حضرت لقمان
1۔ قرآن مجید میں سورہ لقمان کے نام سے ایک سورت موجود ہے حالانکہ اہلسنت علماء کرام کے نزدیک حضرت لقمان نہ تو نبی تھے اور نہ رسول تھے۔ ان کو حکیم اسلئے نہیں کہا جاتا کہ وہ حکیم تھے، جڑی بوٹیاں تلاش کرتے تھے، لوگوں کا علاج معالجہ کرتے تھے بلکہ ان کی باتیں حکمت و دانائی سے بھری ہوئی تھیں، اسلئے ان کو حکیم لقمان کہا جاتا ہے۔
2۔ سیدنا حضر علیہ السلام کے متعلق تو کثیر اہلسنت علماء کرام کا عقیدہ ہے کہ وہ نبی تھے اور حضرت لقمان کے متعلق کثیر اہلسنت علماء کرام کا عقیدہ ہے کہ وہ نبی نہیں تھے۔ عوام کو وہی ماننا چاہئے جو علماء حق نے بتایا ہے۔
3۔ البتہ سورہ لقمان پڑھکر یہ بھی علم ہوا کہ حکیم و دانا وہ شخص نہیں جس کے پاس الفاظ زیادہ ہوں جیسے واصف علی واصف، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، بابا یحیی وغیرہ بلکہ حکیم و دانا وہ شخص ہے جو اپنوں کی تربیت کر کے ان کے اندر اللہ کریم کی محبت ڈال دے۔ لفاظی اور بات ہے مگر قول و فعل میں تضاد کا دور ہو کر آخرت کے لئے فکرمند ہونا ہی ایک حکیم شخص کی علامت ہے۔
4۔ اسلئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ جو مسلمانوں کو دین کے مطابق دنیاداری سکھائے اور حکمت و دانائی سے آخرت کی فکر لگائے ایسے حکیم کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی تربیت کروائے۔ پیر بابے وہ نہیں ہوتے جو خواہشات پوری کریں بلکہ پیر بابے وہ ہوتے ہیں جو خواہشات کو دل سے نکال دیں۔
5۔ سورہ لقمان پڑھ کر یہ بھی علم ہوا کہ جو نصیحتیں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کیں، اسی طرح ہر دور میں اپنی اولاد کو ماحول، رسم و رواج، میڈیا کے اثرات، سنی سنائی باتیں اور شیطان کسطرح نفس کے اندر شر و شرارت پیدا کرتا ہے، اُس کا علم اپنی اولادوں کو دینا چاہئے۔
6۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن جیسی کتاب کسی بھی نبی پر نازل نہیں ہونی اور نہ ہی نبی کریم ﷺ نے بھی تشریف نہیں لانا۔ البتہ یہ سمجھ میں آ گیا کہ اللہ کریم اپنے بندوں کا تذکرہ فرشتوں میں ضرور کرتا ہے اور ان کو یاد رکھتا ہے جیسے فاذکرونی اذکرکم کا مفہوم سمجھایا جاتا ہے کہ ذکر اللہ کا کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اللہ کریم سے اپنا ذکر کروانا ہو تو اللہ کا ذکر کرو۔
7۔ اللہ کریم نے جیسے حضرت لقمان کا ذکر کیا تو اسی طرح حضرت اویس قرنی کا تذکرہ حضور ﷺ نے کیا جو کہ صحیح مسلم 6491 اور صحیح مسلم 6492 کے علاوہ ضعیف احادیث میں بھی موجود ہے۔ اس سے یہ سمجھ آتی ہے کہ اللہ کریم کی نظر میں آنے کے لئے لازم ہے کہ حکمت و دانائی سے اپنے اور اپنوں کو آخرت کی فکر پر لگایا جائے اور حقیقت کو ایک مشن بنا کر سب کے سامنے پیش کیا جائے۔
ایک اسلام: ایک اسلام وہی ہے جس میں صحابہ کرام اور اہلبیت سب کی روایات صحیح راوی و اسناد کے ساتھ موجود ہیں اور ان صحیح احادیث کی شرح کے اصول بھی موجود ہیں۔ دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث کی احادیث کی کتابیں ایک ہیں مگر اہلتشیع کی حضور کو چھوڑ کر امام جعفر سے احادیث لے کر کہنا کہ ہم نے اہلبیت سے لی ہیں تو یہ سب فراڈ بلکہ بہت بڑی دین دشمنی ہے۔
توڑ: مسلمان متحد ہو کر ماہ محرم میں نکاح کی محافل کریں، 9 یا 10 محرم کو قبروں پر مٹی ڈالنا بند کریں، اہلبیت کے فضائل ہر ماہ بیان کریں سوائے ماہ محرم کے تاکہ رافضیوں سے مشابہت نہ ہو۔ مزار اور پیر حضرات جو سیدنا معاویہ کو برا بھلا کہتے ہیں، عرس اب و طا لب مناتے ہیں، سیدنا علی کی بات کر کے باقی سب صحابہ کا تذکرہ نہیں کرتے، سیدنا علی کا امام سیدنا ابوبکر کو نہیں مانتے ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ البتہ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے جو کہ اہلسنت کے اصول کو سمجھے بغیر کہنا ایک بغا و ت اور ایک اسلام پر اکٹھا ہونے میں رکاوٹ ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ البتہ دیوبندی و بریلوی الفاظ ہٹا کر اہلسنت کی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے اگر قیامت کا ڈر ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