وقت بے وقت
اللہ کریم کا فرمان ہے کہ نماز اپنے مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔ پانچ نمازوں کا تعلق سورج کی حرکت کے ساتھ ہے لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رات کے 12بجے بھی زوال کا وقت ہوتا ہے حالانکہ زوال کا تعلق سورج سے ہے چاند سے نہیں۔ ہر کوئی نمازوں کے اوقات کا کیلنڈر، اپنے اپنے علاقے کے حساب سے، بازار سے خرید لے لیکن پھر بھی مختصر بیان کر دیتے ہیں۔
ترمذی 149: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” سیدنا جبرائیل نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی۔
نماز ظہر: پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیا اور) سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہو گیا، دوسری بار ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا۔
نماز عصر: پہلی بار عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا اور دوسری بار عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا۔
نماز مغرب: پہلی بار مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اور روزے دار نے افطار کر لیا، البتہ دوسری بار مغرب اس کے اول وقت ہی میں پڑھی۔
نماز عشاء: پہلی بار عشاء اس وقت پڑھی جب شفق غائب ہو گئی، دوسری بار عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزر گئی۔
نماز فجر: پہلی بار نماز فجر اس وقت پڑھی جب فجر روشن ہو گئی اور روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو گیا اور دوسری بار فجر اس وقت پڑھی جب اجالا ہو گیا۔
مسئلہ عصر: اس حدیث پاک سے واضح ہے کہ دوسری بار ظہر عصر کے وقت پڑھی اور دوسری ب
ار عصر سایہ دگنا ہونے پر پڑھی۔ یہی دلیل ہے امام ابو حنیفہ کی اور بہتر بھی یہی ہے کہ نماز عصر اُس وقت پڑھی جائے جو نبی کریم ﷺ نے دوسری بار عصر کا وقت بتایا تاکہ اختلاف نہ رہے۔
آسان انداز: ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ گرمیوں اور سردیوں میں 11:05سے لے کر12:16کے درمیان زوال کا وقت رہتا ہے۔ اس لئے ظہر کی نماز کا وقت پورا سال 12:16پر شروع ہو جاتا ہے۔
وقتِ ظہر: اہلسنت عوام کی آسانی کے لئے سمجھا دیتے ہیں کہ”اہلحدیث حضرات“ کی عصر کی اذان سے پہلے پہلے پڑھ لے تو بہت بہتر ہے، البتہ اہلسنت کی عصر کی اذان سے15منٹ پہلے تک بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
وقتِ عصر : غروب آفتاب تک رہتا ہے مگر سورج کے غروب ہونے سے 20 منٹ پہلے پہلے پڑھ لیں اور جان بوجھ کر دیر کرنے والا گناہ گار ہے مگر نماز ہو جائے گی۔ کسی بھی وجہ سے(سفر،بیمار کی خدمت) غروب آفتاب سے پہلے بھی اگرایک رکعت عصر نماز پڑھ لی توباقی رکعتیں پوری کر لے نماز ہو جائے گی۔ (صحیح بخاری 556)
وقتِ مغرب: غروب آفتاب کے بعد سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ تک رہتا ہے اور کچھ لوگ صرف جماعت سے نماز چھوٹ جائے یا تھوڑی تاخیر ہو جائے تو نماز نہیں پڑھتے۔
البتہ مغرب کی اذان کے بعد نماز جلدی پڑھنے کا حُکم ہے، اس لئے مکہ پاک اور مدینہ پاک والے جو نفل مغرب کی نماز سے پہلے پڑھتے ہیں وہ نفل ہم نہیں پڑھتے بلک ہ نمازِ مغرب میں جلدی کرتے ہیں۔
وقتِ عشاء: غروب آفتاب سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ کے بعد سے لے کر صبح فجر کی اذان تک ہوتا ہے لیکن بہتر ہے کہ آدھی رات سے پہلے پہلے اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو پڑھ لینی چاہئے اور اگر کام میں مصروفیت ہے تو فجر کی اذان سے پہلے پہلے ادا کی جا سکتی ہے۔
سنتوں کا وقت
فجر کی سنتیں: اگر جماعت میں ”سلام“ سے پہلے شامل ہو سکتا ہے تو پڑھ لے اور اگر نہ پڑھی جائیں تو سورج نکلنے کے بعد فجر کی سنتوں کی قضا کر لے۔ (ترمذی 423) البتہ نمازِ فجر قضا ہو گئی تو زوال سے پہلے پہلے سنتیں اور فرض دونوں پڑھتے ہیں اور اتنی دیر کر دی کہ ظہر کا وقت آ گیا تو فرض اداکریں گے مگر سنتیں نہیں۔
