جان قربان
غریبوں میں پیسے یا دُکان سے گوشت لا کر بانٹنے سے قربانی نہیں ہوتی بلکہ قربانی کا اصل مقصد 10 ذی الحج کواللہ کریم کا قُرب (اراقتہِ دم لوجہ اللہ) حاصل کرنے کیلئے جانور کا ”خون“ بہانا ہے۔
ابن ماجہ 3123: "جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے”۔
واجب: اس حدیث کی وجہ سے قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔ جس پر صدقہ فطر لگتا ہے اُس پر قربانی بھی لگتی ہے۔ وسعت والا شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس ساڑے باون تولے چاندی کے پیسے قرضہ نکال کر ہوں۔ اگر یہ پیسے 10، 11، 12 ذی الحج تک یعنی قربانی کے دنوں میں آ جائیں تو اُسی وقت قربانی واجب ہو جائے گی کیونکہ اس کے لئے سال گذرنا شرط نہیں ہے جیسے زکوۃ کے لئے سال گذرنا شرط ہے۔
مثال: ایک مسلمان کو 10 کو جانوروں کی کھالیں غریب ہونے کی وجہ سے ملیں مگر ان کی قیمت ساڑے باون تولے چاندی کے برابر ہو گئی تو اُسی وقت قربانی اُس پر لگ جائے گی۔
اگر کسی مسلمان کے پاس ضرورت سے زیادہ کپڑے، برتن، بڑا مکان جو ضرورت سے زیادہ ہو، یا کئی مکان رکھتا ہو بلکہ پُرانے برتن اور دیگر چیزیں بھی ضرورت سے زائد ساڑے باون تولے چاندی کے برابر ہو جائیں تو اس پر قربانی لگے گی۔
ایک بکرا اور سارے گھر کی قربانی؟
حضور ﷺ کا فرمان ہے جو صاحب حیثیت ہونے کے باجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے(ابن ماجہ 3123)۔ اسلئے اہلسنت کے نزدیک ہر عورت اور مرد پر نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کی طرح قربانی بھی واجب ہے۔ البتہ ”اہلحدیث“ کا موقف ہے کہ اگر ایک بکرا ہو تو خاندان کے سارے گھر والوں کے لئے کافی ہو گا۔اہلسنت کے دلائل یہ ہیں:
1۔ ابن ماجہ 3136:”حضور ﷺ سے ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ذمہ ایک اونٹ کی قربانی ہے، میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں، جب کے مجھے خریدنے کے لئے اونٹ نہیں مل رہا تو حضور ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ سات بکریاں خریدیں اور انہیں ذبح کریں“۔ یہ دلیل ہے کہ ایک بکرا اگر ایک گھر کی طرف سے کافی ہے تو پھر سات بکریاں قربان کرنے کا حُکم کیوں دیا گیا۔
2۔ صحیح بخاری 5559: سیدنا ابو موسی اشعری نے اپنی صاحبزادیوں کوفرمایا کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں۔“ اگر باپ کی طرف سے قربانی پورے خاندان کے لئے کافی ہے تو حضرت ابو موسی اشعری اپنی بیٹیوں کو کیوں فرماتے کہ اپنی قربانی خود ذبح کرو۔
3۔ سنن البیہقی 19636: حضور ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ اُٹھو اور اپنی قربانی کے موقع پر موجود رہو اور ترمذی 1495 میں ہے کہ حضرت علی اپنی جانب سے ایک دنبے کی قربانی کیا کرتے تھے۔“ اگر ایک ہی قربانی میاں بیوی کی طرف سے ہوتی تو پھر دو کیوں کی جاتی رہیں۔
4۔ ترمذی 1502:”صلح حدیبیہ کے موقعہ پر بھی حضور ﷺ نے ایک اونٹ بھی 7 لوگوں کی طرف سے اور ایک گائے بھی 7 لوگوں کی طرف سے ذبح کی“ لیکن ایک بکرا فیملی کی طرف سے نہیں کیا۔
