اذان
مدینہ پاک میں میٹنگ ہوئی کہ نماز کی جماعت کے لئے کسطرح بلایا جائے تو کسی بھی عمل سے متفق نہ ہوا جا سکا۔ البتہ سیدنا بلال کو جماعت کے لئے آوازیں لگانے کا حُکم ہوا۔ (صحیح بخارى 569) اُس کے بعد خواب میں سیدنا عبد اللہ بن زيد بن عبد ربہ کو ایک فرشتے نے اذان سکھائی مگرانہوں نے شرم کے مارے 20 دین کے بعد بیان کیا تو سیدنا بلال کو حکم ہوا کہ عبد اللہ بن زيد جو سکھائے اسطرح اذان دیں۔ (ابوداود 420) جب سیدنا عمر نے اذان کی آواز سنی تو دوڑ کر آ کر عرض کی کہ میں نے بھی خواب میں اسی طرح دیکھا ہے چنانچہ رسول كريم ﷺ نے الحمد للہ فرمايا۔ (ابو داود 499)
مسجد میں اذان ہر ایک کو نہیں بلکہ اللہ واسطے، خوبصورت تلفظ، متقی اور جذبے والے مسلمان کو دینی چاہئے جس کی آواز سُن کرعوام کا مسجد میں آنے کو دل کرے۔ جو اذان دینے کے لئے لڑے مگر اذان دینی نہ آتی ہو تو یہ بہتر نہیں ہے۔ البتہ اذان کو صحیح طور پر ادا کرنے کا طریقہ قاری سے سیکھنا چاہئے۔ داڑھی کٹوانے والا اور بے وضو اذان دے سکتا ہے مگر بہتر ہے کہ داڑھی رکھ کر اور با وضو اذان دی جائے۔
فضائل: جن و انس سمیت ہر شے جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں کل اس کے حق میں گواہی دیں گی۔ (صحيح بخارِی 609) مؤذن کی آواز اُس کے لئے مغفرت، سننے والا اس کی بخشش کی دعا کرتا ہے (ابن ماجه 598) مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی (مسلم 387) پہلی صف اور اذان دینے کے ثواب کا علم ہو تو قرعہ اندازی کرنی پڑے (بخاری 615) اللہ واسطے بارہ سال اذان دینے کا صلہ جنت ہے (ابن ماجہ 600) نبی کریم ﷺ کی دعا کہ یا اللہ مؤذنوں کو بخش دے ( ابوداود 517)
اذان کا جواب: جب تم اذان سنو تو مؤذن کے الفاظ دہراتے رہو۔“ (مسلم 848) پھر مجھ پر درود پڑھو اور اللہ تعالی سے میرے لئے مقام محمود پر کھڑا ہونے کی دعا مانگو، جو دعا مانگے اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ (مسلم 849) جب مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اورحَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہے تو سننے والے کو لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہنا چاہئیے۔ جس نے دل سے یقین رکھ کر اذان کا جواب دیا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔ (مسلم 850)
اذان فجر میں حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے بعد دو دفعہ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہے (صحیح ابن خزیمہ: 385) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ مؤذن جب فجر کی اذان میں حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہے تو اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ دو دفعہ کہے۔ (سنن الدار قطنی 933، بیہقی 1/ 423، ابن خزیمہ 386) اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ احادیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ فقہاء کرام کی رائے ہے، اسلئے اس کو قطعا غلط کہنا جائز نہیں۔
مستحب: اذان سن کر جماعت کے لیے جانا واجب اور اذان کے کلمات کا جواب دینا مستحب ہے۔ تلاوتِ قرآن اور دعا وغیرہ چھوڑ کر میں مشغول شخص کے لیے موقوف کرکے اذان کا جواب دینا مستحب ہے۔ محلے کی پہلی اذان کا جواب دیدینا کافی ہے۔
اذان سے پہلے درود: اذان سے پہلے درود نہ پڑھیں کوئی گناہ نہیں، انگوٹھے نہ چومیں کوئی گناہ نہیں، جنازے کے بعد دعا نہ مانگے کوئی گناہ نہیں، نمازکے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام نہ پڑھیں کوئی گناہ نہیں۔ البتہ گناہ یہ ہے کہ کوئی یہ اعمال نہ کرے تو اُس کو وہابی اور دیوبندی کہا جائے۔ اصول تو یہ تھا کہ اذان سے پہلے درود منع نہیں، جنازے کے بعد دعا منع نہیں لیکن اب تو عوام نے فرض کر لیا ہوا ہے کہ اگر کوئی یہ کام نہ کرے تو اہلسنت ہی نہیں حالانکہ یہ فتوی اہلسنت کو ذہن میں رکھنا چاہئے:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اشھد ان محمد رسول اللہ جو اذان و اقامت میں واقع ہے اس میں انگوٹھوں کا چُومنا جو مستحب ہے اگر کوئى شخص باوجود قائل ہونے استحباب کے احيانا عمداًترک کرے تو وہ شخص قابل ملامت ہے یا نہیں”کے جواب میں فرمایا” جبكہ مستحب جانتا ہے اور فاعلون (کرنیوالوں پر) اصلاًملامت روا نہیں جانتا فاعلون (اور جو انگوٹھے چومنے والوں) پر ملامت کرنے والوں کو برا جانتا ہے تو خود اگر احيانا کرے نہ کرے ہر گز قابل ملامت نہیں (کہ مستحب كا درجہ و مقام یہی ہے) فتاوی رضويہ جلد 5 ص414
فرقہ واریت: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے 1924 سے پہلے 600 سالہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
تبدیلی دین: اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