Sayyidina Khizar A.S (سیدنا خضر علیہ السلام)

سیدنا خضر علیہ السلام


1۔ سورہ کہف 60 سے 83 تک کی آیات میں سیدنا خضر علیہ السلام کا تذکرہ ہے جن کو اللہ کریم نے اپنے مقرب بندوں میں سے ایک بندہ فرمایا جس کو رحمت اور علم عطا فرمایا گیا مگر اللہ کریم نے ان کو قرآن پاک میں کہیں بھی واضح طور پر نبی نہیں فرمایا۔

2۔ صحیح بخاری 4726، 4725، 3400 اور صحیح مسلم 6168: سیدنا موسی علیہ اسلام سے پوچھا گیا کہ کہ آپ سے بڑا کوئی عالم ہے تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ جانے بلکہ ارشاد فرمایا: نہیں۔ اس پر اللہ کریم نے سیدنا موسی کو فرمایا کہ ایک اور اللہ کا بندہ ہے، جس پر آپ علیہ اسلام یوشع ابن نون کے ساتھ، مچھلی لے کر، دو دریاوں کے ملنے کی جگہ پہنچے اور سیدنا خضر سے ملاقات کر کے علم سیکھنے کی بات کی۔


نبی ہونے کے دلائل: اہلسنت و اہلحدیث جماعتوں کے نزدیک جمہور علماء یعنی کثیر علماء نے سیدنا خضر کو انبیاء کرام میں شمار فرمایا ہے۔

1: سیدنا خضر کا قول ﴿وَ مَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ﴾ اور میں نے اسے اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ (سورۃ الکہف: 82) یعنی اُن پر وحی آتی تھی۔

2: ارشادِ باری تعالیٰ کہ ہم نے اُسے (خضر کو) اپنی طرف سے رحمت اور علم عطا فرمایا تھا۔ (الکہف 65)

3: خضر علیہ السلام کا (نابالغ) بچے کو قتل کرنا اور یہ ظاہر ہے کہ الہام کی بنیاد پر قتل جائز نہیں ہے۔

4: خضر نے کہا: بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ (صحیح بخاری: 4725، صحیح مسلم: 2380)

ان تمام تفاسیر میں آپ کو نبی تسلیم کیا گیا ہے:(1) الجامع الاحکام القرآن ج : 10، ص : 391، مطبوع دار الفکر بيروت (2) البحر المحيط ج : 7، ص : 204 (3) النکت والعيون ج : 6، ص : 325، مؤسس الکتب الثقافيه بيروت (4) تدبر القرآن ج : 6، ص : 606، مطبوعه فاران فاؤنديشن لاهور (5) معارف القرآن ج : 5، ص : 612، مطبوعه اداره المعارف کراچی (6) تفسیر القرطبی، الکهف: 65 (7) التفسیر المظهری، سورة الکهف: 65

سیدنا خضر کے ولی ہونے کے دلائل:

1۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ واوحیٰ ربک الٰی النحلِ ترجمہ : اور آپ کے رب نے شہد کی مکھیوں کی طرف وہی کی۔

2۔ فرمایا: واوحینا الیٰ امِ موسیٰ ترجمہ : ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وہی کی اور ظاہر سی بات ہے کہ نہ تو شہد کی مکھیاں اور نا ہی موسیٰ علیہ السلام کی ماں نبی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وما فعلتة عن امری ترجمہ : اور میں نے یہ سب کچھ اپنی طرف سے نہیں کیا۔

مثال: وہ آیتیں جوسیدہ مریم علیھا السلام کے پاس بن موسم کے پھلوں اور سوکھے درخت کو ہلانے سے پھل گرنا حالانکہ وہ نبیہ نہیں ہیں، اسی طرح خضر علیہ السلام کے ہاتھوں کشتی کا تختہ اتھاڑنا ، لڑکے کو قتل کرنا اور دیوار کو کھڑا کرنے کے واقعات بھی ہے۔

نتیجہ: ہم جمہور علماء کے ساتھ ہیں اور سیدنا خضر علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں۔

دوسرا سوال: کیا سیدنا خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟؟

ایک زندگی کا تعلق ہے جسمانی طور پر زندہ ہونا اور ایک ہے کہ قرآن و احادیث پر ایمان لا کر بعد از وصال زندگی کا قائل ہونا جیسے حیاتی و مماتی والوں کا قول ہے۔

1۔ صحیح بخاری 4446: سیدہ عائشہ نے حضور ﷺ کے وصال کا بتایا۔ بخاری 3688 حضور ﷺ کی وفات کا اعلان سیدنا ابوبکر صدیق نے کیا اور بخاری 1241,42 عوام کو واعظ سیدنا ابوبکر نے کیا، بخاری 4454 جس واعظ کو سُن کر سیدنا عمر نے حضورﷺ کے وصال کو مانا اور بخاری 4586 حضور ﷺ نے خود اپنے اختیار سے آخرت کو پسند کیا“۔