اہلحدیث کا موقف ہے کہ ابوداود 2810 میں ہے کہ حضور ﷺ ایک بکرا اپنی طرف سے کرتے اور ایک بکرا اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کرتے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔ ابن ماجہ 3122: حضور ﷺ ایک مینڈھا اپنی امت کے ان لوگوں کے لئے ذبح فرماتے جنہوں نے اللہ کے لئے توحید کی گواہی دی اور دوسرا خود اپنی جانب سے اور اپنی آل پاک کی جانب سے ذبح فرماتے۔
ترمذی 1505: ایک شخص کے سوال کے جواب میں کہ حضور ﷺ کے دور میں قربانیاں کیسی ہوتی تھیں تو حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مرد اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانب سے بکری قربانی کرتا۔۔ یہاں تک کہ لوگ فخر کرنے لگے پھر بات ایسی ہو گئی جو تم دیکھ رہے ہو۔
اہلسنت کی تشریح: ابن ماجہ 2810 اور ترمذی 1505 کی شرح میں لکھا ہے کہ تمام امت کی جانب سے ایک جانور ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کو ثواب میں شریک فرمایا ورنہ کسی ایک حدیث میں یہ نہیں لکھا کہ ایک بکرے میں 7 حصے ہوتے ہیں جیسے ابوداود 2807 میں ہے کہ گائے اور اونٹ میں 7 حصے ہوتے ہیں۔ امام نووی نے بھی فرمایا علماء کا اتفاق ہے کہ ایک بکرے کی قربانی میں شرکت درست نہیں ہے۔
فائدہ: تمام امت سے سوال ہے کہ ہر مرد و عورت کا اپنی اپنی قربانی کی عبادت ادا کرنے کا فائدہ ہے یا نقصان ہے۔ اگر اہلحدیث کے دلائل مان لئے جاتے ہیں تو گھر کے کئی صاحب استطاعت افراد قربانی سے محروم رہ جاتے ہیں۔
قربانی میں عقیقہ یا ایصالِ ثواب
ایک طرف تو اہلحدیث حضرات ایک بکرے میں پورا گھر شامل کر رہے ہیں اور دوسری طرف اگر کوئی مسلمان ایک قربانی میں واجب قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے مرحوم والدین کے ایصال ثواب یا اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا چاہے تو منع کرتے ہیں حالانکہ:
1۔ کچھ کے والدین کہہ کر گئے ہوتے ہیں کہ ہمارے مال سے، پھر سُن لیں ہمارے مال سے جو ہم دنیا میں چھوڑ کر گئے ہیں اُس میں سے قربانی کرنا، ایسی قربانی ان امیر آدمیوں کی طرف سے ہوتی ہے جو وصیت کر گئے ہوتے ہیں۔ اس قربانی کا گوشت صرف غریب آدمیوں میں تقسیم ہو گا کیونکہ وہ صدقہ ہے۔ (دلائل کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں)
2۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تین حصے بڑے جانور میں قربانی کے ہو گئے ہیں تو باقی میں سے عقیقہ کر لیتے ہیں تو یہ بھی ٹھیک ہے، اہلسنت کے نزدیک کر سکتے ہیں۔
بھینس کی قربانی
عرب میں بھینس تھی نہیں کیونکہ یہ برصغیر کا جانور ہے (اسلئے حضور ﷺ نے بھینس کی قربانی نہیں کی)۔ علماء کا اجماع ہے کہ بھینس گائے بیل کی طرح ہے، اسلئے بھینس پر بھی زکوۃ کا حُکم لگا اور مادہ بھینس، نر سانڈ اوراولاد کٹے کی قربانی اہلسنت علماء کے نزدیک جائز ہے۔ اہلحدیث حضرات بھی اجماع مانتے ہیں مگر ساتھ میں لطیفہ بیان کرتے ہیں کہ احتیاط کریں کہ نہ کی جائے کیونکہ حضور ﷺ نے نہیں کی۔ پھر سوال ہے کہ بھینس پر زکوۃ کیوں لیتے ہو جب حضور ﷺ نے نہیں لی؟ اسلئے بھینسوں پر زکوۃ بھی لگتی ہے اور قربانی بھی لگتی ہے۔
