قیدی قانون و اصول
جب بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا تو سیدنا ابوبکر نے مشورہ دیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیتے ہیں اور فدیے سے سازو سامان خرید سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے قیدی مسلمان ہو جائیں۔ سیدنا عمر کا مشورہ تھا کہ کفرکے امام ہیں ان کو مار دیا جائے تو قرآن سیدنا عمر کے حق میں نازل ہوا جس کا مفہوم یہ ہے کہ "کسی نبی کے لائق نہیں کہ قیدیوں کو چھوڑ دے اور دنیا کا سامان چاہے، اگر اللہ کریم کی طرف سے پہلے ہی لکھا نہ ہوتا تو تم کو اس فدیہ لینے پر عذاب آ پکڑتا” (الأنفال 67 و صحیح مسلم 4588 )
اس سے ایسا لگتا ہے جیسا کہ نبی کریم کے خلاف قرآن ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ کریم نے نبی کریم کو علم سکھایا۔ اسلئے ایک آیت پڑھ کر نہیں بلکہ دیگر آیات پڑھکر فیصلہ کرتے ہیں جیسے سورہ محمد آیت 4 کا مفہوم ہے: "اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جو اسلام کے مخالف ہیں تو ان کی گردنیں مارو، طاقت کُچل دو، پکڑ لو، پھر چاہے احسان کر کے چھوڑ دو ، یا فدیہ لے کر”۔
نتیجہ: مسلمانوں کو ہر طرح سے فیصلہ کرنا ہے جو اسلام کے حق میں ہو، خود کو مضبوط کرنا بھی ہو اور مخالفین کو کمزور کرنا بھی ہو، ان پر احسان کر کے ان کو مسلمان کرنا بھی ہو اور اس کے اثرات بھی ہوئے مگر مختلف واقعات بھی سامنے آئے۔
ان قیدیوں کا فدیہ مختلف تھا، چنانچہ مالدار سے چارہزار درہم لیے گئے۔ ان میں ابو وَداعہ بھی شامل تھا۔ (مجمع الزوائد، طبرانی) ابووداعہ کا تاوان چار ہزار درہم اس کے بیٹے نے بھرا۔ "اس دن مشرکین کا تاوان فی کس ایک ہزار سے چار ہزار درہم تک تھا۔ سوائے ان افراد کے جن کے پاس کچھ نہ ہوتا، ان پر رسول اللہ ﷺ نے احسان کیا۔” (ابن ہشام ،المصنف عبد الرزاق،ابو داود 2691)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ایک سو اوقیے اور عقیل بن ابی طالب سے اسی اوقیے وصول کیے گئے۔ عقیل کا فدیہ بھی حضرت عباس نے دیا۔ دوسرے لوگوں سے صرف چالیس چالیس اوقیے وصول کیے گئے۔ (دلائل النبوة لأبي نعيم: 2/477،476۔ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق یہ سند حسن ہے)
رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کے بیٹے عمرو کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت سعد بن نعمان بن اَکال کو چھوڑ دیں جنھیں ابوسفیان نے عمرہ کرتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔( السيرة النبوية لابن هشام)
بدر کے قیدیوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو فدیہ دینے کی گنجائش نہیں رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا فدیہ یہ مقرر فرمایا کہ وہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ ایک دن ایک بچہ روتا ہوا اپنے باپ کے پاس آیا۔ باپ نے پوچھا: "تجھے کیا ہوا؟” بچہ کہنے لگا: "مجھے میرے استاد (قیدی) نے مارا ہے۔” باپ کہنے لگا: "وہ خبیث بدر کے بدلے لیتا ہے! اللہ کی قسم ! تو کبھی اس کے پاس نہیں جائے گا۔” (مسند احمد 2216)
رسول اللہ ﷺ کی بیٹی سیدہ زینب نے اپنے شوہر ابوالعاص بن ربیع کے فدیے میں اپنا ہار بھیجا۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ ہار واپس کردیا اور ابو العاص بن ربیع کو بغیر فدیہ رہا کردیا۔(سیرت ابن هشام) جو لوگ کسی قسم کا فدیہ نہ دے سکے انھیں بھی رسول اللہ ﷺ نے کسی نہ کسی طریقے سے رہا کردیا۔ ان میں مطلب بن حنطب مخزومی، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزّہ شاعر شامل تھے۔(سیرت ابن ہشام)