ظہر کی چار سنتیں: ”امام ہو یا عوام“ (دونوں) اگر پہلے نہ پڑھ سکیں تو نبی کریم ﷺ جب ظہر سے پہلے چاررکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انھیں بعد میں پڑھ لیتے تھے۔(ترمذی 426) اور یہ چار رکعتیں ظہر کی دو سنتوں کے بعد پڑھتے۔(ابن ماجہ 1158)
فجر کی سنتیں واجب کے قریب ہیں (مسلم 1688، بخاری 1159). ظہر کی سنتوں کی بھی تاکید ہے لیکن عصر و عشاء کی چار سنتیں نفلوں کی طرح ہیں۔ ظہر کی چار اور عصر و عشاء کی چار “سنتوں“ میں فرق ہے۔ (ابن ماجہ 1157، ابو داود 1270)
فرق: ظہر کی چار سنتوں کی دوسری رکعت میں التحیات پڑھ کر کھڑے ہو کر الحمد سے تیسری رکعت شروع کرتے ہیں لیکن عصر و عشاء کی چار سنتوں میں دوسری رکعت میں التحیات، درود پاک اور دعا کے بعد تیسری رکعت کھڑے ہو کر سبحانک اللہ سے شروع کرتے ہیں لیکن اگرکسی کو علم نہ تھا اور وہ عصر یا عشاء کی سنتیں “ظہر“ کی سنتوں کی طرح پڑھ گیا توسنتیں ہو جاتی ہیں۔
وقتِ زوال: فرض، سنت، نفل یا قضا ”نماز“ ان تین مکروہ (زوال) وقتوں میں نہیں پڑھتے۔ (1) سورج نکلنے کے بعد (20) منٹ تک (2) دن کے12 بجے اوریہ پورا سال (11:05 سے 12:16) (3) سورج کے غروب ہونے سے پہلے (20) منٹ البتہ نمازِ عصر کا پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔
قضا نمازیں: نماز فجر کے بعد (سورج نکلنے سے پہلے تک)، نمازِعصر کے بعد (سورج کے غروب ہونے کے (20) منٹ سے پہلے تک) نفل نہیں پڑھ سکتے، البتہ قضا نمازیں پڑھ سکتے ہیں۔ ( زوال، نفل اور قضا کے لئے صحيح بخارى 547، 548، 551 صحیح مسلم 1367، 1371، 1373)
جنازہ: فتوی ہے کہ مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کر سکتے ہیں، البتہ جان بوجھ کر اس وقت پڑھنا جائز نہیں۔
سجدہ تلاوت: اسی طرح مکروہ اوقات میں قرآن پڑھتے ہوئے ”سجدہ تلاوت“ آ جائے تو کر سکتے ہیں مگر بہتر ہے کہ مکروہ اوقات کے بعد کیا جائے۔
نفلوں کے اوقات
رمضان میں فجر کی نماز پڑھنے لوگ جاتے ہیں، کافی وقت ہوتا ہے تو نفل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ فجر کی اذان سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ”نفل“ نہیں پڑھتے۔ ( صحيح بخارى 581 – 584)
اس کے علاوہ جن لوگوں کی نمازیں قضا ہیں ان کو نفل نہیں پڑھنے چاہئیں بلکہ قضا نماز پڑھیں۔
کوئی بھی”نفل“ شروع کرنے پر ساری زندگی پڑھنے نہیں پڑھتے بلکہ ہفتہ میں ایک بار بھی تہجد، اشراق، تسبیح نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں توضرورپڑھیں۔
تعداد: نفل تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کوئی بھی ہوں، کم از کم 2اور زیادہ کی کوئی حد فرض نہیں۔
سورت: نفلوں میں کوئی بھی خاص سورت تلاوت کرنے کا حکم نہیں بلکہ کوئی بھی سورت پڑھ سکتے ہیں۔
منع: تہجد کے نفل پڑھنے سے فجر کی”جماعت“ چھوٹ جائے یا کام پر سستی پڑی رہے تو نہ پڑھیں۔
اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے 20منٹ بعد سے لے کرایک ڈیرھ گھنٹہ تک رہتا ہے۔
چاشت کا وقت اشراق کا وقت ختم ہونے سے شروع ہو کر سورج کے زوال تک رہتا ہے۔
تہجد عشاء کی نماز کے بعد سو گیا اور آدھے گھنٹے بعد جاگنے پر تہجد پڑھ سکتا ہے کیونکہ تہجد کے لئے سونا ضروری ہے، اگر نہ بھی سوئیں تو”نفل“ پڑھ سکتے ہیں چاہے وہ تہجد کے نہ ہوں مگر ثواب مل جائے گا۔
اوابین مغرب کے بعد اورنمازِ عشاء سے پہلے پڑھتے ہیں۔
فرقہ واریت: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے 1924 سے پہلے 600 سالہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
تبدیلی دین: اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