قربا نی کے تین دن
صحابہ کرام: کنزالعمال 12676میں سیدنا علی فرماتے ہیں: قربانی تین دن اور پہلا دن افضل ہے۔ موطا امام مالک میں سیدنا ابن عمر فرماتے ہیں: قربانی عید کے دو دن بعد تک ہے۔ سنن کبری بیہقی میں سیدنا انس فرماتے ہیں: قربانی عید کے بعد دو دن ہے۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی نے لکھا کہ 6 جلیل القدر صحابہ کرام (سیدنا عمر، علی، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور انس رضی اللہ عنھم) فرماتے ہیں کہ قربانی تین دن (10، 11، 12) ہے اور امام نووی نے بھی 4 صحابہ کرام سے ثابت کیا کہ قربانی تین دن ہے۔
علماء کرام: چار ائمہ کرام میں سے تین امام (ابو حنیفہ، مالکی، حنبلی رحمتہ اللہ علیھم) کے نزدیک قربانی 10، 11، 12 کی مغرب سے پہلے پہلے تک ہے اور 13 کو قربانی جائز نہیں۔ البتہ صرف امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کتاب الام میں 13 ذی الحج کو قربانی صرف جائز سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی ابو داود 1765: افضل قربانی 10 ذی الحج کو ہی سب مانتے ہیں۔ چوتھے دن کی قربانی بہر حال امام شافعی کا مقلد کرنا چاہے تو جائز کی حد تک ہے مگر پسندیدہ پہلے دن کی قربانی ہی ہے۔
صحاح ستہ: چوتھے دن قربانی کرنے کا صحاح ستہ یعنی احادیث کی چھ کتابوں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داود) میں نہیں ہے، البتہ بہت سے غیر مقلد حضرا ت نے چوتھے دن کی قربانی کو جائز قرار دیا ہے مگر بہت سے اہلحدیث حضرات نے قربانی کو تین دن تک ہی جائز قرار دیا ہے۔
حاملہ جانور کی قربانی
1۔ حضور ﷺ نے حاملہ جانور کی قربانی کو نقص میں شمار نہیں فرمایا بلکہ نقص ابوداود حدیث 2802 کے مطابق چار ہیں: واضح (1) کانا پن (2) لنگڑا پن (3) بیماری (4) کمزور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ ابو داود 2805: نبی کریم ﷺ نے سینگ ٹوٹے (جڑ سے ٹوٹے) اور کان کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
2۔ ابو داود 2827 اور ترمذی 1746: حضرت ابو سعید خدری نے رسول اللہ ﷺ سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے کھالو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ چاہو تو اسے کھا ؤ کیونکہ ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔
خصی جانور کی قربانی بھی عیب نہیں ہے
سنن ابوداود 2795: حضور ﷺ نے قربانی کے دن دو خصی دنبے ذبح کئے۔ ابن ماجہ 3122: حضور ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے سینگ دار چتکبرے خصی کئے ہوئے مینڈھوں کو خریدتے، ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ خصی جانور کی قربانی تمام محدثین وفقہا کے ہاں بالاجماع جائز ہے۔
