موبائل معافی نامہ
کسی کو شب برات پرمیسج بھیج کر کہنا کہ آج رات معافی کی رات ہے تو میرے گناہ معاف کر دینا، اگر میں نے دانستہ یا نادانستہ کئے ہوں۔ اُس میں ایک صحیح بخاری 6477 حدیث یاد رکھیں:
بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں، یعنی بغیر سوچے سمجھ، جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گر پڑتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے۔“
واقعہ: عرب میں کچھ ڈاکو جب قافلہ لوٹتے تو قافلے والوں کی گردن پر تل و ا ر رکھ کر کہتے کہ کہو کہ یہ مال ہم نے تمہیں ہدیہ دیا ہے، تحفہ کر دیا ہے، جب وہ منہ سے کہہ دیتے تو ڈاکو کہتے ہیں کہ اب یہ مال ہمارے لئے جائز ہوا۔
خلوص کے ساتھ معافی مانگنا بہت بڑی بات ہے اور معافی مانگنے کے بعد دوبارہ وہ غلطی نہ کرے اور تعلق نہ توڑے بلکہ جس محبت کے ساتھ پہلے دوستی و رشتہ تھا، اُسی محبت کے ساتھ دوبارہ رشتے میں مضبوطی لائے۔
مجھ سے ایک غلطی ہو گئی تو میں نے اپنے دوست کو عرض کیا کہ میں معافی مانگتا ہوں لیکن اُس کے بعد میں نے اُس سے ملاقات کرنی بند نہیں کی لیکن یہ کہتا رہا کہ میری شرمندگی جاتی نہیں ہے جس پر وہ مجھے تسلی دیتا رہا حتی کہ میرے دل سے غلطی کیا خیال نکل گیا اور تعلقات دوبارہ اُسی ڈگر پر آ گئے۔
اس لئے معافی کا مطلب ہے کہ جس کے آپ نے جذبات مجروح کر کے اُس پر ظُلم کیا ہے تو آپ اب اُس سے محبت کر کے وہ زخم مندمل کریں گے، اُس کا یہ مطلب نہیں کہ معافی مانگی اور تعلق توڑ لیا بلکہ یہ سمجھا کہ اب دوبارہ غلطی نہ ہو اسلئے ملنا ہی نہیں چاہئے بلکہ اُس زخم کو اپنی محبت سے بھرنا چاہئے۔
اسلئے جُرم کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کا بھی ہو سکتا ہے، کسی کو مالی نقصان پہنچانے کا بھی ہو سکتا ہے، کسی کی عزت لُوٹنے کا بھی ہو سکتا ہے، کسی کے کردار کو داغدار کرنے کا بھی ہو سکتا ہے، اس کی بہت سی قسمیں ہیں اور بعض اوقات بہت سے انسان اپنی طبعیت کی شرارت سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں مگر خود ان کو سمجھ نہیں ہوتی۔
سوال: آپ اپنا تزکئیہ نفس کرنے کے لئے خود سے سوال کریں کہ آپ کی ذات سے کوئی خوش ہے اور اگر ہے تو کیوں؟ دنیا کے لئے یا دین کے لئے؟ اس سے آپ کو خود اپنی شخصیت کا اندازہ ہو گا کہ آپ دنیادار ہیں یا دیندار۔
اللہ کریم سے معافی مانگنا مشکل ہے کیونکہ اللہ کریم سے معافی مانگنے کا مطلب ہے کہ میں تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی پورے کروں گا، اس کے لئے مسلمان فنا ہو جاتا ہے، پھر کسی سے حق مانگتا نہیں بلکہ حق دینے کی کوشش کرتا ہے۔
سورہ فرقارن 70: مگرجو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اللہ کریم جب کسی کے گناہ معاف کر دیتا ہے تو اُس کی برائیوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے مگر بخشش اور توبہ کی علامت یہی ہے کہ پھر گناہ نہیں نیک اعمال کرے گا۔
اگر آپ نے کسی سے معافی مانگی اور اُس نے کہہ دیا جا تجھے معاف کیا تو اُس جُرم کا حساب وہ کل قیامت والے دن بھی نہیں مانگ سکتا، یہ تو اُس معاف کرنے والے کی شان ہے کہ اُس نے رسما معاف نہیں کیا بلکہ دل سے معاف کیا ہے، اسی طرح جس نے رسما معافی مانگی لیکن دل سے نہ مانگی تو اللہ کریم اُس کو معاف نہیں کرے گا چاہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اس نے معاف کر دیا۔
اللہ کریم ہمیں اللہ واسطے اپنے تعلقات نبھانے کی توفیق دے اور اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق دے۔
علماء: اسی طرح دیوبندی اور بریلوی علماء کو معافی مانگنی ہو گی جنہوں نے اہلسنت کو دو دھڑوں میں تقسیم کیا ہوا ہے اور عوام کو بتانا ہو گا کہ دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک ہے، دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ عوام دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر عمل کرے جس میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔
اسی طرح اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء کو ایک عقیدے اور ایک قانون پر اکٹھا ہونا چاہئے، یہ نہیں کہ ایک سرکاری طور پر حنبلی مقلد اور دوسرا غیر مقلد۔ دونوں کو فرق مٹا کر امت کو بتانا ہو گا کہ اہلسنت علماء کرام کی تعلیم میں بدعت و شرک کسطرح ہے اور کس کتاب میں بتایا گیا ہے۔
اہلتشیع حضرات کا عقیدہ 14 اور 12 کا ختم نبوت کے خلاف ہے، دوسرا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک ہے، اہلتشیع گمراہ گر اور سازشی دین ہے جو اسلام کے خلاف ایجاد کیا گیا ہے۔ ان کی عوام کی برین واشنگ ہوئی ہے، اسلئے سیدنا ابوبکر کو فدک کے چور نعوذ باللہ، سیدنا عمر کو سیدہ کا قا تل اور نہ جانے کیا کیا الزام لگاتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ تینوں خلفاء کے فضائل جو نبی اکرم نے بیان کئے جیسے حضور نے اہلبیت کے بیان کئے ان کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ان کو اہلسنت عقیدے پر آنا ہو گا۔
اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اگر وہابی اور اہلحدیث ایک ہو کر، چاہے حنبلی ہوں یا غیر مقلد ہوں، اہلسنت سے مذاکرات کر لیں تو دین کو فائدہ ہو گا ورنہ 100 سالوں میں جو سیاست ہو رہی ہے اُس کا انجام لبرلز، سیکولر، غیر مسلم اور دیگر جماعتوں کا پروموٹ ہونے سے نکل رہا ہے۔