حج کے فضائل
آل عمران 97: اور اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج کرنا اس شخص پرواجب ہے جو وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو ۔اور جو شخص انکار کرے توا للہ تعالی سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔ البقرہ 196: اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔
صحیح بخاری 8، مسلم 12، ترمذی 2609: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے اول گوہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے اور حج کرنا۔
مختلف بہانے: (1) آخری عمر میں حج کروں گا (2) نماز روزے کا پابند تو ہوں نہیں حج کیا کرنا (3) حج کے بعد کاروبار کرتے وقت پھر گناہ ہوں گے کیا فائدہ، آگے ہی لوگ حاجی کو ڈبل چھری کہتے ہیں (4) پہلے والدین کو حج کرانا ہے حالانکہ ان پر فرض ہی نہیں (5) پہلے اپنی شادی کروا لوں (6) کچھ کہتے ہیں کہ بچیوں کی شادی سے فارغ ہو کر کروں گا (7) بچوں کو کس کے حوالے کریں ( کاروبار کا کیا بنے گا (9) حج کی بجائے عمرے کرتے جانا بے وقوفی ہے۔
ترمذی 812: جس کے پاس اسباب ہوں مگر حج نہ کرے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی مرے یا عیسائی ہو کر مرے۔
فرض: حج ہر اس بالغ عقلمند مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس اپنے اتنی رقم ہو کہ آنے جانے کے احراجات اور اپنے گھر والوں کو واپسی تک روٹی پانی کا بندوبست کر سکے۔ اگر کوئی فرضیت حج کا انکار کرے تو مسلمان نہیں رہتا اور اگر حج نہیں کرتا تو فاسق و گناہ گار ہے۔ اس پر احادیث پڑھ لیں:
صحیح بخاری 1519، مسلم 248: افضل کاموں میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، اللہ کے راستے میں جہ ا د کرنا اور حج مبرور ہیں۔
صحیح بخاری 1521 صحیح مسلم 3291: جس شخص نے اللہ کے لئے گناہ اور فحش بات کئے بغیر حج کیا تو ایسے ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
صحیح بخاری 1773، مسلم 1349، ابن ماجہ 2888، نسائی 2630: ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک جتنے گناہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں۔
ابن ماجہ 2887: حج اور عمرہ کو باربار کرو، اسلئے کہ انہیں باربار کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔
ترمذی 810، نسائی 2632: حج اور عمرہ باربار کرو، یہ فقر اور گناہوں کو اسطرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔
صحیح مسلم 3257، ترمذی 814: رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دے کر فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض ہے تو ایک شخص (حضرت اقرع بن حابس) نے تین بار عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا ہر سال حج فرض ہے تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوتا اور تم کر نہ پاتے۔ (نسائی 2621، ابن ماجہ 2886، ابوداود 1721)
ابن ماجہ 2896، ترمذی 813: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مال اور سواری کا انتظار حج کو فرض کر دیتا ہے، حاجی پراگندہ سر اور خوشبو سے عاری ہوتا ہے اور حج لبیک پکارنا اور قربانی کرنا ہے۔
ابوداود 1732، ابن ماجہ 2883: جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے جلد انجام دے۔ اس لئے کہ کبھی کوئی بیمار پڑ جاتا ہے یا کوئی چیز گم ہوجاتی ہے یا کوئی اور ضرورت پیش آ جاتی ہے۔
صحیح مسلم 3038: رسول اللہ ﷺ نے ام سنان سے پوچھا کہ حج کو کیوں نہیں چلتیں تو اُس نے کہا کہ ہمارے پاس دو اونٹ ہیں، ایک پر ہمارا شوہر اور بیٹا حج کو گیا اور ایک اونٹ یہاں پر ہے جس کے ذریعے پانی لایا جاتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب رمضان آئے تو ایک عمرہ کر لینا کہ اس کا بھی ثواب حج کے برابر ہے۔ (ترمذی 939)
صحیح مسلم 2891: ایک آدمی اونٹ سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور مر گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن اٹھائے گا لبیک پکارتا ہوا۔
مسند احمد 6112: جب کسی حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو اور اُس سے مصافحہ کرو اور اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لئے بخشش کی دعا کرنے کے لئے کہو، کیونکہ وہ بخشا ہوا ہے۔
ابن ماجہ 2892: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کریم کے مہمان ہوتے ہیں، اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں تو اللہ کریم ان کی دعاوں کو قبول کرتا ہے۔
ترمذی 960: بیت اللہ شریف کے گرد طواف، نماز کی مثل ہے، سوائے اس کے کہ تم اس میں گفتگو کرتے ہو، پس جو اس میں کلام کرے وہ نیکی ہی کی بات کرے۔