Roza (مکمل روزہ)

مکمل روزہ

ہر مسلمان، بالغ، عورت و مرد پر، ثواب اور ایمان، کی "نیت” سے روزہ رکھنا لازم ہے۔ اگر کوئی ساری زندگی روزہ نہیں رکھ سکتا تو اُس پر فدیہ دینا لازم ہے یعنی 30 روزوں کا فدیہ 30 فطرانے کی رقم کے برابر ہو گا، غلطی سے روزہ توڑ دیا تو قضا اور جان بوجھ کر توڑ دیا تو کفارہ ہے۔ اب اس پیرے کو سمجھتے ہیں اور جس کو سمجھ نہ آئے وہ کمنٹ سیکشن میں سوال کر سکتا ہے:
بالغ: لڑکی کو حیض کا خون اور لڑکے کو احتلام اُس کے بالغ ہونے کی نشانی ہے اوراُسی وقت سے ان پر نماز، روزہ، زکوۃ اور حج فرض ہو جاتا ہے۔
نیت: اللہ کریم کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے روزہ رکھا جاتا ہے اور یہ نیت روزانہ دل میں کرنی چاہئے کہ یا اللہ تیرا قرب اور اجر و ثواب پانے کے لئے روزہ رکھنے لگا ہوں۔ روزہ رکھنے کی کوئی نیت حدیث میں نہیں آئی۔
مفہوم: روزہ رکھنے کا مطلب ہے کہ میں فجر کے وقت سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک نہ تو اپنے پیٹ میں کچھ جانے دوں گا اور اگر شادی شدہ ہو تواپنی بیوی سے صحبت نہیں کرے گا۔ البتہ اگر روزے میں نماز و تراویح ادا نہ کیں تو فرض و واجب چھوڑنے پر سخت گناہ گار ہو گا مگر روزہ ہو جائے گا۔
غور: اذان سے پہلے فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے جیسے مغرب کی اذان سے پہلے روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے، اسلئے سائرن کی آواز پر روزہ بند نہ کیا اور اذان کے دوران کھاتا رہا تو روزہ نہیں ہو گا۔
بیوی: آسان انداز میں سمجھیں کہ روزے میں بیوی کو گلے لگانا، چومنا، پیار کرنا جس سے بندہ فارغ ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اپنے ہاتھ سے اپنی شرم گاہ سے پانی نکالے تو بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
کھانا پینا: ایسی خوراک جو معدے میں جائے تو اُس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ علماء نے سمجھایا کہ منہ، کان، ناک، آنکھیں، پیشاب اور پاخانہ کے سوراخ ہوتے ہیں اور ان کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح معدے سے ہے جیسے:
منہ: کھانے کا سوراخ ہے، اسلئے وضو کا پانی یا کوئی بھی شے، اس رستے سے اندر جائے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
ناک: ناک کا سوراخ بھی منہ سے ہوتا ہوا نیچے جاتا ہے، اسلئے وکس انہیلر، اگر بتی، وضو کا پانی، کوئی بھی چیز جان بوجھ کر کھینچ کر اندرلے جائیں گے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
کان: کان کے سوراخ کا تعلق معدے سے نہیں ہے، اسلئے اس میں دوائی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کان میں نہاتے ہوئے پانی اندر چلا بھی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
آنکھ: آنکھ کا تعلق بھی ناک اور منہ والے سوراخ سے ہے، اسلئے بہتر ہے کہ آنکھ کی دوائی بھی روزے کے دوران نہ ڈالی جائے، اگر ڈالنا بہت ضروری ہو تو نبی اکرم نے سرمہ ڈالنے کی اجازت دی ہے، اسلئے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ڈال لیں مگر بچنا بہت بہتر ہے۔
پیشاب و پاخانہ: معدے سے فضلہ پاخانے کے سوراخ سے نکلتا ہے، اسلئے علماء نے عورت کو پیشاب اور پاخانے کے دوران پانی سے ظاہری کھال دھونے کا حُکم دیا ہے اور مرد کو بھی پاخانے کا سوراخ ظاہری کھال دھونے کا حکم دیا ہے تاکہ کوئی بھی چیز معدے تک نہ جائے۔
