نماز اور تیمم
نمازی موت کے وقت میں بھی اپنی نماز کی فکر میں رہتا ہے اور اگر اُس کو وضو اور غسل کی حاجت ہو، کپڑے بھی خراب ہوں تو وہ اُس حالت میں تیمم کر کے نماز ادا کر سکتا ہے کیونکہ اب مٹی پانی کی جگہ لے لے گی، اُس سے جسم اور کپڑے صاف نہیں ہوں گے مگر نماز روزہ سب جائز ہو گا۔قرآن: اللہ کریم نے فرمایا کہ اگر تم بیمار ہو، سفر میں ہو، قضائے حاجت سے آیا ہو، یا عورتوں سے صحبت کی ہو، پانی نہ ملے تو پاک مٹی لے کر اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ (سورہ مائدہ 6 اور سورہ نساء 43) تیمم کی شان نزول کے لئے صحیح بخاری 336 اور مسلم 367 کا مطالعہ کریں جہاں سیدہ عائشہ کا گلے کا ہار گم ہوا اور صحابہ کو پانی نہ ملا تو تیمم کی آیات نازل ہوئیں۔
وجوہات: اسلئے (1) ہسپتال کے بیڈ پر پڑا نمازی وضو، غسل کے لئے ”پانی“ کا استعمال نہ کر سکتا ہو بلکہ نجاست والے کپڑے بھی نہ اتار سکتا ہو (2) پانی کے استعمال سے بیماری، زخم یا تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو (3) سفر میں پانی پینے کے لئے ہو مگر وضو اور غسل کرنے سے پانی ختم ہو جائے اور مزید پانی ملنے کی امید نہ ہو (4) پانی تلاش کے باوجود نہ ملے (صحیح بخاری 169) اور نماز کا وقت ختم ہونے لگے وغیرہ وغیرہ، اگر پانی مل جائے تو اسی وقت تیمم ٹوٹ جاتا ہے (صحیح مسلم 522)
طریقہ: مسلمان (1) بسم اللہ پڑھ کر (2) پاک صاف ہونے کی نیت سے (3) پاک مٹی کے ڈھیلے کوایک دفعہ دونوں ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہرے پر مَلے اوروہ ہاتھ داڑھی کے بالوں (خلال) سے بھی گذارے۔ دوسری دفعہ مٹی کا ڈھیلا ہاتھوں پر مَل کر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے (مسح)، اس کو تیمم کہتے ہیں۔ (صحیح بخاری 347 ،338) یہ عمل دیکھ کر سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اسلئے کسی عالم سے ضرورسیکھا جائے۔
حصے: جسم کے صرف دو حصے چہرے اور ہاتھوں پر مٹی سے”مسح“ کرنے کو تیمم کہتے ہیں۔ تیمم میں یہ آسانی ہے کہ ”مٹی“ کے ایک پاک ڈھیلے(روڑا) سے ساری زندگی اور سارے لوگ ”تیمم“ کر سکتے ہیں جس پر پیشاب پاخانے کا نشان نظر نہ آتا ہو۔
٭ پانی جب تک نہ ملے تیمم کر کے نمازیں پڑھی جائیں اورجب پانی مل جائے تو وضو کریں۔ تیمم ان باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسلئے تیمم ٹوٹنے پر ”نماز“ پڑھنے کیلئے پھر تیمم کیا جائے۔ (ابو داود 357)
٭ اگر کسی کے پاس پانی ہو تو نمازی تیمم کرنے سے پہلے اُس سے پوچھ لے کہ وضو کے لئے پانی مل سکتا ہے اور اگر پوچھے بغیر تیمم کر ے گا تو نماز نہیں ہو گی کیونکہ پانی ملنے کا امکان تھا۔
واقعات
(1) سیدنا عمرو بن عاص نے سردی کی سخت رات میں تیمم کر کے نماز کی جماعت کروائی اور نبی کریم نے علم ہونے پر ان کو کچھ نہیں فرمایا۔ (ابو داود 334)
(2) ایک زخمی صحابی کو احتلام ہوا تو ان کو مشورہ دیا گیا کہ غسل کرو، انہوں نے غسل کیا تو وفات پا گئے، نبی کریم کو علم ہوا تو فرمایا کہ لا علمی کا علاج فتوی پوچھنا ہے، دوسرا کوئی غلط فتوی دے تو اُس کا قا تل وہی ہو گا (ابو داود 337)
(3) حضور کا فرمان کہ اگر دس برس تک پانی نہ ملے تو تیمم سے وضو اور غسل کریں (ابوداود 357)
(4) تیمم سے نماز ادا کر لی اوراُس کے بعد پانی مل جائے تو اگر کوئی نماز کو دہرا لے تو اجر پائے گا، البتہ تیمم سے نماز ہو چُکی ہے۔ (ابو داود 338)
(4) ایک صحابی کو علم نہیں تھا تیمم کا تو سارے جسم کو زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر مٹی لگاتے رہے۔ (صحیح بخاری 347)
باقی ریفنرسز کمنٹ سیکشن میں اور سوال و جواب بھی کمنٹ سیکشن میں کریں۔
فرقہ واریت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔
حل: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