Sayyidina Ayub A.S (سیدنا ایوب علیہ السلام)

سیدنا ایوب علیہ السلام

انبیاء کرام کا تذکرہ سننے اور پڑھنے سے دنیا سے دل اُٹھ کر آخرت سے لگ جاتا ہے کیونکہ آزمائش سے پُر ان کی زندگی ہوتی ہے اور اس زندگی میں چین نصیب نہیں ہوتا مگر دل کو اطمینان ہوتا ہے۔ انبیاء کرام کے ناموں پر نام رکھنے کی حدیث بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کے نام کی برکات حاصل ہوں گی اور بچہ نبی کے نام کی برکت بھی پائے گا اور اپنے رکھے ہوئے نام کی قدر بھی کرے گا۔
سورہ الانعام 84: اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔
نتیجہ: بے شک نیکیاں کرنے والوں کو اللہ کریم اپنے خزانوں سے خزانے عطا کرتا ہے جیسے سیدنا حضر علیہ السلام اور سیدنا موسی علیہ السلام نے وہ دیوار جس کے نیچے خزانہ تھا، اسلئے سیدھی کی کہ اللہ کریم دو یتیم بچوں کو خزانہ دینا چاہتا تھا کیونکہ ان بچوں کا دادا نیک تھا۔
اے محبوب: ہم نے تمہارے پاس اسی طرح وحی بھیجی ہے جیسے نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کے پاس بھیجی تھی، اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کے پاس، اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کے پاس بھی وحی بھیجی تھی، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔ (سورۃ النساء 163)
نتیجہ: بے شک انبیاء کرام پر وحی ہوتی ہے اور تمام انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں مگر اہلبیت اور صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں بلکہ سب کے اپنے اپنے قرآن و سنت کے اجتہادی فیصلے بھی ملتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں غلط ہو سکتے ہیں مگر ان کی سوچ قرآن و احادیث کے خلاف نہیں ہو سکتی۔
حالات: سیدنا ایوب علیہ السلام ملک شام کی ایک قوم حوران کی طرف مبعوث ہوئے، آپ بے شمار مویشی، لاتعداد نوکر چاکر، زرعی زمینیں رکھتے تھے اور ایک اچھے تاجر بھی تھے جس کے ساتھ ساتھ اللہ کریم نے آپ کو کثیر اولاد عطا فرمائی تھی۔
آزمائش: مقرب بندوں کی آزمائش دوسروں کے لئے مشعل راہ بنتی ہے۔ اسلئے اللہ کریم نے دنیاوی آزمائش کی کہ آپ علیہ السلام کا سب مال ومتاع ختم ہو گیا، تمام اولاد اللہ کریم کو پیاری ہوگئی، تمام مال مویشی ہلاک ہوگئے، آپ شدید موزی مرض میں مبتلا ہوگئے اور آپ کے ملنے والے آپ کا ساتھ چھوڑ گئے صرف آپ کی وفادار بیوی خدمت کے لئے رہ گئیں جو اجرت پر کام کر کے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت کرتی رہی۔
مشہور: یہ باتیں بالکل مستند نہیں ہیں کہ آپ علیہ السلام کو ایسی بیماری تھی جس سے لوگ گھن کھاتے تھے اور آپ کو کچرے میں بٹھا دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نبیوں میں کوئی عیب یا بیماری پیدا نہیں فرماتے جس سے لوگ دور بھاگیں۔ آخر کار وقت آ گیا۔
پُکار:”اور ایوب (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
قبولیت: تو ہم نے انکی دعا قبول کر لی اور جو انکو تکلیف تھی وہ دور کر دی اور ان کو بال بچے بھی عطا فرماۓ اور اپنی مہربانی سے ان کے ساتھ اتنے ہی اور بخشے اور عبادت کرنے والوں کے لئے یہ نصیحت ہے۔” (الانبیاء 83 – 84)
ذمہ دار شیطان:” اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ (اے اللہ!) شیطان نے مجھ کو ایذا اور تکلیف دے رکھی ہے۔
حیلہ: (ہم نے کہا کہ زمین پر) پاوں مارو (دیکھو)، یہ (چشمہ نکل آیا) نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو (شیریں)
واپسی: اور ہم نے ان کو اہل (وعیال) اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بخشے، (یہ) ہماری طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لئے نصیحت تھی۔
اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو، پھر اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔ وہ بہت خوب بندہ تھا، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔” (صؔ، 41 – 44)
روایت ہے کہ اللہ کریم نے ان کی بیوی کو وفاداری اورصبر کے صلے میں پہلے سے کہیں زیادہ جوانی عطا فرمائی یہاں تک کہ پھر ان سے حضرت ایوب علیہ السلام کے چھبیس لڑکے ہوئے۔ جو بیوی کے لئے قسم کھائی تھی اس کا رب کریم نے خود کفارہ بتا دیا، مالک کی مرضی جسطرح چاہے نواز دے۔ ہم کو بھی نواز رہا ہے مگر ہم اپنی نوازشیں کم اور دوسروں کی زیادہ سمجھتے ہیں۔
حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کی حالت میں اپنی بیوی سے ناراض ہو کر قسم کھائی تھی کہ جب صحت یاب ہوجاؤں گا تو بیوی کو سو کوڑے ماروں گا ۔ جب اللہ نے آپ علیہ السلام کو صحت یابی عطا فرمائی تو آپ پریشان ہوئے کہ اتنی وفا شعار بیوی کی وفاداری کا یہ صلہ دینا مناسب نہیں ہے۔ تب اللہ نے ان کے لیے آسانی کا راستہ کھول دیا اور قسم پورا کرنے کے لیے یہ ترکیب بتائی کہ ایک کھجور کا خوشہ لے لو جس میں سو شاخیں ہوں اور تمام کو اکھٹا مارو تویہ کوڑوں کا بدل ہوجائے گا اورقسم پوری ہوجائے گی۔ آپ ؑکی بیوی کا نام لیا بنت مسابن یعقوب علیہ السلام بتایا جاتا ہے ۔
روایت ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن دین پر نہ چلنے والے دولتمندوں پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے، غلاموں پر حضرت یوسف علیہ السلام اور مصیبت زدوں پر حضرت ایوب علیہ السلام کے ذریعے سے اتمام حجت فرماۓ گا یعنی فرمایا جائے گا کہ کیا تم ان سے زیادہ پھنسے تھے کہ دین پر نہ چلتے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general