میدان عرفات
یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحج، سورج نکلنے کے بعد، احرام کی پابندیوں میں، حاجی، مجاہدہ کرتے ہوئے، مزدلفہ گذر کر میدان عرفات اپنے خیمے یا مسجد نمرہ یا جہاں میدان عرفات میں جگہ مل جائے وہیں ڈیرا لگا کر نماز، ذکر و دعا کے لئے بیٹھ جاتا ہے جسے وقوف عرفات کہتے ہیں جو "حج” کا سب سے اہم رکن ہے۔ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اس کا حج نہیں ہوگا۔
سورہ بقرہ آیت 199: "تم لوگ وہاں سے لوٹو جہان سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں”۔ قریش والے عرفات نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی واپس ہو جاتے مگر اللہ کریم نے منی سے عرفات آنے، عرفات ٹھرنے اور وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری 1665، نسائی 3015، ترمذی 884، ابو داود 1910)
نسائی 3019: رسول اللہ ﷺ سے حج کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ حج عرفات میں ٹھرنآ ہے، جس شخص نے عرفہ کی رات مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے پا لی تو اس کا حج پورا ہو گیا۔ صحیح مسلم 2952: عرفہ سارا وقوف کی جگہ ہے۔
مندرجہ ذیل احادیث سے رسول اللہ ﷺ کا عمل واضح ہے:
1۔ رسول اللہ ﷺ یوم عرفہ کو منی سے چلے یہاں تک کے عرفات آئے جہاں اس وقت مسجد نمرہ ہے (خلافت عباسیہ کے دور میں مسجد نمرہ بنی)، ظہر کا وقت ہوتے ہی، ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں، پھر وہاں سے قصواء اونٹنی پر سوار ہو کر عرفات کی وادی کے درمیان میں آ کر ایک خطبہ دیا۔ (ابو داود 1913، صحیح مسلم 2950)
مسجد نمرہ: طحاوی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میدان عرفات میں جہاں مرضی بیٹھ جاو حج ادا ہو جائے گا، البتہ نمرہ یعنی وادی عرنہ سے بچو۔
وضاحت: وادی عرفات اور وادی نمرہ دونوں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسجد نمرہ کا ایک حصہ وادی عرفات میں ہے اور دوسرا وادی نمرہ میں مسجد کے اندر بورڈ لگا کر اس کی نشاندہی کی گئی ہے لہٰذا مسجد نمرہ میں قیام سے قبل حدود عرفات کی تحقیق کر لینی چاہئے تاکہ حج باطل نہ ہو۔
نمازیں: موجودہ دور میں اسلئے حج کا امام یہیں خطبہ دیتا ہے اور دو نمازیں اکٹھی پڑھاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسافر تھے، اسلئے انہوں نے دو دو رکعت ادا کیں، اگر کوئی مقیم ہے تو وہ امام کے پیچھے بھی پوری ادا کرے گا۔ البتہ جن کو عرفات کے میدان میں امام کےپیچھے نماز نہیں ملتی وہ اپنے اپنے خیمے میں ظہر کو ظہر کے وقت اور عصر کو عصر کے وقت ادا کرے گا۔
جبل رحمت: عرفات کے درمیان میں ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، اس کا نام نبی کریم نے جبل رحمت نہیں رکھا بلکہ مشہور ہو گیا ہے، البتہ جبل رحمت وہ پہاڑ جہاں حضرت محمد ﷺ نے آخری حج مبارک کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ اسلئے جبلِ رحمت کے قریب جہاں سیاہ پتّھر کا فرش ہے وہاں وُقُوف کرنا افضل ہے۔
عرفہ کے دن کی فضیلت اور دعائیں
4۔ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن بھی اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں کرتا اور (اللہ تعالیٰ) اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان سارے بندوں کا کیا ارادہ ہے؟‘‘ (صحیح مسلم 3288)
5۔ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ (دو) سالوں کے (گناہوں) کا کفارہ ہو گا۔ (صحیح مسلم 2746) البتہ نبی کریم نے عرفات کے دن روزہ نہیں رکھا، اسلئے حاجی یہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ انہوں نے سخت مجاہدہ کرنا ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری 1658، 1988، صحیح مسلم 2632)
6۔ سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعاہے اور سب سے بہتر دعا یہ ہے: ”لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ (ترمذی 3585)
7۔ عرفہ والے دن رسول اللہ نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے، اونٹنی کی نکیل گر گئی تو ایک ہاتھ سے نکیل پکڑ لی اور دوسرا ہاتھ دعا کے لئے اُٹھا رہا۔ (نسائی 3014)
دعا: عرفات کے میدان میں ہر حاجی نے نمازوں کے علاوہ صرف رو رو کر دعائیں مانگنی ہوتی ہیں۔ اسلئے مغرب تک وہاں ہر کوئی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔
عرفہ کے دن کی مزید فضیلت
1۔ سورہ بروج آیت 3 "قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے”۔ اکثر مفسرین کا موقف ہے کہ آیت کریمہ میں ’’شاھد‘‘ سے مراد ’’جمعہ‘‘ کا دن اور ’’مشھود‘‘ سے مراد عرفات کا دن ہے۔ ( تفسیر طبری)
2۔ ایک یہودی نے سیدنا عمر سے کہا: تمھارے قرآن کی آیت الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدۃ: 3) اگر ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم ضرور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ سیدنا عمر فرمانے لگے: ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جس میں یہ نبی ﷺپر اتری، اس وقت آپ عرفات (کے میدان) میں جمعہ کے دن کھڑے تھے۔ عرفہ کا روز بھی عید، جمعہ بھی عید‘‘ (صحیح بخاری 7268، مسلم: 7525، ترمذی 3044) مطلب یہ آیت ہمارے عید کے دن میں ہی اتری۔
3۔ یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں۔ (ابوداود 2419، ترمذی 773، نسائی3007)