خیال پر خیال
رسول اللہﷺ نے فرمایا : کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جس کے ساتھ (اچھا یا بُرا خیال پیدا کرنے کے لئے ایک جن (شیطان)اور ایک فرشتہ مقرر نہ ہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معا ملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ نے میری مدد کی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ لہٰذا وہ مجھے خیر ہی کی باتیں کہتا ہے۔ ( مشکوۃ شریف)
خیال اور اللہ کریم
1۔ اس حدیث کے مطابق ہرانسان کو24گھنٹے اچھا یا بُرا خیال آتا ہے۔ اچھا خیال فرشتہ پیدا کرتا ہے اور بُرا خیال جن شیطان پیدا کرتا ہے۔ لیکن ان دونوں کو خیال پیدا کرنے کی قوت کون دیتا ہے؟
2۔ اگر اللہ کریم ہی اچھا اور بُرا خیال ان دونوں (فرشتہ اور جن شیطان) کے ذریعے دیتا ہے تو پھر اچھا خیال آنے پر شُکر کرنا چاہئے اور بُرا خیال آنے پر صبر کرنا چاہئے۔
3۔ اچھے خیال اگر نیک صحبت میں پیدا ہوتے ہیں تو نیک صحبت اختیار کرنی چاہئے اور بُرے خیال بُری صحبت کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں تو بُری صحبت اور دوستوں سے کنارہ کشی کرنی چاہئے۔
4۔ خیال کو وہم، شک، وسوسہ، غلط فہمی اورخوش فہمی کی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں، البتہ ایمان والے کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ’’ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کریم کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ اور’’ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا‘‘، اسلئے مومن کو یہ بیماریاں نہیں لگتیں اور نہ ہی وہ بار بار دھوکہ کھاتا ہے بلکہ اپنی ذات کے اندر کے شیطان کو بھی دھوکہ دینے نہیں دیتا۔
5۔ ہر تجربہ کار انسان کو چاہئے کہ دوسروں کو اچھے خیال دے کر اُن کی دماغی صلاحیت بڑھائے ، اس کا اتنا ثواب ہے جیسے کسی بھوکے کو روٹی کھلانا یا کسی کی پیسوں سے مدد کرنا۔
خواب اور اللہ کریم
6۔ خیال کی ایک قسم خواب بھی ہے لیکن خیال خواب سے بڑی طاقت ہے۔اگرنہیں تو سوال یہ ہے کہ جو خیال مجھے روزانہ نبی کریم ﷺ کی یاد دلاتا ہے، کیا اس خواب سے بہتر نہیں ہے جو زندگی میں کبھی کبھارنبی کریمﷺ کا دیدار کرا دے اور کیا وہ خواب بھی میرے اچھے خیالات کا نتیجہ نہیں ہے؟
7۔ خیال بھی ایک اشارہ ہے اور خواب بھی ایک اشارہ ہوتا ہے لیکن دونوں اشارے سمجھنے کے لئے مکمل طور پر ہر پہلو سے دین کو سمجھنا لازمی ہے۔اسلئے جو مسلمان 24گھنٹے الہامی خیال اور شیطانی خیال میں فرق نہیں کر سکتا، وہ مسلمان اچھے اور بُرے خواب میں بھی فرق نہیں کر سکتا۔
8۔ حضورﷺ کا ہر خواب سچا مگر حضور ﷺ کو عُمرہ کرنے کا خواب آیا، بہت سے صحابہ کرام کے ساتھ عُمرے کے لئے تشریف لے گئے مگرخواب ایک "امتحان” بن گیا، حُدیبیہ کے مقام پر ’’صُلح نامہ‘‘ لکھا گیا اور آپﷺ کو بغیر عُمرہ کئے واپس آنا پڑااور اگلے سال اُس عُمرے کی قضا کی گئی۔ اسلئے خواب میں نبی کریمﷺ کا دیدار ہو اور کوئی بات کریں تو اُس بات کو بھی شریعت پر تولنا پڑتا ہے کیونکہ خواب امتحان بھی ہے۔
9۔ خواب میں اگر کوئی پریشانی نظر آئے تو بندہ پریشان ہو جاتا ہے تو کیا پریشانی خواب دیکھے بغیر نہیں آ سکتی؟ اسلئے خواب کی تعبیروں کے پیچھے نہ بھاگ بلکہ نیک اعمال کے پیچھے بھاگ۔
استخارہ اور اللہ کریم
10۔ استخارہ کرنا ایک مستحب عمل ہے، اگر کوئی استخارہ کرنے کی احادیث پر ایمان لاتا ہے مگر ساری زندگی استخارہ نہیں کرتا تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ استخارے کا عام مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے میں حضورﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دو نفل پڑھ کراللہ کریم سے غیبی اشارہ (خیال) مانگنا کہ مجھے حل بتایا جائے۔
