Abdullah Bin Abi Salool (عبداللہ بن ابی بن سلول)

عبداللہ بن ابی بن سلول

اہلکتاب سیدنا عیسی علیہ السلام اور سیدنا موسی علیہ السلام پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں حالانکہ اصل مسئلہ تعلیم کا ہے جو اہلکتاب کے پاس نہیں ہے۔اسیطرح اہلتشیع حضرات رسول اللہ ﷺ اور مولا علی پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں اور ظاہری طور پر عقیدہ نبوت اور عقیدہ امامت رکھتے ہیں حالانکہ نبوت اور خلافت کے منکر ہیں اور عقیدہ امامت سیدنا علی پر بہتان ہے۔ اگر یقین نہیں تو ایک سوال پر ایکسرسائز کر لیں:
سوال: نبوت کی 23 سالہ زندگی کی تعلیم کونسی احادیث کی کتابوں میں موجود ہے جس پر اہلتشیع حضرات ایمان لاتے ہیں اور نبوت کی تعلیم کو مانتے ہیں؟ تینوں خلفاء اور سیدنا علی کی 40ھ میں شہادت کے وقت تک کونسی امامت کی تعلیم کونسی کتاب میں ہے، جس پر اہلتشیع حضرات بنو امیہ کی 131ھ تک کے دور میں عمل کرتے رہے؟؟
نتیجہ: یہ سوال کر لیں تو پھر عبداللہ بن ابی کی طرح جھوٹ بولنا، قسمیں کھانا، اہلبیت کا نام لینا اور ادھر ادھر کی باتیں سنیں مگر سوال کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر دیتے ہیں تو ضرور بتائیں ورنہ اب حکم یہی ہے کہ عبداللہ بن ابی کا جنازہ نہیں پڑھنا۔
دعوت عام ہے اور سر عام اعلان ہے کہ اہلتشیع حضرات کا وجود نبی کریم، چاروں خلفاء کے دور میں اور سیدنا حسین کی شہادت کے وقت تک نہیں تھا، اگر ہے تو بتا دیں کہ کون کونسے صحابی 14 معصوم اور 12 امام کے عقیدے کو مانتے تھے؟ صحابہ کرام کو تو اہلتلشیع مانتے ہی نہیں اور اہلبیت کی تعلیم ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ اسلئے یہ عبداللہ بن سبا کی پیداوار ہیں۔
عبداللہ بن ابی حد درجہ جھوٹا، تقیہ باز، قسمیں کھا کر جھوٹ بولنے والا، قرآن اور نبی کریم کے فرمان کو بدلنے والا تھا مگرظاہری طور پرحد درجہ نبی کریم ﷺ کی تعظیم کرتا تھا۔ غزوہ احد میں نبی کریم ﷺ کا ساتھ چھوڑ گیا اور غزوہ احد کے بعد پھر نبی کریم ﷺ کی چاپلوسی کرنے لگا تو صحابہ کرام نے کہا کہ اب تیری سمجھ آ گئی ہوئی ہے۔ البتہ ہم پھر بھی رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں گے کہ تیری بخشش کی دعا کریں تو کہنے لگا مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ (سیرۃ ابن ہشام)
ایک صحابی نے عبداللہ بن ابی کے جاسوسی کے بعد چند خبریں رسول اللہ ﷺ تک پہنچائیں مگر قسم کھا کر مُکر گیا مگر اللہ کریم نے رسول اللہ ﷺ پر ظاہر فرما دیا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری) سیدہ عائشہ پر الزام لگا کر پراپیگنڈا کرنے کی سازش کرنے والا بھی عبداللہ بن ابی تھا۔
سیدنا عمر نے جب رسول اللہ ﷺ کو سورہ توبہ کی آیت "اگر آپ ان (منافقوں) کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے اللہ ان کو معاف نہیں کر ے گا ‘‘ پڑھکر سوال کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ سترّمرتبہ سے زیادہ استغفار اس کے گناہ معاف کراسکتا ہے تو میں یقینا سترّ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرونگا۔
سیدنا عمر کہنے لگے کہ مجھے اپنی گستاخی پر بہت افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور اسکے رسول خوب جانتے ہیں میں نے ا یسی جرأت کیوں کی؟ (مسند احمد 371/3)۔ البتہ جب نبی کریم ﷺ جنازہ پڑھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے حکم نافذ فرمایا: ’’ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کی نماز ہر گز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا‘‘۔ (التوبہ) سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ ﷺ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا۔ (ترمذی 3097)
عملی منا فق: بات کرے تو جھوٹ بولے گا۔ وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا اور امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے گا، جب جھگڑے تو بیہودہ بکے۔ (بخاری و مسلم) اہلتشیع کا عقیدہ تقیہ اور تبرا اس کی واضح نمونہ ہیں۔
1 Comment
  1. Great post and great work

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general