نمازوں کا فدیہ
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان نے نیک اعمال کے ذریعے نہیں بلکہ اللہ کی رحمت سے جنت میں جانا ہے لیکن اللہ کریم کی بندگی نہ کرنے والا مسلمان بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ بندگی کرنا بندگی کی علامت ہے۔
اگر نماز قضا ہو جائے تو یاد آنے پر اسی وقت پڑھ لے۔ مسلمان جب غفلت سے جاگ کر معرفت الہی حاصل کرتا ہے تو پہلے اپنی قضا نمازوں کو ادا کرتا ہے۔
اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ نمازوں کی قضا نہیں ہے، شریعت میں کیا بے نمازی کے لئے سزا ہے یا نہیں؟ سزا ہے تو قضا کیوں نہیں؟ اگر سزا ملتی تو کیا قضا کرتا؟ قضا سے روکنا بھی اس کے لئے سزا ہے۔ اسلئے ہر مسلمان کو نماز ادا کرنی چاہئے یا قضا ادا کرنی چاہئے۔
اگر کسی مسلمان کی نمازیں ادا کرتے ہوئے کچھ نمازیں قضا رہ جائیں تو اہلسنت کہتے ہیں کہ اگر وہ مسلمان امیر ہے اور وصیت کر جائے کہ میری اتنی نمازیں قضا ہیں، ایک نماز کا فدیہ ایک روزے کے فطرانے کے برابر ہے، اسلئے میری نمازوں کا فدیہ دے دینا تو اس کے مال سے نمازوں کا فدیہ دیا جائے اور اس وصیت پر عمل کرنا واجب ہے۔ اگر مرنے والا غریب ہے اور اُس کا کوئی رشتے دار اس کی نمازوں کا فدیہ دینا چاہے تو یہ ایک مستحب عمل ہے، دے تو ثواب ورنہ کوئی گناہ گار نہیں۔
سوال پوچھا گیا کہ کیا حدیث میں نماز کا فدیہ دینا آتا ہے تو اہلسنت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا روزہ باقی ہو تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے“۔(ترمذی 718) اسلئے اس حدیث سے قیاس کر کے فرض نماز کا فدیہ مقرر کیا گیا ہے کہ اگر فرض روزے کا فدیہ ہے تو نماز کا فدیہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ فدیہ وہیں لگے گا جہاں زکوۃ لگتی ہے۔
کوئی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی روزے رکھ سکتا ہے، اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ نماز اور روزے ادا ہی نہیں ہوں گے چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو۔
اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کے بغیر نماز چھوڑ دیتا ہے تو وہ سخت گناہگار ہے اور اس پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں ان نمازوں کو ادا کرے اگر ان کو ادا نہیں کرتا تو شرعا ً اس کے لئے کوئی مالی فدیہ مقرر نہیں۔ لہٰذا جب غفلت سے تنبیہ ہو تو اس کے ازالہ کے لئے قضا ء کرنا شروع کردے پھر اگر ادائیگی مکمل ہونے سے پہلے موت کا وقت آجائے تو فدیہ کی وصیت کردے۔