Waris Aur Wirasatn (وارث اور وراثت)

وارث اور وراثت

سورہ نساء آیت 10 ’’مِمَّا تَرَكَ‘‘ کے مطابق کسی بھی مسلمان عورت و مرد کے مرنے کے بعد وراثت تقسیم ہوتی ہے۔ اولاد اپنے والدین کو زندگی میں مجبور کر کے جائیداد تقسیم کرنے کا حق نہیں رکھتی البتہ والدین اپنی مرضی سے اپنی اولاد یا کسی کو کچھ بھی ہبہ یا تحفہ دے سکتے ہیں۔
اس عطیہ اور ہبہ میں ’’لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے‘‘ والا اصول پیش نظر نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ یہ اصول موت کے بعد میراث یا ترکہ پر لاگو ہوتا ہے۔ زندگی میں اولاد کو عطیہ یا ہبہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو برابر بھی دیا جا سکتا ہے مگر یہ فیصلہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کریں کہ کونسا رشتہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں۔
تقسیم: جائیداد ہمیشہ مرنے کے بعد مرنے والے پر قرضہ ادا کرنے اور جو وصیت کر گیا اس کو پوری کرنے کے بعد تقسیم ہو گی۔
وراثت: قرآن نے مکمل طور پر راہنمائی کر دی ہوئی ہے اور جس کے علم میں نہیں ہے کہ کس کو کتنا حصہ ملتا ہے تو اس کو مفتیان عظام سے پوچھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ کچھ مسائل ایسے ہیں جس کا علم عام عوام کو نہیں ہوتا۔
وراثت میں کچھ جائز حقدار ہوتے ہیں اور کچھ ناجائز حقدار بن جاتے ہیں، کچھ گواہ جھوٹے پڑ جاتے ہیں کہ یہ چیز تو ماں مجھے دے گی تھی اس میں بھائی کا حصہ تو بنتا ہی نہیں۔
اکثر اوقات بیٹیوں کو حصہ نہیں ملتا بلکہ گھناونی سازش کے تحت بہنوں کے نکاح بھی قرآن سے کر دئے جاتے ہیں۔ کچھ بھائی باپ کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں تو وہ چھوٹے بھائیوں کی کفالت کے بہانے ساری دکان ہی ہڑپ کر جاتے ہیں۔
قل و چہلم یا ایصال ثواب کے جتنے بھی طریقے ہیں وہ نہ بھی کریں لیکن اولاد، والدین اور بہن بھائیوں میں جائیداد اصول کے مطابق تقسیم کر دیں، آپ کی بخشش ہونے کے 100 پرسنٹ امکانات ہیں مگر عام و خاص اسطرف دھیان نہیں کرواتے۔ عوام نے نہیں پوچھنا لیکن علماء نے بیان کرنا ہی کرنا ہے۔
احادیث:
صحیح بخاری 2742: ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجۃ الوداع میں) میری عیادت کو تشریف لائے ‘ میں اس وقت مکہ میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ ابن عفراء (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) پر رحم فرمائے۔“ میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں“ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا ”نہیں“ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لیے خرچ کرو گے) تو وہ خیرات ہے ‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے (وہ بھی خیرات ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھی۔
صحیح بخاری 2741: ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا ‘ کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی عبداللہ بن عون سے ‘ انہیں ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی رضی اللہ عنہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے) وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا۔ میں تو آپ کے وصال کے وقت سر مبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے (بجائے سینے کے) کہا کہ اپنے گود میں رکھے ہوئے تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی کا) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سر مبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو وصی کب بنایا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general