صف بندی قُرب خداوندی
1۔ اللہ کریم فرماتا ہے: ’’اور (سب لوگ) آپ کے رب کے حضور قطار در قطار پیش کیے جائیں گے۔‘‘ (الکہف) قسم ہے قطار در قطار صف بستہ جماعتوں کی۔ پھر بادلوں کو کھینچ کرلے جانے والی یا برائیوں پر سختی سے جھڑکنے والی جماعتوں کی۔ پھر ذکر الٰہی (یا قرآن مجید) کی تلاوت کرنے والی جماعتوں کی۔ (الصافات)
اور یقینا ہم تو خود صف بستہ رہنے والے ہیں۔ اور یقینا ہم تو خود (اللہ کی) تسبیح کرنے والے ہیں۔ (الصافات) بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو اُس کی راہ میں (یوں) صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ (الصف) جس دن جبرائیل (روح الامین) اور (تمام) فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ (النبا) اور آپ کا رب جلوہ فرما ہو گا اور فرشتے قطار در قطار (اس کے حضور) حاضر ہوں گے۔ (الفجر)
صف بندی اور احادیث
صحیح بخاری 719، 725: رسول اللہ ﷺ نے اپنا منہ ہماری طرف کر کے فرمایا: اپنی صفیں برابر کر کے مل کر کھڑے ہو، میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔ اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ (صف میں) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم (پاؤں) اس کے قدم (پاؤں) سے ملا دیتا تھا۔ 721: اگر پہلی صف کے ثواب کو جان لیں تو اس کے لیے قرعہ اندازی کریں۔ 722: نماز میں صفیں برابر رکھو، کیونکہ نماز کا حسن صفوں کے برابر رکھنے میں ہے۔ 723: صفیں برابر رکھو کیونکہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے۔
ابوداود حدیث 666: صفیں درست کرو، کاندھے کے ساتھ کاندھا ملا کر خلا بند کر دو تاکہ شیطان کے لئے جگہ نہ رہے اور آپس میں ملنے کے لئے نرم ہو جاو۔ جو شخص صف کو ملائے گا اللہ کریم اسے ملائے گا، جو کاٹے گا اللہ کریم اسے کاٹے گا۔
صحیح مسلم 972: اگر صفیں سیدھی نہ ہوں تو دلوں میں اختلاف اللہ کریم ڈال دیتا ہے۔ ابو داود 662: عوام کاندھے سے کاندھا، گھٹنے کے ساتھ گھٹنا اور ٹخنے کے ساتھ ٹخنہ ملا کر کھڑے ہو جاتے۔ ابو داود 667: ایک صف دوسری صف کے قریب ہونی چاہئے، اس میں بھی فاصلہ نہ ہو۔ اور رصوا صفو فکم” سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی صفوں کو ملاؤ ورنہ شیطان بکری کے بچے کی طرح صفوں میں گھس آتا ہے۔ ابو داود 671: پہلی صف کو مکمل کرو اگر آخری صف میں نقص رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
مسئلہ: کاندھوں کے ساتھ کاندھے ملے جاتے ہیں مگر ٹخنے ٹخنوں سے نہیں مل سکتے، البتہ ٹخنوں سے ٹخنے ملنے کا مطلب ہے کہ ٹخنے دیکھ کر صف ایک جیسی کر لو، برابر ہو جاو۔
صحیح مسلم 709: صحابہ کرام نبی کریم کے دائیں طرف کھڑا ہونا پسند کرتے۔ صحیح ابن خزیمہ 1564: کیونکہ آپ ﷺ سلام پہلے دائیں طرف کہتے تھے۔ ابو داود 671:پہلی صف کو پورا کرو پھرا س کو جو پہلی کے نزدیک ہے۔ صحیح مسلم 982: ہمیشہ لوگ (پہلے صف سے) پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو (اپنی رحمت میں) پیچھے ڈال دے گا۔ ابن ماجہ 997:بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ نسائی 818: رسول اللہ ﷺ پہلی صف کے لئے تین دفعہ مغفرت کی دعا کرتے تھے اور دوسری صف کے لئے ایک بار۔