11۔ استخارہ کرنے کی کوئی مدت نہیں ہے بلکہ جب تک کسی مسلمان کے دل کو اطمینان نہیں آ جاتا یا مسئلے کا حل اُس کے خلاف یا موافق نہیں نکلتا تب تک استخارہ کر سکتا ہے۔
12۔ یہ بات غلط ہے کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے کیا جاتا ہے، اسلئے نفل پڑھ کر باوضو قبلہ رُو ہو کر سونا لازمی ہے، کوئی نہ کوئی بزرگ آ کر تیرے مسئلے کا حل بتائیں گے یا فلاں رنگ کا نور نظر آئے گا۔ استخارہ جب مرضی کر سکتے ہیں۔
13۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک بندہ خود نفل پڑھ کر اللہ کریم سے دُعا کر سکتا ہے چاہے گناہ گار ہی کیوں نہ ہو لیکن کوئی دوسرا نیک آدمی اُسے مشورہ تو دے سکتا ہے مگر اُس کے لئے استخارہ کیسے کرے گا کیونکہ فال نکلوانا جائز نہیں اور استخارہ کوئی فال نہیں۔
14۔ یہ بھی ہے کہ استخارہ سکھانے والے رسول اللہ ﷺاور سیکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں، ساری زندگی مسائل آتے رہے اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جس کا ایمان زیادہ اُس کا امتحان زیادہ، اسلئے استخارہ کرنے کے باوجود ایمان کا امتحان دینا ہی پڑے گا۔
15۔ گناہ کے کام چھوڑنے میں استخارہ نہیں بلکہ توبہ کی جاتی ہے۔ اسی طرح رشتہ کرنے سے پہلے استخارہ نہیں بلکہ لڑکا لڑکی کا رہن سہن، کردار، خاندان، کمائی، اخلاق وغیرہ کی تحقیق کرنا لازمی ہے۔ استخارہ بھی کر مگر کسی سے مشورہ بھی کر کیونکہ مشورہ کرنے والا کبھی نقصان نہیں اُٹھاتا۔
تقدیر اور اللہ کریم
16۔ تقدیر دو باتوں سے سمجھ میں آ جائے گی کہ ایک ہے ’’علم الہی‘‘ یعنی عالم ارواح، عالم دُنیا، عالم برزخ، عالم حشر اور عالم جنت میں جو کچھ ہونا تھا اور جو کچھ ہو گا وہ اللہ کریم کے علم میں ہے اسے علمی الہی کہتے ہیں۔ دوسرا ہے ’’حُکم الہی‘‘ یعنی اللہ کریم نے فرائض (نماز، روزہ، زکوۃ، حج) ادا کرنے کا حُکم دیااور اپنے دوستوں ، رشتے داروں، جاننے والوں اور نہ جاننے والوں سے ’’حُسن سلوک‘‘ کرنے کا حُکم دیا۔
17۔ تمام دوست فیصلہ کرلیں کہ آپ علم الہی میں جو کچھ ہے وہ جاننے کی کوشش کریں گے یا آپ حُکم الہی پر زور لگائیں گے ؟ اگر علم الہی، تقدیر، لوحِ محفوظ وغیرہ پر ایمان لانے کے بعد بھول جائیں، صرف اور صرف حُکم الہی پر اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے رہیں اور نتیجہ آپ کے حق میں نکلے یا نہ نکلے تو کیسا محسوس کریں گے؟
دُعا اور اللہ کریم
18۔ حدیث پاک کے مطابق ہر مسلمان کی ہر دُعا قبول ہے، البتہ اللہ کریم اُسی وقت عطا فرما دے، بعد میں عطا فرما دے، اُس کی جگہ کچھ اور عطا فرما دے یا جنت میں دُعا نہ قبول کرنے پر درجہ عطا فرما دے۔ یہ سب اللہ کریم کے اختیار میں ہے۔
19۔ ہر مسلمان دُنیا میں ولی اللہ بننے کے لئے آیا ہے اسلئے ہر بات پر خوب غوروفکر کرے تاکہ خیال، خواب، استخارہ، دُعا اور تقدیر کو اللہ کریم کی طرف سے امتحان سمجھے لیکن کبھی بھی مایوس ہو کر بندگی کا سفر کرنا تَرک نہ کرے۔
نتیجہ: خیال کو رب کریم کی عنایت سمجھ کر اس پر شریعت کے مطابق عمل کرنے سے خیال کی طاقت بڑھ جاتی ہے اور اس خیال کے مطابق نبی اکرم کو نبیوں جیسا خیال آئے گا اور نیک لوگوں کو ان کے ایمان کے مطابق خیال آئے گا۔
کوشش: ہم بھی خیال کر رہے ہیں کہ دیوبندی اور بریلوی عوام اور علماء کو چار مصلے اجماع امت کے قانون نہیں سکھائے گئے۔ کل قیامت والے دن حضور ﷺکی امت کو بے ایمان کرنے کا ہر مسلمان ذمہ دار ہو گا جس کو حقائق کا علم ہو گیا مگر اس نے سمجھایا نہیں، اسلئے ہم سمجھا رہے ہیں۔ اللہ بس باقی ہوس