نتائج: اگر قربانی کے وقت میں علم ہو جائے کہ جانور حاملہ ہے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہے تو اس جانور کو رکھ لیں تاکہ وہ بچہ پیدا کر لے یا اُس کو فروخت کر دیں اور اتنی ہی قیمت یا اس سے زیادہ قیمت کا کوئی دوسرا جانور خرید لیں تو یہ بہتر ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حاملہ جانور کی قربانی کر لیں۔ اگر ذبح کے بعد اُس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آیا تو اس کو بھی امام ابو حنیفہ کے نزدیک ذبح کر کے کھانا جائز ہے۔ اگرمردہ بچہ نکلا تو وہ مردار ہے اس کو پھینک دیں۔ اگر بچہ زندہ نکلا اور قربانی کے دنوں میں بچہ ذبح نہیں کیا تو قربانی کے دن گذار کر اس کو زندہ صدقہ کر دیں۔ ایسا بچہ دوسرے سال کی قربانی کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔
3۔ اہلحدیث حضرات کا ابو داود 2827 سے یہی موقف ہے کہ ماں کو ذبح کرنے کے بعد اگر مردہ حالت میں بچہ باہر آئے تو اسے کھایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہو چکا ہے حالانکہ حدیث اپنی جگہ ٹھیک ہے تو کیا مردار کھانا پھر جائز ہوا اور امام ابوحنیفہ کا قول قرآن کی وجہ سے بہتر ہے کہ تم پر مردار حرام کیاگیا ہے۔
احادیث میں نبی کریم ﷺ نے گوشت کے تین حصے کرنے کا مشورہ دیا تو یہ ایک ”مستحب“ عمل ہے ورنہ ہر مسلمان سارا گوشت رکھ لے یا بانٹ دے یا ایک غریب کو سارا دے سب جائز ہے۔ (قرآن و سنت کے حوالے کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں اور سوال سمجھا اور سمجھ بھی سکتے ہیں)
قربانی: ہر مالدار پر ایک قربانی واجب ہے اور اگر 10 جانور بھی کرے تو باقی سب نفل۔ کوئی غریب ”اسباب“ نہ رکھتا ہو لیکن قربانی کیلئے جانور خریدلائے توقربانی واجب ہو گئی لیکن مشورہ ہے کہ غریب آدمی اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرے مگر قربانی نہ کرے۔ سارے بھائی غریب ہیں اور ان پر قربانی نہیں لگتی لیکن ایک بھائی کو سب نے مل کر پیسے دئے تو وہ قربانی اس بھائی کی طرف سے ہو جائے گی باقی قربانی کا گوشت آپس میں بانٹ سکتے ہیں۔کوئی مسلمان کسی دوسرے (زندہ یا جواپنے دنیا سے چلے گئے) کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تواپنی طرف سے ایک ”قربانی“ لازماً کرے اورپھرکسی دوسرے کی طرف سے قربانی کر ے۔ اگر کوئی انگلینڈ یا کینڈا میں ہے توپاکستان میں اس کی اجازت سے ”قربانی“ کی جا سکتی ہے کیونکہ قربانی میں نیت ضروری ہے۔
شرائط: ذبح کرنے میں تین شرطوں کا علم ہونا چاہئے (1) مسلمان عورت اور مرد ”دونوں“ ذبح کر سکتے ہیں اگرچہ گناہ گار(فاسق) ہی کیوں نہ ہوں، صحیح اہل کتاب (عیسائی) بھی تکبیر پڑھ کرجانور ”ذبح“ کر سکتے ہیں لیکن کافر،مرتدیا مجوسی نہیں۔
ذبح کرنے والا بسم اللہ اللہ اکبر کہے۔ البتہ اگر کوئی تکبیرکہنا ”بُھول“ جائے تو جانور کی قربانی ہو جائے گی۔ (2) جانور کی چار یا تین ”رگیں“ ضرورکٹنی چاہئیں اور اگر دو”رگیں“کٹیں تو جانور حرام ہے۔ (3) اس کے علاوہ رگیں کٹنے پر ”جانور“ سے خون نکلنا چاہئے کیونکہ مُردہ جانور سے خون نہیں نکلتا اور جس جانور سے ”خون“ نہیں نکلا وہ جانور مُردہ ہے اور مُردار”حرام“ ہے۔ اگر مشین سے ذبح کرتے وقت بھی یہ تین شرطیں پوری ہو جاتی ہیں توجانور حلال ہے۔