انجیکشن: کچھ علماء کہتے ہیں کہ پٹھے یا رگ میں انجیکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ پٹھے اور رگ کا ڈائریکٹ معدے سے نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ شدید ضرورت کے تحت یہ انجیکشن لگوائے جائیں کیونکہ روزے کا مقصد کمزور ہونا ہے اور ٹیکوں میں طاقت دینے والے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔
بیمار: جس کو قابل ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب تم ساری زندگی روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہو وہ روزہ رکھنے کی بجائے کسی مسلمان کو روزے کا ’’فدیہ‘‘ دے سکتا ہے۔ (2) وہ بیمار جسے ڈاکٹر کہہ دے کہ اس رمضان کے روزے نہ رکھو بعد میں رکھ سکتے ہو وہ ’’فدیہ‘‘ نہیں دے گا بلکہ بعدمیں روزے رکھے گا۔ (3) وہ بیمار جس کو علم نہیں تھا مگر’’فدیہ‘‘ دے دیا توروزے پھر بھی رکھنے پڑیں گے۔ (4) بیمار اگر گرمیوں کے روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں روزے رکھے لیکن’’فدیہ‘‘ دینا جائز نہیں ہو گا۔
افطار کی دُعا: نبی کریم ﷺ روزہ افطار کرنے کی دعا کچھ کھا پی کر پھر مانگا کرتے تھے،اس لئے ’’سنت‘‘ بعد میں دعا کرنا ہے۔ اسی طرح کھانے کے دوران مغرب کی اذان کا جواب بھی نہ دیا جائے تو ’’جائز‘‘ ہے کیونکہ روزہ افطار کیا جا رہا ہے۔
قضا اور کفارہ
رمضان المبارک کا’ روزہ‘‘ توڑنے پر کفارہ ہے اور روزہ بڑی چیز سے نہیں بلکہ تِل کے برابر کوئی چیز منہ میں رکھ کرچبائی جس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
قضا: کا مطلب ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں دوسرے کسی ماہ میں ایک روزہ رکھنا۔
کفارہ: روزے میں جان بوجھ کر، خود بخود، سوچتے سمجھتے ہوئے، کھا پی لیا یا عورت سے صحبت کر لی تو ایک روزہ کی قضا کے ساتھ ساتھ، دو مہینے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔
روزہ کی قضا اور کفارہ کے اصول
1۔ منہ کی راہ سے پیٹ اور دماغ میں ایسی دواء یا غذاء کا پہنچنا جس سے بدن میں طاقت پیدا ہو اس سے کفارہ لازم آئے گااور اگر ایسی چیز کھائی جس سے بدن میں طاقت پیدا نہ ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا مگر قضا لازم آئے گی مثلاً منہ کے راستے غذا یا کوئی دواء کھائی تو “کفارہ‘‘ اور اگر کنکر پتھر نگلا تو ’’قضا‘‘۔
2۔ جان بوجھ کر ایسی غذا کھانے سے جس کی طرف رغبت ہو تو کفارہ لازم آئے گا اور جس کی طرف رغبت نہ ہو اس کے کھانے سے قضا لازم آئے گی جیسے (i) گوشت کھانے سے ’’کفارہ‘‘ اور جلا ہوا بدبودارگوشت کھانے سے’’قضا‘‘ (ii) پیر کا چبایاہوا لقمہ کھانے سے’’ کفارہ‘‘ اوراپنے منہ کا نکال کر کھانے سے ’’قضا‘‘ (iii) قے آئی علم تھا کہ روزہ نہیں ٹوٹا مگر کھانا کھایا تو’’کفارہ‘‘ علم نہیں تھا اور کھا لیا تو’’ قضا‘‘ (iv) خربوزہ یا تربوز کھانے پر’’ کفارہ‘‘ اور اس کا چھلکاسڑا ہوا کھانے پر’’ قضا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
3۔ عورت سے جماع میں رغبت ہوتی ہے اس لئے ’’کفارہ‘‘ اور اپنے ہاتھ سے منی نکالی تو’’قضا‘‘۔
اہم بات: اگر غلط کام کی عادت سے محبت ہو جیسے مٹی یا کنکر کھانا، سڑے ہوئے پھل یا اس کے چھلکے کھانا، ہتھ رسی یا مشت زنی کو شوق سے کرنا تو پھر مسئلہ ’’قضا ‘‘سے’’ کفارہ‘‘ میں بدل جائے گا۔
جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
