Sayyidina Adam A.S (سیدنا آدم)

سیدنا آدم


سیدنا آدم علیہ السلام نبی، رسول، پیغمبر، ہمارے بابا ، باپ اور ہمارا خون ایک ہی ہے کیونکہ نسل سیدنا آدم علیہ السلام سے چلتی ہے۔ جسمانی تعلق تو ہر مسلمان کا والد کے ساتھ مگر روحانی تعلق ہر مسلمان کا نبیوں کے ساتھ ہے۔ اسلئے سیدنا آدم کا تذکرہ کرنا، ان پر غوروفکر کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

1۔ سیدنا آدم اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی تھے (صحیح ابن حبان: 361) آپ کا لقب صفی اللہ تھا (ترمذی 3616)۔ فرشتے اور جن اللہ کریم کی عبادت کر رہے تھے کہ اللہ کریم نے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا ایک خلیفہ بنانے لگا ہوں، فرشتوں نے عرض کی کہ وہ تو خونریزی اور فساد کریں گے، اللہ کریم نے حضرت آدم کو علم کا تاج پہنا کر فرشتوں سے جب نام پوچھے تو فرشتوں نے عرض کی کہ ہم نہیں جانتے اور سیدنا آدم نے سب اشیاء کے نام بتا دئے۔اللہ کریم نے فرمایا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ (تفصیل سورہ بقرہ آیت 30سے 39)

2۔ سورہ اعراف آیت نمبر 11 سے 25 اور سورہ الحجر میں 28سے 43 میں اللہ کریم نے سیدنا آدم کوکھنکھناتے، سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے بنانے، روح پھونکنے، فرشتوں کا سجدہ اور ابلیس کا متکبر ہوکر کہنا کہ میں آگ سے اور آدم خاک سے، اللہ کریم کا ابلیس کو راندہ درگاہ کرنااور ابلیس کا اللہ کریم پر گمراہی کا الزام لگاکر قیامت والے دن تک مہلت مانگنا، پھرسیدنا آدم کو جنت سے نکلوانا اورسیدنا آدم کا دنیا میں آکر معافی مانگنا تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔

3۔ سورہ مومنون آیت 12میں ہے کہ اللہ کریم نے حضرت آدم کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا“۔ "اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی خاک سے پیدا فرمایا اور یہ مٹی تمام روئے زمین سے حاصل کی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل میں مختلف رنگ و زبان کے لوگ ہیں۔” (ترمذی 2955، ابوداود 4693)

4۔ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونک دی، تو ان کو چھینک آئی، انہوں نے «الحمد لله» کہنا چاہا چنانچہ اللہ کی اجازت سے «الحمد لله» کہا، پھر ان سے ان کے رب نے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے۔

اے آدم! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت و گروہ کے پاس جاؤ اور ان سے السلام علیکم کہو، انہوں نے جا کر السلام علیکم کیا، فرشتوں نے جواب دیا، وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ آئے، اللہ نے فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں طریقہ سلام و دعا ہے۔

پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے آدم سے کہا: ان میں سے جسے چاہو پسند کر لو، وہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہاتھ ہیں اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور آدم کی ذریت تھی، آدم علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سب تیری اولاد ہیں اور ہر ایک کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں لکھی ہوئی ہے۔

ان میں ایک سب سے زیادہ روشن چہرہ والا تھا، آدم علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون ہے؟ کہا یہ تمہارا بیٹا داود ہے، میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھ دی ہے، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! اس کی عمر بڑھا دیجئیے، اللہ نے کہا: یہ عمر تو اس کی لکھی جا چکی ہے، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال اسے دیئے دیتا ہوں، اللہ نے کہا: تم اور وہ جانو؟ چلو خیر، پھر آدم علیہ السلام جنت میں رہے جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا، پھر آدم علیہ السلام جنت سے دنیا میں تشریف لائے۔

آدم علیہ السلام اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے، ملک الموت ان کے پاس آئے تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ تو جلدی آ گئے میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی ہے، ملک الموت نے کہا: ہاں (بات تو صحیح ہے) لیکن آپ نے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داود کو دے دیے تھے، تو انہوں نے انکار کر دیا آدم علیہ السلام کے اسی انکار کا نتیجہ اور اثر ہے کہ ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگ گئی، آدم علیہ السلام بھول گئے، ان کی اولاد بھی بھولنے لگ گئی، اسی دن سے حکم دے دیا گیا ساری باتیں لکھ لی جایا کریں اور گواہ بنا لیے جایا کریں“ (ترمذی 3368، صحیح بخاری 3326) یہ حضورﷺ کا فرمان ہے لیکن امتی نے حضرت آدم علیہ السلام کو انکاری نہیں کہنا۔

5۔ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے عہد لیا، الست بربکم قالوا بلی (الاعراف) اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ اسلام کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم علیہ اسلام ان سے سکون حاصل کریں (بخاری 3331) پھر اللہ تعالی نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا (الاعراف) سورج نکلنے کے دنوں میں بہتر دن جمعہ ہے کیونکہ جمعہ کے دن سیدنا آدم پیدا ہوئے، جنت میں گئے اور جنت سے دنیا میں تشریف لائے (صحیح مسلم 1976)۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو، خوب کھاؤ پئیولیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤ گے اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔ (بقرہ اور سورہ طہ)