تجربہ: احادیث میں جانور کی گھنڈی کا ذکر نہیں ہے بلکہ تین رگیں کٹ جائیں تو جانور ذبح ہو جاتا ہے اور اگر صرف دو رگیں کٹیں تو جانور حرام ہے۔ کچھ قصائی جانور کو ذبح کر کے جلدی سے”منکہ“ توڑ دیتے ہیں اوریہ عمل ”مکروہ تحریمی“ ہے، جانورکی قربانی چار رگیں کٹنے سے قربانی ہوجائے گی مگر منکہ توڑنے سے ثواب کم ہو گا۔ اگر جانور کا منہ قبلہ رُخ نہ رہا تب بھی ذبح ہو گیا لیکن بہتر ہے کہ جانور کا منہ قبلہ رُخ ہو۔ کوئی جانور دیوار کے نیچے آ کر دب جائے یا مٹی میں دفن ہو کر مرنے لگے تو بسم اللہ پڑھ کر جہاں مرضی تیز دھار آلہ ماریں تاکہ اس کا خون نکل جائے تو جانور ذبح ہو گیا۔
جانور کی اوجھڑی اور کپورے
1۔ سنن الکبری للبیہقی 19702: رسول اللہ ﷺنے ذبیحہ جانور کے سات اعضاء (1) مرارہ یعنی پتہ (2) پیشاب والا مثانہ (3) نر و مادہ کی شرمگاہ (4) عضو تناسل یعنی نر کا مادہ سے صحبت کرنے والا آلہ (5) خصیے یعنی کپورے (6) غدود وہ گوشت جو جلد اور گوشت کے درمیان گلٹی بیماری کی وجہ سے بنتی ہے اور (7) ذبح کے وقت بہتا ہوا خون کو مکروہ فرمایا۔ (مزید المعجم الاسط للطبرانی 9480 میں عبداللہ بن عمر اور مصنف عبدالرزاق 8771 میں مجاہد بن جبر تابعی راوی)۔
2۔ بہتا ہوا خون تو نص قطعی قرآن سورہ الانعام 145 کی وجہ سے حرام ہے اور باقی چھ اجزاء سورہ الاعراف 157 کی ظاہری نص ”وہ (رسول) ستھری چیزیں ان کے لئے حلال فرماتے اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں“ کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہیں۔
3۔ دیوبندی اور بریلوی دونوں بہتے ہوئے خون کو حرام اور باقی چھ اجزاء کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔ البتہ بریلوی عالم جناب احمد رضا خاں صاحب کا اجتہاد ہے کہ جب حضور ﷺ نے جانور کے مثانے کو مکروہ کہا جہاں جانور کا پیشاب (نجاست خفیفہ) ہوتاہے تو اوجھڑی میں تو جانور کا پاخانہ (نجاست غلیظہ)ہے، اسلئے مثانے کی طرح اوجھڑی آنتیں بھی مکروہ تحریمی ہیں۔ (فتاوی کمنٹ سیکشن میں)
منکر ضعیف احادیث: اہلحدیث حضرات کے نزدیک اہلسنت کی احادیث ضعیف ہیں، اسلئے صرف بہتا ہوا خون حرام ہے اور باقی چھ اجزاء (1) مرارہ یعنی پتہ (2) پیشاب والا مثانہ (3) نر و مادہ کی شرمگاہ (4) عضو تناسل یعنی نر کا مادہ سے صحبت کرنے والا آلہ (5) خصیے یعنی کپورے (6) غدود بالکل حرام نہیں۔مزید اہلحدیث حضرات کا فتوی ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا بول و براز نجس یعنی ناپاک نہیں ہے۔ (فتاوی کمنٹ سیکشن میں)
مذاق: اہلسنت حضرات کو یہ مذاق نہیں بنانا چاہئے کہ حلال جانوروں کا بول و براز اور چھ گندی چیزیں پاک ہیں تومزے سے کھاؤ کیونکہ اہلحدیث نے حدیث سے اجتہاد کیا ہے۔اسی طرح اہلسنت کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا پیشاب و پاخانہ بھی پاک ہے تو وہ کھانے پینے کیلئے نہیں کہتے بلکہ حضور ﷺ کی نسبت کی وجہ سے کہتے ہیں اور اتفاقیہ طور پر کسی صحابی یا صحابیہ نے پی لیا تو اہلحدیث جماعت کا مثال دے کر کہنا بھی غلط ہے کہ کہ کیا صحابہ کرام حضور ﷺ کا پیشاب پیتے تھے کیونکہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ (پیشا ب والے واقعات کمنٹ سیکشن میں)
عجیب و غریب پریشان کرنے والی باتیں