1۔ گندی فلم دیکھنا یا کسی کو ننگا دیکھنا حرام و نا جائز ہے اور ایسے ہے جیسے اپنی ماں بہن کو ننگا دیکھنا مگر اس کو دیکھنے سے اگر مرد اور عورت کوخود بخود انزال ہو جائے تو روزہ نہیں جاتا۔
2۔ روزہ یاد نہیں تھا اور غرغرہ کر لیا، ناک میں پانی چلا گیا، روٹی کھا لی، پانی پی لیا تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا مگر اگر روزہ یاد تھا اور احتیاط نہ کی تو روزہ نہیں ہوتا۔
3۔ اسی طرح (۱) پھول یا مشک عنبر یا عطر سونگھنے سے (۲) حجامت بنوانے سے (۳) زکام میں رطوبت اندر لے جانے سے (۴) کلی کے بعد منہ میں تری رہنے سے (۵) ہونٹ پر زبان پھیرنے سے (۶) گرد و غبار کا منہ میں خود بخود جانے سے (۷) بدن یا بالوں میں تیل لگانے سے (۸) نہانے سے (۹) خون دینے، نکلوانے یا ٹیسٹ کروانے سے (۱۰) روزے کے دوران قے (اُلٹی) بار بار آئے چاہے منہ بھر کر آنے سے (۱۱) احتلام ہو جانے سے(۱۲) غیبت ، جھوٹ یا بہتان لگانا حرام ہے مگر ان تمام اعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
چند اہم مسائل
1۔ روزے میں صبح اٹھ کر اگر ناپاکی کی حالت ہو اور وقت کم ہو تو ایسی صورت میں پہلے کھانا کھائے اور غسل بعد میں کرے لیکن نماز قضا نہ ہونے پائے۔ غسل میں ایک فرض ہے یعنی سارے جسم پر پانی بہانا اور باقی کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے مگر پانی اندر نہ جائے۔
2۔ روزے میں مسواک کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ کے بغیر خالی برش بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگرمسواک یا برش کرنے سے خون نکل آتا ہو اورسرخی مائل خون نکل کرپیٹ میں چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ٹوتھ پیسٹ کے اجزاء حلق میں جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اسلئے ٹوتھ پیسٹ سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے کر لینی چاہئے۔
3۔ قمری مہینہ 29 یا 30 کا ہوتا ہے۔اس لئے بیرون ملک سے آنے والا پاکستان آئے اور اس کے 30 روزے ہو چکے ہوں تو یہاں پر ابھی رمضان کا ایک دن باقی ہو تو وہ 31واں روزہ رکھے گا اور مقامی ملک کے مطابق عید کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی پاکستان سے سعودی عرب جاتا ہے اور اس کے 28 روزے ہو چکے ہیں لیکن وہاں عید ہے تو ان کے ساتھ عید منا کر بعد میں روزہ پورا کر لے۔
رمضان کا چاند
رمضان سے پہلے یہ انفارمیشن ہمارے پاس ہونی چاہئے تاکہ ہمیں علم ہو کہ چاند دیکھنے کا مسئلہ کیا ہے، کسی دوسرے ملک کے چاند دیکھ کر کیا ہم روزہ رکھ سکتے ہیں اور تراویح ادا کر سکتے ہیں:
صحیح بخاری 1909 مسلم 2498: رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور شوال کا چاند دیکھ کر عید کرو، اگر بادل چھا جائیں تو تیس دن پورے کر لو۔ اگر 29 شعبان کو بادل کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا تو 30 شعبان کو رمضان کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ابوداود 2334: جس نے ایسے (شک والے) دن کا روزہ رکھا، اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
شرح: اس حدیث کے مطابق مسلمانوں پر چاند دیکھنا واجب ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور علم نجوم سے چاند دیکھنے کے لئے مدد لی جا سکتی ہے مگر کمیٹی یا مسلمان چاند ضرور دیکھیں۔