6۔ ادھر ابلیس نے کہا اے آدم میں تمہیں بتاؤں ہمیشہ جینے کا پیڑ اور وہ بادشاہی کے پرانی نہ پڑے۔(طہ 120) اور شیطان نے اللہ کریم کی قسمیں کھا کر حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو کہا کہ تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اسلئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور اسطرح درخت کا پھل کھایا گیا (اعراف 20 -21) اماں حوا علیھا السلام نے پہلے درخت سے کھایا اور حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی ترغیب پر بعد میں کھایا۔ اسلئے نبی کریمﷺ نے فرمایا، اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی (صحیح مسلم 3648) اس حدیث سے بھی مراد ساری عورتیں نہیں بلکہ کسی کسی عورت میں خیانت کی صفت کا پایا جانا ہو سکتا ہے ورنہ تو اللہ کریم فرما رہا ہے کہ ان کوقسمیں کھا کھا کر ورغلایا گیا، ان کا ارادہ بھی نہیں تھا، ان کی توبہ بھی قبول کی گئی۔

7۔ درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہو گئیں، یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دئے۔اللہ کریم نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے کہا نہیں تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلم کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا (اعراف 22) البتہ اللہ تعالی نے جو عہد آدم علیہ اسلام سے لیا تھا، آدم سے بھول ہو گئی مگر ان کا عزم (ارادہ) نہیں تھا۔ (طہ 115) یعنی یہ اللہ کریم کی میشت یعنی مرضی تھی۔

8۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اب تم یہاں سے اتر کر زمین پر چلے جاؤ، اب تمہیں کچھ عرصہ کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اُٹھانا ہے (بقرہ 36)

9۔ دنیا میں آکرحضرت آدم علیہ السلام بہت روتے، اللہ کریم نے ان کو ربنا ظلمنا انفسنا دعائیہ کلمات سکھائے اور جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی (الاعراف، 23، بقرہ 27) پھر حضرت آدم علیہ اسلام کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا (اعراف 26) اور اللہ تعالی نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سرفراز فرمایا۔ بحر و بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی (اسراء 7)

10۔ حضرت آدم علیہ اسلام کے دو بیٹے قابیل و ہابیل کا بھی قرآن مجید میں تذکرہ ملتا ہے جس میں قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا جس کا حضرت آدم علیہ السلام کو بہت دُکھ ہوا۔ ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک بیٹا دیا جس کا نام انہوں نے شیث علیہ السلام رکھا اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو تبلیغ کی وصیت کی۔

11۔ حضرت آدم علیہ السلام کی روح قبض کی گئی، فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے غسل، کفن، نماز جنازہ، قبر و دفن کیا یا کرنے کا طریقہ سمجھایا کیونکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت شیث علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی (مسند احمد،حاکم، طبرانی، کبیر)۔ حضرت آدم علیہ اسلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا (ابن خزیمہ)۔ آپ کی قبر انور نامعلوم جگہ پر ہے یعنی اس کا علم نہیں۔ آپ کے وصال کے بعد سیدہ حوا علیھا السلام کا بھی انتقال ہو گیا اور ان کی قبر انور کا بھی معلوم نہیں ہے۔

12۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی کے سبب جنت سے نکلوایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دلائل تھے کہ یہ سب اللہ کریم کی مرضی سے ہوا اور حضرت موسی کلیم اللہ پرحضرت آدم علیہ السلام غالب آ گئے (صحیح بخاری 6614)

13۔ عالم ارواح میں ”روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں۔ (صحیح بخاری 3336) قیامت کے دن بھی جب لوگ شفاعت کے لئے سیدنا آدم کے پاس آئیں گے تو آپ اپنی غلطی یعنی جنت میں درخت کا کھانا بتا کر کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ شفاعت کر سکوں (صحیح بخاری 7510) حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی اللہ کریم کی مشیت سے تھی مگر قیامت والے دن تمام نبیوں نے اپنے اوپر الزام لے کر یہ فرمانا ہے کہ شفاعت کے حقدار ہم ہیں مگر آج کی شفاعت کے لئے تم حضورﷺ کے قدموں پرسر رکھو گے کیونکہ اصل مقام محمود کے مالک آج حضورﷺ ہیں ورنہ اللہ کریم سب نبیوں کی شفاعت قبول فرما سکتا ہے مگر اس دن شان حضور ﷺ کی ہو گی۔

بے تُکے سوال: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر موجودہ وقت تک کیا کیا ہوا، کس دن کیا ہوا، کسطرح ہوا، کیوں ہوا، کس نے کیا، حکم کس کا تھا، اللہ کریم روک نہیں سکتا تھا، کتنے بچے، بچوں یا والدین کے نام کیا تھے، اس کے بعد کیا ہوا، اس کے بعد یہ کیوں نہیں ہوا۔ قرآن و سنت میں ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا کیونکہ جواب کے لئے ماخذ کا ہونا، ریفرنس کا ہونا، حوالے کا ہونا لازمی ہے، اسلئے ہر مسلمان نے یومنون بالغیب پر ایمان لا کر اپنی 60 یا 70 سالہ زندگی کو حضورﷺ کی سنت (فرض، واجب، سنت، مستحب) پرعمل کرے تو بہتر ہے۔ بابا آدم کی اولاد اور رسول اللہ ﷺ کی امت کو ایک کرنے کا فارمولہ بھی سچ جھوٹ کا علم ہونے سے ہو گا۔

ایک اسلام: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں کیونکہ دیوبندی کی المہند اور بریلوی کے فتاوی رضویہ کی تعلیم ایک ہے سوائے چار کفریہ عبارتوں کے اختلاف کے۔ اہلحدیث غیر مقلد اپنے سعودی وہابی علماء کے ساتھ حنبلی ہو جائیں تو بہت بہتر ہے تاکہ فرق مٹ جائے یا سعودی وہابی نام نہاد حنبلیت چھوڑ کر غیر مقلد ہو جائیں ورنہ انتشار انہی کی وجہ سے ہے۔

غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general