نماز اور پاک کپڑے
اکثر مسلمان کہتے ہیں میرے کپڑے ناپاک ہیں اس لئے نماز نہیں پڑھتا حالانکہ اللہ کریم فرماتا ہے: اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر (سورہ مدثر) تو اس حکم کے بعد مسلمان ناپاک کپڑے رکھے تو گناہ گار ہے۔ البتہ کپڑے نجاست یعنی گندگی لگنے سے ناپاک ہوتے ہیں۔ نَجاست دو قسم کی ہے، ایک وہ جس کا حکم سَخْت ہے اس کو غلیظہ کہتے ہیں، دوسری وہ جس کا حکم ہلکا ہے اس کو خفیفہ کہتے ہیں۔
نجاست غلیظہ: قرآن و احادیث میں جس نجاست کا ذکر موجود ہو اور اُس آیت و احادیث کے خلاف کوئی دوسری آیت یا حدیث نہ ہو اُسے نجاست غلیظہ کہتے ہیں۔ سورہ مائدہ 90 کے مطابق شر اب حرام اور سورہ انعام 145 کے مطابق مردہ جانور، بہتا ہوا خون حرام ہیں جن کو نجاست غلیظہ کہلاتے ہیں۔
اسلئے (1) انسان کا پوٹی، فضلہ، منی، مذی، پیشاب (بچہ بچی کا)، خون، پیپ، قے، شرا ب (2) سب حرام جانوروں کا پیشاب و پاخانہ، تھوک (3) حلال جانوروں کا گوبر، مینگنی، پاخانہ وغیرہ لگنے سے کپڑا دھونا پڑتا ہے۔
دلیل: دارقطنی کی روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عمار! کپڑا صرف پانچ چیزوں سے دھویا جاتا ہے: پاخانہ، پیشاب، قے، خون اور منی۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 156 حضور ﷺ نے جانور کی لید یعنی نجاست سے استنجا نہیں کیا اور سنن نسائی حدیث نمبر 42 میں بھی حضور ﷺ نے گوبر کو پلید کہا۔ صحیح مسلم 648 میں کتے کے لعاب کو ناپاک کہا۔
دھونا: صحیح بخاری 227 میں خون جہاں لگا ہے وہاں سے دھو کر اُسی کپڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ البتہ دار قطنی (1؍401) اور بیہقی (2؍404): تعاد الصلاۃ من قدر الدرہم ’’درھم جتنی (نجاست سے ) نماز لو ٹا ئی جائے‘‘۔
حکم: نجاستِ غلیظہ کپڑے یا بدن میں مقدارِ درہم کے برابر ہو تو دھونا واجب ہے اورمقدارِ درہم سے کم لگ جائے تو معاف ہے نماز ہو جائے گی۔ لیکن اگر مقدارِ درہم سے زائد لگی ہو تو معاف نہیں بلکہ دھونا فرض ہے۔
اس لئے کسی جانور کی بیٹ، گوبر وغیرہ ساڑھے چار ماشے ”وزن“ کی ہو یا پتلی نجاست (پیشاب، مذی وغیرہ) اس قدر جتنا ہتھیلی کے گڑھے کے اندر پانی کھڑا ہو سکتا ہے، اگر جسم یاکپڑے پرلگ جائے تو ”نماز“ ہو جائے گی لیکن دھو کر پڑھنا بہتر ہے۔
نجاست خفیفہ: اگر ایک آیت یا حدیث سے کسی بھی گندگی کا ناپاک اور دوسری حدیث سے پاک ہونا معلوم ہو تو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔
دلیل: حضور ﷺ نے فرمایا: جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (احمد، دار قطنی) حالانکہ پیشاب ناپاک ہے مگر اس دلیل کے ٹکراؤ کی وجہ سے حلال جانور کا پیشاب نجاست خفیفہ میں داخل ہے۔
حضرت عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منی میں خطبہ دیا اور آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے اور اس کا لعاب میرے مونڈھے پر بہتاتھا ۔ (احمد، ترمذی، ترمذی نے اس کی تصحیح کی)
حکم: اگر نجاستِ خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے تو جس حصہ میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو تو بغیر دھوئے نماز ہو جائے گی۔ اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو گیا ہو تو معاف نہیں بلکہ دھونا لازم ہے۔
کافرانسان، جنبی یاحائضہ(مرد عورت) کی ”روح“ ناپاک ہوتی ہے لیکن کپڑے، جسم، جھوٹا پانی، پسینہ، آنسو”پاک“ ہوتے ہیں۔ ان سے بات کرنے، ہاتھ ملانے اور چھونے کے بعدوضو یاغسل کی حاجت نہیں۔
طریقہ پیشاب، پاخانہ، خون، قے،منی، مذی کپڑوں پر لگ جانے سے سارا کپڑا نہیں دھوتے بلکہ جہاں پرلگی ہے وہاں سے کلمہ پڑھے بغیر دھو لیں کیونکہ کلمہ پڑھنا ضروری نہیں۔ 3، 5یا7مرتبہ بھی نہیں بلکہ اتنا پانی بہائیں کہ ”نشان“ ختم اور”بدبو“ نہ آئے۔
٭ کپڑے کی موٹی دری کوپاک کرنے کے لئے نچوڑا نہیں جاتا بلکہ گندگی صاف کر کے پانی اُتنی جگہ پر ڈالیں جو نیچے سے نکل جائے۔فرش دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔
٭ غسل کرنے کے بعد نجاست (منی) والے کپڑے بھی پہن سکتے ہیں البتہ جسم گیلا ہو اور نجاست گیلی ہو کر جسم پر لگ جائے تو دھونی پڑے گی۔ اسی طرح پاک کپڑے جنبی بندے کے پہننے سے ناپاک نہیں ہوتے۔
٭ آٹومیٹک واشنگ مشین میں خود کار طریقے سے پانی کے ذریعے کپڑے اچھی طرح کھنگالے جاتے ہیں اور مشین کئی بار صاف پانی لے کر انہیں کئی بار ملتی اور صاف کرتی ہے، چنانچہ اس صورت میں اگر ناپاک کپڑے، پاک کپڑوں کے ساتھ ڈال دیے جائیں اور مشین تین بار صاف پانی لے کر کھنگال کر ڈرین (Drain) کر لے، تو اس صورت میں بھی ناپاک کپڑے دھلنے کے بعد پاک ہو جائیں گے۔
٭ تیز بارش جب ہوتی ہے تو گٹر کا پانی بہہ کر بارش کا پانی گٹر اور سڑکوں پر رہ جاتا ہے، اس سے کپڑے اور جسم ناپاک نہیں ہوتے لیکن جہاں گٹر بند ہو نے سے فضلہ،گار یا گند باہر نکلا ہو تو کپڑے دھو کر نماز پڑھیں۔
فرقہ واریت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔
حل: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