2۔ صحیح مسلم 2528: سیدنا امیر معاویہ نے شام میں جمعہ کی شب کو چاند دیکھا اور جب مدینے آ کر بتایا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات کو دیکھا اور ہم اپنے پورے روزے اپنے شہر کا چاند دیکھ کر رکھیں اور عید کریں گے کیونکہ یہی رسول اللہ ﷺ کا حُکم ہے۔
شرح امام ترمذی اور امام نووی نے اسلئے فرمایا: ہر علاقہ کے لوگوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہے۔ ہر مُلک اپنے اپنے وقت میں روزہ رکھے۔
تراویح کی نماز
عورت و مرد پر 20 رکعت پڑھنا’’سنت موکدہ‘‘ ہے۔ جس کو چھوڑنے والا گناہگار ہے۔ اگر روزہ ’’مجبوری‘‘ سے نہیں رکھا گیا تو تراویح پھر بھی’’ ضروری‘‘ ہے۔ اگر’’تراویح‘‘ کسی وجہ سے نہیں پڑھی گئی تو ’’روزہ‘‘ رکھنا پھر بھی ضروری ہے۔
عام آدمی تراویح کی نماز اپنے حالات، کام، Job یا پیشہ دیکھتے ہوئے گھر میں بھی ’’چھوٹی چھوٹی سورتیں ‘‘ملا کرپڑھ سکتا ہے کیونکہ جماعت سے ’’تراویح‘‘ کی نماز ’’سنت علی الکفایہ‘‘ ہے یعنی محلے میں سے ایک بھی ’’جماعت‘‘ سے پڑھ لے گا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔
آٹھ تراویح یا تہجد
1۔ حضورﷺ نے رمضان کی راتوں میں ”قیام“ فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی ”من قام رمضانا“ فرما کر، ایمان اور ثواب کی نیت سے ”قیام“ کرنے کی ترغیب دی۔ اسلئے ہر ایک صحابی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قیام (کھڑا ہو کر عبادت) فرماتا۔ البتہ تراویح کی کوئی جماعت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ”من قام رمضانا“ کو تراویح کا نام دیا گیا جیسے:
صحیح بخاری 2012، ابو داود 1373: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نصف شب کے وقت باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور بہت سے لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت صحابہ نے دوسرے صحابہ سے اس کا تذکرہ کیا تو دوسرے روز اور زیادہ صحابہ نے آپ ﷺ کی اقتداء میں قیام کیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے مزید چرچا کیا۔ چنانچہ مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات اور بڑھ گئی۔ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی (کثیر تعداد میں) لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ صبح کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر شہادت توحید و رسالت کے بعد فرمایا: اما بعد! تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح (قیام) فرض ہو جائے اور تمہارے اس (فرض کی ادائیگی) سے عاجز آ جانے سے ڈر گیا۔ نبی اکرم ﷺ کے وصال تک معاملہ اسی طرح رہا۔
2۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے ہر رمضان میں انفرادی طور پر قیام کیا مگر جماعت تین دن سے زیادہ رسول اللہ ﷺ ثابت نہیں۔ اسلئے لوگ کبھی سونے کے بعد اُٹھ کر قیام کرتے اور کبھی سونے سے پہلے قیام کرتے یا ساری ساری رات قیام کرتے، حتی کہ سیدنا عمر فاروق کا زمانہ آگیا اور اس قیام کا نام تراویح پڑ گیا اور جماعت سے نماز ادا ہونے لگی۔
صحیح بخاری 2010: حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر فاروق کے ساتھ رمضان المبارک کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں ایک گروہ کسی امام کی پیروی میں نماز پڑھ رہا تھا۔ سیدنا عمر نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں اگر ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا عزم کر لیا اور پھر حضرت ابی بن کعب کی امامت میں سب کو جمع کر دیا۔ پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ ایک امام کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے! مگر جو لوگ اس وقت (نمازِ تراویح ادا کرنے کی بجائے) سو رہے ہیں (تاکہ وہ پچھلی رات اُٹھ کر نمازِ تراویح ادا کریں) وہ اس وقت نماز ادا کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے تھے اور (تراویح ادا کرنے ولے) لوگ رات کے پہلے پہر نماز ادا کرتے تھے۔
