شکوک و شبہات
کیا اُس دور میں قیصر و کسری کی حکومتوں کی مداخلت جاسوسوں کے ذریعے نہیں تھی؟ کیا فوج کے اندر پاور فل باغی موجود تھے؟ کیا فوج کے لیڈر اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے؟ اب اُس دور میں فوج کی مداخلت کتنی تھی، کون کون کس حکومت کا آلہ کار تھا۔ کیا وہاں دوسرے ممالک سے لائے گئے غلام جڑیں کھوکھلا نہیں کرتے ہوں گے؟
ہمارے پاس اُس وقت کی تاریخ موجود نہیں ہے اور جو موجود ہے وہ ابومخنف کی ہے جو اہلتشیع حضرات کا معتبر راوی ہے جس نے دیکھا کچھ نہیں بیان کر کے صحابہ کرام کے خلاف بیان داغے۔ اہلسنت کے پاس بھی کوئی تاریخ کا ذریعہ نہیں سوائے ابومخنف کے جس کا اقرار تاریخ طبری اور تاریخ ابن خلدون لکھنے والوں نے کیا۔
جیسے اس جدید میڈیا دور میں عوام کے پاس تحقیق کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے میڈیا کے اینکرز کے جو مسلمانوں کو اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو معصوم ثابت کر رہے ہیں اور عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتے ہیں۔ آخر کار عوام فیصلہ نہیں کر پاتی کہ کون صحیح اور کون غلط ہے؟ پاور فل، اچھے یا برے، سیاسی و فوجی لیڈر، عوام کی بے یقینی سوچ کو اپنے حق میں اینکرز کے ذریعے قائل کر لیتے ہیں اور پھر ایک بساط ہر دور میں بچھا دی جاتی ہے۔
قانون: اہلسنت نے یہ قانون بنایا کہ مشاجرات صحابہ میں، ان کے آپس کے مسائل میں خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ ان کا دین ایک تھا، رسول اللہ کو دیکھ کر پڑھے ہوئے تھے۔ قرآن اور حضور کے فرمان میں شامل ہیں، اسلئے ان میں سے کسی کو باغی، فسادی، فاسق وغیرہ نہیں کہا جائے گا۔
قانون شکن: اب اس قانون کو توڑنے کا فائدہ صرف اہلتشیع حضرات کو ہے جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ سیدھی سی بات عوام بتائے کہ سیدنا علی مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہیں اور اہلتشیع کے نزدیک جو ان کو پہلا امام نہ مانے وہ مسلمان نہیں تو پھر خلفاء کو ماننے والے خلفاء سمیت مسلمان نہیں تو پھر امامت کو ماننے والے کون تھے تو کیا سیدنا علی نے اپنی امامت کی بیعت سیدنا ابوبکر کے مقابلے میں لی؟ اگر نہیں تو مسلمان کون رہا؟
عقیدہ: چودہ اور بارہ معصوم کا عقیدہ اسلام کے خلاف سازش ہے کیونکہ پہلے امام نے کوئی ایسی تعلیم نہیں دی اور اہلتشیع کا عقیدہ اُن کے سیلف میڈ ہے اور عوام برین واشڈ ہے جس کو جسطرف چاہے لگایا گیا ہے۔