بہت ممکن تھا کہ سب قیدی بغیر کسی فدیے یا معاوضے کے چھوڑ دیے جاتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: "اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے متعلق بات کرتے تو میں ان کے لیے انھیں چھوڑ دیتا ۔” ((صحيح بخاری 4024)
دراصل مطعم کے رسول اللہ ﷺ پر احسانات تھے۔ جب آپ طائف سے واپس تشریف لائے تھے تو مطعم بن عدی ہی کی پناہ اور حفاظت میں مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ اسی طرح بائیکاٹ کی قرار داد چاک کرنے میں بھی انھوں نے سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
جب کچھ انصار نے حضرت عباس کو فدیہ لیے بغیر چھوڑ دینے کی اجازت چاہی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! تم ایک درہم بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ (صحيح بخاری 4018) سیدنا عباس نے جب کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو بتا دیا تھا کہ تمھاری بیوی ام الفضل اور تم نے اپنے دروازے کی دہلیز کے نیچے بہت سامال دفن کیا تھا (لہٰذا اس سے فدیہ ادا کرو۔) حضرت عباس نے یہ بات تسلیم کی تھی۔(مسند احمد 3310)
بدر سے مدینہ منورہ واپس آتے ہوئے نضر بن حارث کو "صفراء” اور عقبہ بن ابی معیط کو "عرق الظبیہ” کے علاقے میں مار دیا گیا۔ (سیرت ابن ہشام) اتنے قیدیوں میں سے ان دو کے ساتھ اس سلوک کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے سخت دشمن تھے۔ جھوٹی بہادری اور مصنوعی شجاعت کی انتہا دیکھیے کہ جب عقبہ کو مارنے لگے تو یہ یہودی الاصل شخص، جو قریش کا دُم چھلّا تھا، گڑگڑا نے لگا اور آپ ﷺ سے رحم و معافی کی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگا: "اے محمد! میرے بچوں کو کون سنبھالے گا؟” آپ ﷺ نے فرمایا: (اَلنَّار) "آگ۔” ((المعجم الكبير للطبرانی 12154)
باقی قیدیوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے حسنِ سلوک کا حکم دیا ۔((مجمع الزوائد) حضرت مصعب بن عمیر کا سگا بھائی ابو عزیز بھی قیدیوں میں شامل اور انصار کی تحویل میں تھا۔ وہ بیان کرتا ہے: "مجھے گرفتار کرنے والے جب صبح اور شام کا کھانا کھاتے تو مجھے روٹی کھلاتے اور خود کھجوروں پر گزارہ کرلیتے (مدینہ منورہ میں روٹی بہت مہنگی تھی۔ کھجوریں سادہ خوراک تھی۔) یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی بنا پر تھا۔ جس کے ہاتھ بھی روٹی آتی وہ مجھے لا کر دے دیتا۔ مجھے اکیلے کھاتے ہوئے شرم آتی تو میں وہ روٹی اسے واپس کردیتا مگر وہ اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا اور مجھے زبردستی دے دیتا۔” (سیرت ابن ہشام)
مسلمان: ان قیدیوں میں سے اکثر فتح مکہ سے قبل اور بعد، مختلف اوقات میں مسلمان ہوگئے۔ ان میں سے چند یہ ہیں: سیدنا عباس، عقیل بن ابی طالب، نوفل بن حارث بن عبدالمطلب، خالد بن ہشام، عبداللہ بن سائب، مطلب بن حطب بن حارث، ابووداعہ حارث بن صبیرہ حجاج بن حارث بن قیس، عبد اللہ بن ابّی ابن خلف، وہب بن عمیر، سہیل بن عمرو، عبد بن زمعہ، قیس بن سائب اور نسطاس مولیٰ امیہ بن خلف۔ (الروض الانف، وعيون الاث، الإصابة، الاستيعاب اور أسد الغابة)