٭ عید کے دن روزہ نہیں ہوتا کیونکہ روزے کا مطلب ہے کہ فجر سے لے کر مغرب تک بیوی سے دور اور بھوکا پیاسا رہنا۔ اس لئے قربانی کا گوشت پکنے تک کو روزہ نہیں کہتے بلکہ یہ نبی کریمﷺ کی سنت ہے، اگر کوئی قربانی کے گوشت سے پہلے کچھ کھا پی لے تو ہر گز گناہ گار نہیں ہے۔
٭ ذی الحج کا چاند دیکھ کر عید کی نماز پڑھنے کے بعد تک ناخن، بال وغیرہ نہ کاٹیں تو اس کا ثواب ”قربانی“ کے برابرہے لیکن ان دس دنوں میں ناخن یا بال وغیرہ کاٹنے کا تعلق ”قربانی“ سے نہیں ہے کیونکہ یہ ایک علیحدہ مستحب عمل ہے،اگر کوئی ناخن یا بال کاٹ لیتا ہے تو گناہ گار نہیں۔ داڑھی جیسے ہی نوجوان کوآئے اُسی وقت سے رکھنا واجب ہے اورذی الحج کے چند دن چہرے کے بال (داڑھی یا شیو)رکھنے کا کوئی ثواب نہیں ہے حالانکہ بعض بے وقوف بندے اسلئے قربانی نہیں کرتے کہ میں نے تو شیو کر لی ہے۔ قربانی کرنے والا”قربانی“ کر کے نہیں بلکہ عید کی نماز پڑھ کر ”خط“ وغیرہ بنوا سکتا ہے۔
٭ اہل تشیع حضرات کہتے ہیں کہ قربانی کا گوشت محرم میں نہیں کھا سکتے حالانکہ قربانی کا گوشت پورا سال کھا سکتے ہیں جیسے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاان کے پاس قربانی کا گوشت لائیں۔آپ نے فرمایا کہ کیا نبی کریمﷺ نے قربانی کا گوشت رکھنے سے منع نہیں فرمایا؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی کریمﷺ نے اجازت دے دی ہے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ذی الحج سے اگلے ذی الحج تک اسے کھا سکتے ہیں یعنی ایک سال تک (مسند احمد جلد 12 صفحہ 14)
٭ قربانی کا گوشت ہندوکو دینا جائز نہیں اور اہل کتاب (عیسائی) کو بھی دینا بہتر نہیں، مسلمان اکثر گھر میں کام کرنے والی عیسائی عورتوں کو قربانی کا گوشت دیتے ہیں حالانکہ یہ صرف مسلمان کو دیا جائے۔ اگر اہل کتاب کو دیا تو یہ ”خلافِ مستحب“ عمل ہے مگرگوشت دینے سے بندہ گناہ گار نہیں ہوتا۔
ہماری تجاویز
1۔ قربانی انبیاء کرام، اولیاء کرام اوراپنے فوت ہوئے رشتے داروں کی طرف سے کرنا’’ جائز‘‘ ہے لیکن اگر ہمسائے، دوست یا رشتے دار جو زندہ ہیں غریب ہوں تو اُن کو بُلا کر کہا جائے کہ یہ گائے میں نے لی ہے اس میں سات حصے ہوتے ہیں، دو حصے میری طرف سے ہیں اُس سے میری اور میرے گھر والوں کی طرف سے قربانی ہو جائے گی مگر ایک ایک حصہ میں آپ کی طرف سے کروں گا، پیسہ میرا، قربانی آپ کی طرف سے اور گوشت کا ایک مکمل حصہ آپ کا ہو گا اور یہ سارا حصہ آپ اپنے غریب رشتے داروں میں بانٹ دیجئے گا۔
2۔ اگر کسی غریب دوست کا عید کے بعد نکاح ہے تو اُس کوقربانی کا گوشت دیا جائے۔
3۔ جس مسلمان نے قربانی کی وہ کسی ایسے گھر میں قربانی کا گوشت نہ دے جس نے خود قربانی کی ہو یہ دُنیا داری ہو گی اسلئے قربانی کا گوشت قربانی نہ کرنے والے غریب بہن بھائیوں ہمسایوں کودیا جائے۔
4۔ اگر ہو سکے تو قربانی اپنے گاؤں یا ایسی جگہ جہاں غریب لوگ رہتے ہوں کرنی چاہئے اور وہاں گوشت تقسیم کر کے یا پکا کر اُن کو کھلایا جائے۔
5۔ امیر آدمی جو پورا سال گوشت کھا سکتا ہے وہ اپنے گھر میں گوشت نہ رکھے بلکہ سارا غریبوں میں تقسیم کر دے۔