Hajj e Badal (حج بدل)

حج بدل

حج بدل نبی کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے جیسے صحیح بخاری حدیث نمبر1852 نسائی 2636 میں ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میرے بوڑھے والدین اس حالت میں ہیں کہ سواری پر بھی بیٹھ نہیں سکتے تو کیا میں عورت اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔
صحیح بخاری 6699: ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ انہوں نے عرض کی ضرور ادا کرتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے۔
صحیح بخاری 1852: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
صحیح مسلم 2697: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کی کہ میں نے ایک لونڈی خیرات میں دی تھی اپنی ماں کو اور میری ماں مر گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا ثواب ہو گیا اور پھر وہ لونڈی تیرے پاس آ گئی بسبب میراث کے“۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں روزے رکھو اس کی طرف سے“۔ اس نے عرض کی کہ میری ماں نے حج نہیں کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی طرف سے حج بھی کرو۔“
ابو داود 1811: نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو کہتے سنا: «لبيك عن شبرمة» ”حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے“ آپ ﷺ نے دریافت کیا: ”شبرمہ کون ہے؟“، اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟“، اس نے جواب دیا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا۔
حج بدل کی شرائط
حج بدل کرانے والے کو آمِر کہتے ہیں اور جو دوسرے کے حکم سے حجِ بدل کرتا ہے، اس کو مامور کہتے ہیں۔ حج بدل کی چند شرائط لکھی جاتی ہیں اور باقی مسائل آمر و مامور کو حج بدل کے وقت میں سیکھنے چاہئیں:
1۔ آمِر پر حج فرض ہو مگر بیماری کی وجہ سے وہ خود ساری زندگی کے لئے حج نہ کر سکتا ہو اور اگر آمِرحج بدل کروانے کے بعد بھی کسی وقت حج کرنے کے قابل ہو گیا تو خود حج کرنا ہو گا۔ اگر حج فرض ہی نہ تھا تو حج بدل نہیں ہو سکتا۔
2۔ مرنے والے کی وصیت تھی کہ میرے مال سے حج کرایا جائے تو وارث اپنے مال سے نہیں کرا سکتے، اگر کروائے تو اُس مرنے والے کے مال سے وصول کر لے تو حج بدل ہو گا۔
3۔ مامور پہلے اپنا حج کا فرض ادا کر چکا ہو اور حج کے مسائل کا علم رکھتا ہو۔ البتہ مامور نے پہلے حج ادا نہیں کیا ہوا تو حج بدل کرنے کے بعد جب اُس پر حج فرض ہو گا تو وہ بھی اُسے ادا کرنا ہو گا۔ اور اگر خود اس پر حج فرض ہو اور ادا نہ کیا ہو تو اسے بھیجنا مکروہِ تحریمی ہے۔ عورت بھی مرد کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مرد کو حج بدل کروایا جائے۔
4۔ آمِر مامور کو حج بدل کرنے کا "حُکم” دے کیونکہ یہ حج بدل کی "شرط” ہے کیونکہ اس سے حج بدل کی باقی شرائط پر عمل ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی وارث کسی معذور یا مرحوم کی طرف سے بغیر "حُکم” کے حج بدل کر لے تو حج بدل ادا ہو جائے گا اور ان شرائط پر عمل نہیں کرنا پڑے گا۔
5۔ آمر کی اجازت سے حج تمتع، حج قرآن یا حج مفرد کرے گا۔ اسلئے جب بھی آمر و مامور کے درمیان حج بدل کا معاہدہ ہو تو وہی حج کرنا ہو گا جسکی آمر نے مامور کو اجازت دی ہے، اگر مامور آمر کے حُکم کی مخالفت کرے گا تو حج بدل ادا نہیں ہو گا۔
6۔ احرام باندھتے وقت یا حج کے افعال شروع کرنے سے پہلے آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا۔
6۔ حج بدل کا سارا خرچہ مامور کو دیا جائے گا تاکہ وہ اُس میں سے خرچ کرے اور یہ بھی حج بدل کی شرط ہے۔ اگر مامور نے آمر کے خرچ سے حج نہ کیا تو حج بدل نہیں ہو گا۔
7۔ مصارفِ حج سے مراد وہ چیزہیں جن کی سفرِ حج میں ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً کھانا پانی، راستہ میں پہننے کے کپڑے، احرام کے کپڑے، سواری کا کرایہ، مکان کا کرایہ، مشکیزہ، کھانے پینے کے برتن، جلانے اور سر میں ڈالنے کا تیل، کپڑے دھونے کے لیے صابون، پہرا دینے والے کی اُجرت، حجامت کی بنوائی غرض جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اُن کے اخراجات متوسط کہ نہ فضول خرچی ہو، نہ بہت کمی اور اُس کو یہ اختیار نہیں کہ اس مال میں سے خیرات کرے یا کھانا فقیروں کو دیدے یا کھاتے وقت دوسروں کو بھی کھلائے ہاں اگر بھیجنے والے نے ان اُمور کی اجازت دیدی ہو تو کرسکتا ہے۔
8۔ مامور کا حج فاسد یا فوت نہ ہو اور آمر کے حکم کی مخالفت نہ کرے جیسے جس کو بھیجا وہ اپنے کسی کام میں مشغول ہو گیا اور حج فوت ہوگیا تو تاوان لازم ہے، پھر اگر سال آئندہ اس نے اپنے مال سے حج کر دیا تو کافی ہو گیا۔ اگر وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کیا جب بھی یہی حکم ہے اور اُسے اپنے مال سے سال آئندہ حج و عمرہ کرنا ہو گا اور اگر وقوف کے بعد جماع کیا تو حج ہوگیا اور اُس پر اپنے مال سے دَم دینا لازم اور اگر غیر اختیاری آفت میں مبتلا ہو گیا تو جو کچھ پہلے خرچ ہوچکا ہے، اُس کا تاوان نہیں مگر واپسی میں اب اپنا مال خرچ کرے۔
9۔ مرض یا دشمن کی وجہ سے حج نہ کرسکا یا اور کسی طرح پر مُحصر ہوا تو اس کی وجہ سے جو دَم لازم آیا، وہ اُس کے ذمہ ہے جس کی طرف سے گیا اور باقی ہرقسم کے دَم اِس کے ذمہ ہیں۔ مثلاً سلا ہو ا کپڑا پہنا یا خوشبو لگائی یا بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا یا شکار کیا یا بھیجنے والے کی اجازت سے قِران و تمتع کیا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general