6) حضرت ابراہیم 69 بار (7) حضرت لوط 27 بار (۸) حضرت اسماعیل 12 بار (9) حضرت اسحاق 17 بار (10) حضرت یعقوب 16 بار (11) حضرت یوسف 27 بار (12) حضرت ایوب 4 بار (13) حضرت شعیب 11 بار (14) حضرت موسی 136 بار (15) حضرت ہارون 20 بار (16) حضرت یونس 4 بار (17) حضرت داؤد 16 بار (18) حضرت سلیمان 17 بار (19) حضرت الیاس 3 بار (20) حضرت الیسع 2 بار (21) حضرت زکریا 7 بار (22) حضرت یحیی 5 بار (23) حضرت عیسی 25 بار (24) حضرت ذوالکفل کے نبی ہونے میں اختلاف ہے مگر 2 بار (25) حضرت محمد ﷺ کا تذکرہ 4 بار اور احمد کے نام سے ایک بار اور بے شمار مرتبہ براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔
جن انبیاء کرام کا نام احادیث میں آیا (1) حضرت شیث و(2) حضرت یوشع علیھما السلام اور (3) حضرت حضرعلیہ السلام کے نبی ہونے میں اختلاف ہے۔
شہر: حضرات آدم، ہود، صالح، اسماعیل شعیب علیھم السلام اور حضورﷺ کا تعلق جزیرہ عرب سے تھا۔حضرات ادریس، نوح، ابراہیم، یونس علیھم السلام کا تعلق عراق سے تھا۔ حضرات لوط، اسحاق، یعقوب، ایوب، ذوالکفل، داود، سلیمان، الیاس، الیسع، زکریا، یحیی اور عیسی علیھم السلام کا تعلق شام اور فلسطین سے تھا۔ حضرات یوسف، موسی اور ہارون علیھم السلام کا تعلق مصر سے تھا۔
نسل: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت اسماعیل اور اسحاق علیھما السلام۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے تمام بعد والے نبی پیدا ہوئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے حضور ﷺ پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ اسلام کا لقب ”اسرائیل“ تھا جس کا مطلب ہے اللہ کا بندہ، اسلئے ان کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔
سورتیں: قرآن کریم میں حضرت یونس، ہود، یوسف، ابراہیم، محمد ﷺ، نوح علیھم السلام کے نام پر سورتیں موجود ہیں۔
قوم: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو قوم نوح، حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم لوط کہا جاتا ہے اور حضرت موسی، ہارون، داؤد، سلیمان، زکریا، یحیی اور عیسی علیھم السلام قوم بنی اسرائیل کے مختلف قبائل کی طرف اصلاح کے لئے بھیجے گئے۔
مزارات: اس وقت حضرت نوح کا مقبرہ آذر بائیجان، حضرت ہارون کا مقبرہ اردن اورحضرت ذکریا علیہ اسلام کا مقبرہ شام میں موجود ہے۔
انبیاء کی فضیلت: اہلسنت عقیدے کے مطابق اللہ کریم کی وحدانیت کے بعد انبیاء کرام کا درجہ ہے۔ اسلئے انبیاء کرام ”رسول فرشتوں” (حضرت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل یا عزرائیل علیھم السلام) سے بھی افضل ہیں۔ صحابہ کرام یا اہلبیت میں سے کوئی بھی نبیوں سے افضل نہیں، اگر کوئی مانے تو مسلمان نہیں۔ انبیاء کرام کی توہین کرنا کُفر ہے۔
لغزشیں: اللہ کریم انبیاء کرام کی آزمائش کرتا ہے اور اگر اللہ کریم نے قرآن پاک میں انبیاء کرام کی لغزشیں بیان فرمائیں تو وہ اللہ کریم اور انبیاء کرام کے درمیان ایک معاملہ ہے، ان کا ذکر تلاوتِ قرآن اور روایت حدیث کے سوا بیان کرنا حرام اور سخت حرام ہے۔
کا فر: اسی طرح کسی مسلمان کو کافر، بدعتی و مُشرک نہیں کہنا بلکہ جو غلطی ہے وہ بتائی جائے تاکہ وہ اصلاح کرے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے مگر پہلے دیوبندی و بریلوی الفاظ کی پہچان ہٹا کر۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