صحیح بخاری 2013: آٹھ رکعت: ایک صحابی نے سیدہ عائشہ سے پوچھ کہ رمضان المبارک میں حضور ﷺ کی نماز کی کیا کیفیت ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں (بشمول وتر) گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔الخ
صلاۃ تہجد: اہلحدیث حضرات جو صحیح بخاری کا حوالہ دے کر تراویح کی آٹھ رکعتیں ثابت کرتے ہیں، وہ غور کریں کہ یہ روایت امام بخاری نے صرف ”کتاب صلاۃ التراویح باب فصل من قام رمضان“ میں نہیں لکھی بلکہ اس سے پہلے اسی حدیث کو اصلاً ”کتاب التہجد“ میں لکھ چکے ہیں۔ اسلئے امام بخاری کا ان آٹھ رکعتوں سے مراد قیام الیل کی وجہ سے ”رمضان یا غیر رمضان“ میں ”صلاۃ تہجد“ ہے۔
احادیث میں باب باندھنا: امام بخاری نے ”کتاب صلاۃالتراویح“کے نام سے بغیر عنوان کے کتاب بنائی اور نیچے باب ”فصل من قام رمضان“ میں چھ احادیث درج کیں مگر تراویح کی تعداد پر کوئی علیحدہ باب قائم نہیں کیا کیونکہ ان کو حضورﷺ سے تراویح کی تعداد پر کوئی حدیث نہیں ملی۔ اسلئے یہ حدیث تراویح کی آٹھ رکعتوں پر نہیں ہے بلکہ رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کے نماز تہجد کے بارے میں ہے۔ ان گیارہ رکعتوں میں 8 رکعتیں امام بخاری مذکورہ حدیث کو باب’فصل من قام رمضان“ میں اس وجہ سے لائے ہیں کہ نبی کریمﷺ پورا سال پابندی سے تہجد پڑھتے تھے۔ دوسری طرف امام مسلم نے اس حدیث کو ”کتاب صیام“ میں نہیں لکھا بلکہ اسے باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ درج کرکے سمجھایا کہ اس حدیث سے مراد نماز تراویح نہیں بلکہ نماز تہجد ہی ہے۔
تراویح: تہجد کی نماز کسی نے بھی جماعت سے نہیں کروائی جبکہ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور میں نمازِ تراویح کی باقاعدہ جماعت کروائی۔ اسلئے نماز تراویح علیحدہ ہے اور تہجد علیحدہ ہے۔
جواب مکمل: سیدہ عائشہ سے سوال رمضان المبارک میں حضورﷺ کی کیفیت کا تھا اورآپ نے جواب دیا کہ تراویح کی نماز کے باوجود حضورﷺ یہ آٹھ رکعتیں ضرور ادا کر تے تھے۔ نمازِ تہجد کو رمضان میں نماز تراویح قرار دینے والوں کا خیال اسلئے بھی غلط ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز تراویح کی جماعت صرف تین راتوں میں کرائی ہے جبکہ آپﷺ نے نماز تہجد کی باقاعدہ جماعت کبھی نہیں کرائی۔ آپ ﷺ تہجد کی نماز گھر پڑھنے کا فرماتے کیونکہ گھر میں پڑھنے کی زیادہ فضیلت ہے۔
حضورﷺ کا قیام: ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ روزے رکھے لیکن آپ ﷺ نے ہمیں نمازِ (تراویح) نہ پڑھائی، جب رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی 23 ویں رات آئی) تو آپ ﷺ ہمیں (نماز پڑھانے کے لیے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات قیام نہ فرمایا اور پچیسویں رات کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش آپ رات کا بقیہ حصہ بھی ہمیں نماز پڑھاتے (ہمارے لئے باعثِ سعادت ہوتا)، آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص امام کے ہمراہ (نماز کے لیے) سلام پھیرنے تک کھڑا ہو اس کے لیے پوری رات قیام (کا ثواب) لکھا جاتا ہے، پھر آپ ﷺ نے نمازِ تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ تین دن باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے ستائیسویں شب کو نماز پڑھائی، آپ ﷺ نے اپنے اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کو بھی بلایا، آپ ﷺ نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں فلاح (کے چھوٹ جانے) کا خوف ہوا۔ (جبیر بن نفیر کہتے ہیں)میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سحری۔(ابو داود 1375، ترمذی 806، نسائی 1364)
20 رکعت: تین دن کا قیام دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتنے مخلصانہ انداز میں عبادت ہوتی تھی۔ کیا ہر جماعت اتنا قیام کرتی ہے، اگر نہیں تو رکعت پر نہ لڑے بلکہ قیام زیادہ کرنے پر لڑے۔ حضور ﷺ سے قیام ثابت ہوا اور رکعتیں صحابہ کرام سے ثابت ہوئیں۔ اسلئے اہلسنت ما انا علیہ و اصحابی کے قانون پر 20 رکعت ادا کرتے ہیں۔
شب قدر
سورۃ القدر میں لیلتہ القدر کی پہچان کروائی گئی ہے کہ ماہِ رمضان کی یہ رات84 سال کی عبادت سے بہتر ہے کیونکہ قرآن اور رمضان کا گہرا تعلق ہے۔ اللہ کریم کے حُکم سے ہر سال اس رات میں طلوع فجر تک حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور دیگر فرشتے عبادت کرنے والوں کیلئے بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔ ابن ماجہ حدیث 1644: جو لیلتہ القدر کی خیر سے محروم رہا وہ ہر طرح کی خیر سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔
کتاب فضل لیلتہ القدربخاری حدیث2014: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔ بخاری 2023: حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کیا، پس اس کا علم اُٹھا لیا گیا، اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (راتوں) میں تلاش کرو۔
یہ رات21، 23، 25، 27، 29میں بدل بدل کر آتی ہے کیونکہ بخاری حدیث 2015: نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تو فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں، اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے اور بخاری 2024: حضور ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
لیلتہ القدر مختلف راتوں میں
ابوداود 1382کی حدیث ہے کہ 20 تاریخ کی صبح کو حضور ﷺ اعتکاف سے نکلے، فرمایا مجھے لیلتہ القدر دکھائی گئی لیکن بھلا دی گئی۔۔البتہ میں نے یہ بھی خواب میں دیکھا کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔۔اسلئے اعتکاف میں ابھی رہو، صحابی کہتے ہیں کہ بارش ہوئی، حضور ﷺ نے سجدہ کیا تو وہی خواب 21کی رات کو پورا ہو گیا یعنی 21ویں رات لیلتہ القدر کی تھی۔
23ویں رات: ابوداود 1379 اور 1380کے مطابق عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ نے فرمایا کہ 23ویں رات لیلتہ القدر کی ہو گی۔
27ویں رات: ابوداود 1378میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا کہ رات رمضان کی 27ویں رات ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ سورج بغیر کرنوں کے طشت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح ابوداود 1386 میں بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر 27ویں رات ہے۔
