لازم و ملزوم
یہ فرض ہر نماز(فرض، واجب، سنت، نفل) میں فرض ہیں اور ”فرض“ چُھوٹنے پر نماز ادا نہیں ہوتی جیسے:
1۔ تکبیر تحریمہ: نمازشروع کرتے ہوئے پہلی بار(اللہ اکبر) کہنا نماز میں شرط اور فرض بھی ہے۔
دلیل: قرآن میں بھی تکبیر اور رسول اللہ کا فرمان: نماز کی کنجی طہارت، تحریم تکبیر اور تحلیل سلام پھیرنا ہے۔ (ترمذی 3، ابو داود 61، ابن ماجہ 275)
2۔ قیام: نماز ہمیشہ کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں،بغیر مجبوری کے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے تو نماز نہیں ہوتی البتہ ”نفل“ نماز بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں مگر ثواب کم ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کے ”نفل“ کبھی بھی بیٹھ کر نہیں پڑھے البتہ عشاء کے آخری دو نفل بیٹھ کر پڑھے ہیں۔
دلیل: وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ "اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑےرہو۔ (البقرة 238) سیدنا عمران بن حصین نے کہا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم ﷺ سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔ (صحیح بخاری 1117)
مثال ایک بندہ گھر میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے لیکن مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے جائے گا تو تھک کر بیٹھ کر نماز پڑھے گا تواُسے گھرمیں کھڑے ہو کرنماز پڑھنا ضروری ہے۔
٭ امام رکوع میں تھا تو نمازی اللہ اکبر کہہ کر فوراً رکوع میں چلا جائے تو حدیث کے مطابق رکوع مل جانے پر رکعت مل جائے گی اور اگرگُھٹنوں تک ہاتھ جانے سے پہلے امام اٹھ گیا تو ایک رکعت چُھوٹ گئی۔
3۔ تلاوت: قیام میں قرآن کی تلاوت کرنا ضروری ہے، عوام چھوٹی چھوٹی سورتیں ملاتی ہے۔ کچھ لوگ نماز میں بھی قرآن پاک پڑھتے ہوئے ہونٹ نہیں ہلاتے بلکہ دل کے اندر پڑھتے ہیں ان کی نمازنہیں ہوتی۔اس لئے قرآن پاک کی جب بھی تلاوت کریں تو زبان سے کریں، اتنی آواز میں کہ خود کو محسوس ہو۔
دلیل: فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو۔(الْمُزَّمِّل)
4۔ رکوع ہاتھوں کے گُھٹنوں تک پہنچ جانے کو رکوع کہتے ہیں اور رکوع کرنا فرض ہے۔
دلیل: اے ایمان والو! رکوع اورسجدے کرتے رہو۔ (الحج 1117) نبی کریم کا فرمان: پھر اطمینان و سکون کے ساتھ اس طرح رکوع کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں (ابوداود 865)
5۔ دوسجدے: نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے فرض ہیں۔ سجدے میں عوام کی دو بڑی غلطیاں ہیں۔ جس سے سجدہ مکمل نہیں ہوتا (1) سجدے میں پیشانی تو لگا لیتے ہیں لیکن ناک کی ہڈی کو زمین کے ساتھ سختی سے نہیں لگاتے (2) سجدے میں دونوں پاؤں کی ساری انگلیاں زمین پر لگانے کی کوشش نہیں کرتے۔
دلیل: قرآن فرماتا ہے کہ سجدہ کرو قرب پاو۔ ہر نماز میں دو سجدے فرض ہیں۔ نبی کریم کا فرمان: پھر اطمینان سے اس طرح سجدہ کرے کہ اس کے جسم کے سارے جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں (ابوداود 865)
6۔ آخری قعدہ: 2 رکعت اور 4 رکعت کی نماز میں التحیات(تشہد) کے لئے بیٹھنا۔
دلیل: صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نماز میں تشہد کے فرض کئے جانے سے پہلے (نسائی 1278، دار قطنی، بیہقی وغیرہ) اور دوسرا رسول اللہﷺ کے طرز عمل اور معمولی مبارک سے یہ بات بہرحال ثابت اور معروف ہے کہ آپ آخری قعدہ بیٹھ کر تشہد پڑھا کرتے تھے۔
7۔ نماز سے نکلنا فرض ہے اور نبی کریم کا فرمان نماز سے سلام کر کے نکلنا ہے۔ (ترمذی 3، ابو داود 61، ابن ماجہ 275)
مریض کی نماز
٭ اگر بیمار تھوڑا سا کھڑا ہو سکتا ہے تو کھڑا ہو کر نمازشروع کرے، پھر بیٹھ جائے کیونکہ قیام فرض ہے۔
٭ اگر بیمار قیام کر سکتا ہے لیکن رکوع اور سجود پورے نہیں کر سکتا تو قیام کرے اور اشارے سے نماز پڑھے یعنی رکوع کے لئے اپنے جسم کو تھوڑا جھکائے اور سجدے کے لئے رکوع سے تھوڑا زیادہ جُھکے۔
٭ اگر کوئی دیوار وغیرہ کے سہارے سے نماز پڑھ سکتا ہے تو لیٹ کرنہیں بلکہ سہارے سے پڑھے۔
٭ بیمار یا حاملہ عورت سجدے میں زیادہ جُھک نہیں سکتی تو آگے کوئی اونچی چیز رکھ کر اس پر سجدہ کرے۔
٭ لیٹ کر نماز پڑھنا صرف اس کے لئے جائز ہے جو بیٹھ کر نماز ادا نہیں کر سکتا۔
٭ ہسپتال میں بیمارکوقبلہ کی طرف بیڈ کرنے سے پریشانی ہو تو جدھر منہ ہو ادھر ہی نماز ادا کرلے۔
مسجد کی کرسی: اسلئے مسجد کی کرسی پر ہراس بندے کی نماز نہیں ہوتی جو قیام، رکوع، سجود (فرائض) پورے کر سکتا ہو مگر نماز کے یہ فرض چھوڑ دے۔ ہر نمازی بیماری میں ”قانون“ کو سامنے رکھ کرنماز پڑھے۔
فرقہ واریت: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے 1924 سے پہلے 600 سالہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ اُس مجتہد نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
تبدیلی دین: اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