2۔ صحیح مسلم احادیث 411 سے 424 (معراج شریف کے واقعات) میں بعد از وصال انبیاء کرام کی ”حیات“ کے متعلق یہ عقیدہ دیا کہ انبیاء قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں جیسے حضرت موسی علیہ السلام۔ انبیاء کرام (حضرت آدم، عیسی و یحیی، یوسف، ادریس، ہارون، موسی و ابراہیم، موسی علیہ السلام) آسمانوں پر بھی ہیں اور شہداء کی طرح انبیاء کرام کا جنت سے تعلق بھی ہے۔ مسلم 421 حضرت موسی اور یونس علیہ السلام کو آپ ﷺ نے حج کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ سنن ابو داود 1047زمین انبیاء کرام کے جسم کو نہیں کھا سکتی۔

3۔ صحیح مسلم 2102 کے مطالعہ سے علم ہوا کہ نماز کسوف پڑھاتے ہوئے حضور ﷺ اپنا ہاتھ جنت میں لے گئے یعنی حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ عالم دُنیا، عالم قبر، عالم حشر سے گذار کر عالم جنت میں لے گئے اور ساتھ میں آپ ﷺ نے دعوی کیا کہ اللہ کریم نے تم سے قرآن پاک میں جن چیزوں کا وعدہ کیا ہے میں نے سب دیکھ لیں۔ یہی سوال ہے کہ کیا اس عالم میں رہنے والا نبی عالم قبر، عالم برزخ، عالم حشر اور عالم جنت کو دیکھ سکتا ہے تو عالم برزخ کی حیات میں اللہ کے حُکم سے اس دُنیا میں ہاتھ نہیں لا سکتا؟

4۔ صحیح بخاری 6996 جس نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا۔ صحیح بخاری 6994 جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے واقعی مجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ صحیح بخاری 6993 جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھ لے گا“۔

5۔ عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کے وسیلے سے دُعا جائز ہے اور بغیر وسیلے سے بھی جائز ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے، یا رسول اللہ مدد کہنا بھی ایک وسیلہ ہے مگر مدد اللہ کریم ہی فرماتا ہے۔ اللہ کریم کے حُکم کے بغیر کوئی نبی، ولی، پیر، پیغمبر مدد نہیں کر سکتا۔

عقیدہ: اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کو موت آئی، آپ کو کفن و غسل دیا گیااور آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے۔ بعد از وصال بھی بہت سے مشاہدات خواب اور بیداری میں نیک لوگوں کو ہوئے ہیں۔

سیدنا خضر علیہ السلام کی زندگی کے قائل: ان احادیث کی وجہ سے جسمانی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر سیدنا خضر کی زندگی کے قائل ہیں:

1۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے سیدنا خضر سے خرقہ ولایت حاصل کیا (الفتوحات المکیہ)

2۔ حکیم ترمذی فرماتے ہیں کہ تین سال تک حضرت خضر ان کی تعلیم وتربیت ان کے گھر میں فرماتے رہے۔ (تذکرۃ الاولیاء 77: 2)

3۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی بھی سیدنا خضر سے فیوض وبرکات سمیٹتے رہے۔ (سیفۃ الاولیاء: 94)

4۔ حضرت مجدد الف ثانی بیان فرماتے ہیں: ایک دن حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی منبر پر تشریف فرما ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ وہاں سے حضرت خضر علیہ السلام کا گزر ہوا تو حضرت غوث پاک نے فرمایا: يا خضر بنی اسرائيل اسمع کلام خضر امت محمد ’’اے خضر بنی اسرائیل امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خضر کا کلام سنتے جاؤ۔ المنتخبات من المکتوبات (مکتوب 56)

5۔ بعض علمائے تصوف کا یہ خیال ہے کہ خضر ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ رجال الغیب میں ایک منصب کا نام ہے جیسے قطب، غوث یا ابدال کے مناصب ہوتے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر زمانے کا ایک خضر ہوتا ہے جو اولیاء کا نقیب ہوتا ہے۔ جب ایک نقیب کا انتقال ہوتا ہے تو دوسرا نقیب اس کی جگہ لیتا ہے، اسے خضر کہتے ہیں۔ (الاصابہ، 294: 2)

6۔ اسی طرح بعض کبار صوفیاء کا یہ موقف ہے کہ حضرت خضر بھی رجال الغیب کی طرح نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، اس لیے انہیں رئیس الابدال کہا جاتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، ص 74)

نتیجہ: محققین محدثین کے نزدیک ان کا انتقال ہو چکا ہے، جبکہ جمہور علماء اور صوفیاء کے نزدیک بعد از وصال وہ ابھی تک حیات ہیں۔

اہلحدیث حضرات کیونکہ پیری مریدی، دم درود، صوفی ازم کے قائل نہیں، اسلئے ان کے نزدیک ان کی زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ البتہ دیوبندی و بریلوی بعد از وصال بھی حیات کے قائل ہیں اور بعد از وصال انبیاء و اولیاء کی مدد کے بھی باذن اللہ قائل ہیں۔ اس دور میں رافضیت کی وجہ سے پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے سب میں دو نمبر داخل ہو چکی ہے، اسلئے ہم سمجھا رہے ہیں:

اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔

وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے مگر پہلے دیوبندی و بریلوی الفاظ کی پہچان ہٹا کر۔

غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general