شب قدر کی دعا: ترمذی 3513 میں ہے کہ لیلتہ القدر کی رات الھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی پڑھو یا اردو میں پڑھو کہ اے اللہ!بے شک تو معاف فرمانے والا، کرم کرنے والا ہے، تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔
کم سے کم عبادت: رمضان میں روزہ رکھ کرعشاء با جماعت اور فجر با جماعت، تراویح اور تہجد ادا کرلیں تو لیلتہ القدر میں سے حصہ مل جائے گا مگر علماء کو نہیں ملے گا کیونکہ یہ سب آپس میں لڑے ہوئے ہیں، اسلئے مذہبی عوام اور علماء کی عبادتیں رائیگاں جا رہی ہیں۔
اعتکاف
1۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم تھا کہ طواف، اعتکاف، رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے اللہ کریم کا گھر صاف رکھیں (البقرہ 125) اور البقرہ 187: اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت جائز نہیں“۔ اسی آیت کی وجہ سے مفسرین کہتے ہیں کہ عورتیں مساجد میں اعتکاف نہیں کریں گی۔ اسکی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ بخاری 2033 – 34: حضور ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے بھی اعتکاف کی اجازت مانگی اور جب حضور ﷺ اعتکاف کے لئے اپنی جگہ آئے تو بہت سی ازواج (بیویوں) کے خیمے لگے تھے تو آپ ﷺ نے اعتکاف ہی نہیں کیا۔
اعتکاف: اعتکاف کے فضائل کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور ﷺ نے وصال تک ہر رمضان میں اعتکاف کیا (بخاری 2026) اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا (ابن ماجہ 1781) اعتکاف کے متعلق احادیث کے لئے باب الاعتکاف، صحیح بخاری کی 2025 – 2046تک مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ضروری مسائل:اعتکاف ”سنت موکدہ علی الکفایہ“، نیت اعتکاف اللہ کی رضا کو پانے کی، 20واں روزہ مسجد میں کھولنا اور عید کا چاند نظر آنے پر مسجد چھوڑ دینا،محلے کی مسجد میں ایک بندے کا اعتکاف سب کو گناہ گار ہونے سے بچاتا ہے۔اعتکاف کی شرائط (۱) اعتکاف کی نیت سے (۲) عقلمند(۳) مسلمان کا(۴) روزہ رکھ کر(۵) مسجد میں اور عورت کا اپنے (۶)گھر میں بیٹھنا۔
اسلئے بغیر کسی وجہ کے مسجد سے باہر نکلنا یا ٹھرنا، حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا، عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہوجانا وغیرہ سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ مرد کو مسجد میں غسل کی حالت ہو تو اپنے پاس اینٹ کا ٹکڑا رکھ لے تاکہ اُسی وقت تیمم کر لے اور پھر غسل خانے میں جا کر غسل کر لے۔وضو کا شک ہو کہ ہے یا نہیں تو شک دور کرے اور جب تک یقین نہ ہو وضو خانے میں نہ جائے۔ گرمیوں میں جسم سے پسینے کی بدبو یا کھجلی ہونے پر نہا سکتا ہے۔
اعتکاف جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو جس دن توڑا اس سے آگے بقیہ دنوں کی قضا کرے گا اور اعتکاف کی قضا میں ”روزہ“ بھی رکھے گا۔ البتہ ایک دن کے اعتکاف کی قضا یہ ہے کہ طلوع فجر سے پہلے اعتکاف گاہ میں روزہ رکھ کر داخل ہو اور اسی روز شام کو غروب آفتاب کے وقت اپنے اعتکاف گاہ سے باہر آ جائے۔اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو شام کو غروب آفتا ب سے پہلے مسجدمیں داخل ہو، رات بھر وہاں رہے، روزہ رکھے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔
جائز: ہر وہ عمل جو (۱) شریعت (۲) مسجد کے آداب (۳) اخلاقیات (۴) انسانیت (۵) روحانیت (۶) اعتکاف کی شرائط کے خلاف ہو ایک معتکف کو نہیں کرنا اور باقی سب جائز ہے۔