واقعہ: سہیل بن عمرو کا نچلا ہونٹ پیدائشی طور پر کٹا ہوا تھا۔ حضرت عمر رسول اللہ ﷺ سے کہنے لگے: "اللہ کے رسول! اس کے نچلے سامنے کے دو دانت نکلوا دیجیے۔ اس طرح بات کرتے وقت اس کی زبان باہر نکل آیا کرے گی اور یہ کسی جگہ آپ کے خلاف تقریر نہیں کرسکے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں مثلہ نہیں کروں گا۔ اگر میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ میرا بھی مثلہ کرے گا۔(ابن ابی شیبتہ 206) دوسرا رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا تھا: "ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے مقام و مرتبہ پر پہنچ جائے جو آپ کو برا نہ لگے گا۔ (سیرت ابن ہشام)
نبیِ کریم ﷺ فوت ہوئے تو مکہ والے بد دل سے ہوئے تو یہ سہیل بن عمرو کعبہ کے پاس کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: "جو شخص حضرت محمدﷺ کو معبود سمجھتا تھا تو وہ سن لے کہ حضرت محمد ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ معبود ہے تو پھر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لیے زندہ ہے، وہ کبھی فوت نہیں ہوگا۔” (خصائص الكبرٰى،مستدرك حاكم)
مکہ پاک میں یہ خطبہ اسطرح دیا گیا جیسے مدینہ منورہ میں سیدنا ابوبکر صدیق نے دیا تھا اور لگتا تھا کہ انھوں نے وہ خطبہ سنا ہوا ہے۔ جب حضرت عمر کو اس خطبے کی اطلاع پہنچی تو انھوں نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے وہ حق ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا تھا کہ امید ہے یہ ایک مرتبے پر پہنچ جائے گا جسے تم ناپسند نہیں کرو گے۔”(سبل الهدٰى والرشاد)
سیدنا حارثہ بن سراقہ ایک لڑائی میں شہید ہو گئے تو ان کی والدہ آپ ﷺ کے پاس آئیں اور ان کے انجام اور ٹھکانے کے بارے میں پوچھنے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں خوشخبری دی کہ بلاشبہ وہاں کئی جنتیں ہیں اور تمھارا بیٹا جنت الفردوس میں گیا ہے۔ (صحيح بخاری 3982)
حضرت حاطب بنے رسول اللہ کا ایک راز فاش کیا تو سیدنا عمر نے ان کو مارنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ نے فرمایا: ” عمر! تجھے کیا علم؟ شاید اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو عرش پر سے جھانک کر کہہ دیا ہو: جو چاہو کرو، تمھارے لیے جنت واجب ہوچکی یا میں تمھیں معاف کر چکا ہوں۔” (صحیح بخاری 3983) جب حاطب کے ایک غلام نے کہا: "اللہ کے رسول ! حاطب ضرور آگ میں جائے گا۔” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تو جھوٹ بولتا ہے۔ وہ کبھی آگ میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ بدر اور حُدیبیہ میں شریک ہوا ہے۔” (صحيح مسلم2495)
مشہور منا فقین: مدینہ منورہ کے مشہور منا فقین زید بن اللّصیت، رافع بن حریملہ، رفاعہ بن زید بن تابوت، سوید بن حارث، سعد بن حنیف، نعمان بن اوفی بن عمرو، اس کا بھائی عثمان بن اوفی، سلسلہ بن یرہام اور کنانہ بن صوریا۔ مشرکین مدینہ میں سے عبد اللہ بن ابّی کے علاوہ معروف منافقین یہ تھے: زویٰ بن حارث،جلاس بن سوید، اس کا بھائی حارث بن سوید ، نبتل بن حارث، مربع بن قیظی اور اس کا بھائی اوس بن قیظی، حاطب ابن امیہ بن رافع، بشیر بن اُبیرق اور ابو طعمہ اور قزمان۔
ان میں سے کچھ مسلمان بھی ہوگئے اور خوب چمکے اور دوسرے نفاق ہی پر فوت ہوئے۔