Ghazwa Hunain (غزوہ حنین)

غزوہ حنین

سورہ توبہ 25 میں غزوہ حنین کا ذکر ہے جس میں اللہ کریم فرماتا ہے: بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اورحنین کے دن کو یاد کروجب تمہاری کثرت نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردیا تو یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔
بے شک واقعۂ بدر ، قریظہ،نضیر ، حدیبیہ ، خیبر اور فتحِ مکہ میں اللہ کریم نے مدد فرمائی۔’’حنین‘‘ مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ غزوہ حنین کا دوسرا نام ’’غزوۂ ہوازن‘‘ بھی ہے۔
مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو بہادر قبیلے آباد تھے،انہوں نے سمجھ لیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے، اس لئے ہمیں مکہ پر حملہ کر دینا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد کے ذریعے بات کو کنفرم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف دیگر قابائل کے ساتھ”مالک بن عوف”کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور 100 سالہ مشہور شاعر’’درید بن الصمہ‘‘ بطور مشیر ان کے ساتھ ہے۔
حضورِاقدس ﷺ نے بھی شوال 8 ھ میں 12 ہزار ساتھیوں کے ساتح جن میں 10 ہزار مہاجرین و انصار جو فتح مکہ کے وقت سے ساتھ تھا اور 2 دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔
فتح مکہ کے وقت تو مال غنیمت کچھ ملا ہی نہیں تھا، اسلئے اس لڑائی کے لئے آپ ﷺ نے عبداللہ بن ربیعہ سے 30 ہزار درہم قرض لیا اور دیگر زرہیں وغیرہ صفوان بن امیہ سے ادھار لیں۔ جب میدان میں نکلے تو بے اختیار بعض صحابۂ کرام کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے”۔ اس پر مسلمانوں کا امتحان شروع ہو گیا:
صحیح بخاری 4315، 4316، 4317: غزوہ حنین میں قوم کے جلد بازوں نے جب قبیلہ ہوازن والوں کو مار بگھایا اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے تو قبیلہ ہوازن والوں نے ان پر ت ی ر برسائے جس پر وہ جلد باز بھاگے مگر نبی کریم ﷺ وہیں موجود رہے، ابوسفیان بن حارث نبی کریم ﷺ کے سفید خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے اور نبی کریم ﷺ فرما رہے تھے "انا النبی لا کذب، انا ابن عبدالمطلب” میں نبی ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔
صحیح مسلم 4612: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عباس، اصحاب سمرہ کو پکارو اور سیدنا عباس کی آواز نہایت بلند تھی اور کہتے ہیں کہ آٹھ میل تک جاتی تھی، سیدنا عباس نے اصحاب سمرہ، انصاریوں، بنی حارث، بنی خزرج کو پکارا جو واپس ہوئے اور تنور کے جوش کے وقت میں رسول اللہ ﷺ نے چند کنکریاں اُٹھائیں اور دشمنوں کے منہ پر ماریں اور فرمایا: شکست پائی دشمنوں نے قسم ہے محمد کے مالک کی۔ اور پھر کام ہو گیا۔
صحیح مسلم 4616: لڑائی میں سب سے بہادر رسول اللہ ﷺ خود ہوتے تھے جو کبھی نہیں گبھراتے تھے۔
صحیح بخاری 4333: غزوہ حنین میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ 10 ہزار فوج تھی۔ قریش کے وہ لوگ بھی ساتھ تھے جنہیں فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے چھوڑ دیا تھا، پھر سب نے پیٹھ پھیر لی۔ آپ ﷺ نے پکارا، اے انصاریو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں۔
صحیح بخاری 4318، 4319: قبیلہ ہوازن والے مسلمان ہو کر جب اپنے قیدیوں اور مال کا مطالبہ کرنے آئے تو نبی کریم ﷺ کی محبت میں صحابہ کرام نے مال اور قیدی واپس کر دئے۔
صحیح بخاری 4321، 4322: غزوہ حنین میں ایک مشرک مسلمان پر غالب آ رہا تھا تو سیدنا ابوقتادہ نے اس کو مارا تو نبی کریم ﷺ نے اعلان کیا کہ جس نے کسی کو مارا ہو اُس کے لئے گواہ بھی رکھتا ہو اس کو دشمن کا مال ملے گا جس پر سیدنا ابوقتادہ نے بتایا کہ میں نے ایک مشرک کو مارا ہے تو اُس پر گواہی اسود بن خزاعی اسلمی نے دی اور کہا کہ اس مارے جانے والے کا سامان میرے پاس ہے۔ نبی کریم ﷺ کے کہنے پر اسود نے وہ سامان ابوقتادہ کو دے دیا اور اس مال کو بیچ کر سیدنا ابوقتادہ نے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا۔
صحیح بخاری 4323: غزوہ حنین سے فارغ ہو کر نبی کریم ﷺ نے ابوعامر رضی اللہ عنہ کو وادی اوطاس بھیجا جہاں مقابلے میں درید ابن الصمہ مارا گیا۔ ابو عامر کے گھٹنے پر ایک ت ی ر بنی جعشم کے ایک شخص نے مارا جس کو سیدنا ابو موسی نے مار دیا مگر ابو عامر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی مگر انہوں نے مرنے سے پہلے سیدنا ابوموسی کو کہا کہ نبی کریم ﷺ سے میری مغفرت کی دعا کروانا۔ آپ ﷺ ایک چارپائی پرلیٹے تھے جس پر کوئی بستر نہ تھا اور چارپائی کے بانوں کے نشانات آپ ﷺ کی پیٹھ اور پہلو پر تھے۔ آپ ﷺ نے وضو کیا، دعا کی، پھر ابو موسی نے اپنے لئے دعا کروائی۔
صحیح بخاری 4330: غزوہ حنین کا مال غنیمت رسول اللہ ﷺ نےفتح مکہ کے بعد جو مسلمان ہوئے ان کو اور مہاجرین کو 100 100 اونٹ دئے، جس پر انصاری حضرات کو دُکھ ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے انصاریو کیا یہ بہتر نہیں کہ لوگ اونٹ بکریاں مال غنیمیت کی لے کر جا رہے ہوں اور تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کو لے کر جاو۔ اسلئے تم صبر کرو یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔
صحیح بخاری 4336: نبی کریم ﷺ نے اقرع بن حابس اور عینیہ بن حصن فزاری کو 100 اونٹ دئے۔ جس پر ایک منا فق نے کہا کہ یہ تقسیم غلط ہے تو آپ ﷺ نے تکلیف سے فرمایا اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ دُکھ پہنچایا گیا اور انہوں نے صبر کیا۔
نتیجہ: ہر ایک کے سامنے ہے کہ سب سے پہلے اللہ کریم ہے اور پھر تدبیر ہے۔ اس کے بعد نتیجہ جو بھی نکلے اُس پر شکر اللہ کا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general