صحیح مسلم 972: میرے قریب (صف میں) وہ لوگ رہیں جو بالغ اور عقل مند ہیں پھر جو ان کے قریب ہیں جو ان کے قریب ہیں۔ ابو داود 677: رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے، پہلے مردوں نے صف باندھی، پھرلڑکوں نے اس کے بعد آپ ﷺ نے نماز پڑھائی پھر آپ نے فرمایا : یہ میری امت کی نماز ہے۔ صحیح مسلم 985: مردوں کی پہلی صف سب سے افضل ہے اور آخری صف بدتر ہے اور عورتوں کی آخری صف سب سے افضل ہے اور پہلی بدتر ہے۔ صحیح بخاری 727: سیدنا انس بن مالک نے بتلایا کہ میں نے اور ایک ہمارے گھر میں موجود یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں۔
ابوداود 682: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ (ﷺ) نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ ابن ماجہ 1003: ایک شخص کو اکیلا نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا دوبارہ نماز پڑھو تمہاری نماز نہیں ہوئی۔
مسئلہ: یہ وہ بندے ہیں جو صف چھوڑ کر اکیلے نماز پڑھتے ہوں گے ورنہ صف مکمل ہو تو پچھلی صف میں اکیلے بندے کی نماز ہو جائے گی۔ اگلی صف سے کھینچنے والی تمام روایات ضعیف ہیں لیکن ایک امام اور ایک مقتدی پر قیاس کرتے ہوئے اگلی صف سے آدمی کو ہاتھ لگانا اور اس کا بھی اس بندے کے اشارے پر نہیں بلکہ صف بندی کی نیت سے آنا جائز ہے۔
صحیح بخاری 699: سیدنا عبداللہ بن عباس تہجد کی نماز میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ بائیں کھڑے ہو گے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دائیں طرف کھڑا کیا، اسلئے دو بندے ہوں تو ایک دائیں طرف کھڑا ہو گا۔ اسی طرح صحیح مسلم 3010 میں بھِی آتا ہے کہ سیدنا جابر بائیں کھڑے ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دائیں طرف کھڑا کیا اور جابر بن صخر آئے اور نبی کریم ﷺ کے بائیں کھڑے ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ہم دونوں کو پچھلی صف میں کر دیا یعنی دو بندے ہوں تو ایک امام کے دائیں کھڑا ہو گا اور دوسرا آ جائے تو ایک پیچھے آ جائے یا امام آگے چلا جائے۔
عورتوں کی جماعت: اس دور میں جہاں عورتیں زیادہ ہوں وہاں گھر میں نماز کروالیں۔ سیدہ عائشہ نے فرض نماز پڑھائی اور آپ عورتوں کے درمیان (صف میں) کھڑی ہوئیں۔ (سنن دارقطنی 1429)
ذمہ داری: امام اس وقت تک نماز کی تکبیر نہ کہے جب تک صفیں سیدھی نہ ہوں۔ ابو داود 665: رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو برابر کرتے تھے جب ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے۔ جب صفیں برابر ہوجاتیں تو (پھر) آپ (ﷺ) تکبیر کہتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ احادیث موجود ہیں کہ صحابہ کرام صفیں بنا کر بیٹھے ہوتے رسول اللہ ﷺ اقامت میں جب حیی علی الصلوۃ حیی علی الفلاح کہا جاتا تو تشریف لاتے اور صحابہ کرام کھڑے ہو جاتے مگر اس دور میں خود فیصلہ کر لیں کہ کیا عوام اور امام صفیں سیدھی کرتے ہیں، صحابہ کرام کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں، امام کس وقت آتا ہے۔ باقی یہ ایک مستحب عمل ہے جس پر کوئی لڑائی نہیں اور صفیں سیدھی کرنا واجب ہے