لیلتہ الجائزہ: چاند رات کو لیلتہ الجائزہ بھی کہا جاتا ہے؛ ابن ماجہ 1782:”جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے عبادت کرے گا تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے“۔
صدقہ فطر (فطرانہ)
1۔ صدقہ فطر کا مقصد روزوں کے دوران ہونے والی بے ہودہ باتیں یا بُرے اعمال کا کفارہ بن کر روزوں کو پاک صاف کرنا ہے اور جن کو زکوٰۃ لگتی ہے اُن مسلمانوں کو نماز عید سے پہلے یا عید سے پہلے بھی دے کر اُن کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ حدیث 1827 ابوداؤد حدیث 1609 صحیح بخاری 1511) البتہ جانوروں اور کافروں کو زکوٰۃ اور فطرانہ نہیں لگتا۔
2۔ اگر کوئی مسلمان روزہ نہیں رکھتا تب بھی فطرانہ دے گا بلکہ ہر کمائی کرنے والا بالغ عورت اور مرد اپنا فطرانہ خود دیں گے اور نابالغ، نومولود یا معذور کا فطرانہ گھر کا سربراہ دے گا۔ (بخاری 1503 اور مسلم 983)
3۔ ابوداود 1620: حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ہر ایک چھوٹے بڑے اور آزاد وغلام کی طرف سے ایک "صاع” جو یا کھجور بطور صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
4۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جَو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع صدقۂ فطر دیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے گیہوں سے صدقۂ فطر نکالنے کے سلسلہ میں ان سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقۂ فطر میں آدھا صاع دیا جائے، چنانچہ لوگوں نے اسی کو معمول بنا لیا۔ (بخاری 1508) امام نووی مسلم کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اسی حدیث کی بنیا د پر حضرت امام ابوحنیفہ اور دیگر فقہاء نے گیہوں سے آدھے صاع کا فیصلہ کیا ہے۔
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ضروری قرار دی۔ صحابۂ کرام نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ (بخاری 1507)
6۔ اکثر علماء کے قول کے مطابق جو یا کھجور یا کشمش کا ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین کیلو) یا گیہوں کا نصف صاع (تقریباً پونے دو کیلو اور احتیاطاً دو کلو) یا اسکی قیمت صدقۂ فطر میں ادا کرنی چاہئے۔ صدقہ فطر صرف ان اجناس (گندم کا آٹا، چاول، جو کا آٹا، کھجور، منقیٰ اور پنیر) سے ادا کرنا چاہیے جو بطور خوراک زیر استعمال ہوں۔ البتہ روپے پیسے یا چاندی وغیرہ کی صورت میں بھی فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے اس میں غریبوں کا فائدہ ہے۔
شوال کے 6 روزے
شو ال میں چھ نفلی روزوں کا’’ ثوا ب‘‘ پو رے سا ل کے روزے رکھنے کے برابر ہے مگر یہ روزے عید کے دوسرے دن رکھنا لا زمی نہیں بلکہ شوال کے شروع،درمیان اور آخر جب مرضی رکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں تراویح کی نمازنہیں ہوتی ہے بلکہ احادیث پر عمل کرنے سے روحانی خوشی (عید) ہوتی ہے ۔جس کے’’ فر ض‘‘ روزے قضا ہوں وہ پہلے ’’فرض‘‘ روزوں کی’’ قضا‘‘ کرے پھر’’ نفلی روزے‘‘ رکھے تو ’’قبول‘‘ ہوتے ہیں۔
صحیح مسلم 1164، ترمذی 759، ابوداود 2433، ابن ماجہ 1716، سنن دارمی 1754، مسند احمد میں مختلف الفاظ کے ساتھ حضور ﷺ کا فرمان ہے ”جس نے رمضان کے روزے رکھے اُس کے بعد شوال کے 6 روزے رکھے گویا اُس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general