ایام تشریق
ایام تشریق کو قرآن و سنت کے مطابق منانے کے لئے اور 9 ذی الحج کا روزہ رکھنے کے لئے پوسٹ مطالعہ کر کے اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں۔
1۔ تکبیرِ تشریق کی مشروعیت اس وقت کی تعظیم کے لیے ہے، جس میں مناسکِ حج ادا کیے جاتے ہیں۔اس لیے اس کی شروعات یومِ عرفہ سے ہوتی ہے کہ اس دن حاجی عرفات کے میدان میں قیام کرتے ہیں۔
2۔ 9 ذی الحج کی فجر سے 13 ذی الحج کی عصر تک تکبیرات تشریق "اللہُ اکبراللہُ اکبر لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ ُوَاللہُ اکبراللہُ اکبر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ” کہی جاتی ہیں اور یہ عمل مندرجہ ذیل عربی میں لکھی تمام روایات کا حاصل ہے جس میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام 9 ذی الحجہ کے دن فجر کی نماز سے 13 ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیراتِ تشریق جہراً کہتے تھے:
۱۔ عن جابر عن أبي الطفيل عن علي وعمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر في المكتوبات بـ {بسم الله الرحمن الرحيم}، وكان يقنت في الفجر، وكان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة ويقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق”. (سنن الدارقطنی 2/389)
۲۔ عن عبد الرحمن بن سابط عن جابر : قال كان النبى صلى الله عليه وسلم يكبر يوم عرفة صلاة الغداة إلى صلاة العصر آخر أيام التشريق.”(السنن الکبری للبیہقی 3/315)
۳۔ عن أبي الطفيل عن علي و عمار : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يجهر في المكتوبات ببسم الله الرحمن الرحيم، و كان يقنت في صلاة الفجر، و كان يكبر من يوم عرفة صلاة الغداة و يقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق”. (1/439)
۴۔ وذهب أكثر أهل العلم إلى أنه يبتدئ التكبير عقيب صلاة الصبح من يوم عرفة ، ويختم بعد العصر من آخر أيام التشريق، وهو قول عمر وعلي، وبه قال مكحول، لما روي عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي صلاة الغداة يوم عرفة، ثم يستند إلى القبلة، فيقول : الله أكبر ، الله أكبر ، الله أكبر ، لا إله إلا الله ، والله أكبر ، الله أكبر ولله الحمد ، ثم يكبر دبر كل صلاة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق.” (شرح السنۃ 7/146)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تکبیرات تشریق
۱۔ عن علي رضي الله عنه أنه کان یکبر بعد صلاة الفجر یوم عرفة إلی صلاة العصر من آخر أیام التشریق، و یکبر بعد العصر”. (إعلاء السنن، باب تکبیرات التشریق : 4/148)
۲۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : يُكَبِّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ النَّحرِ لاَيُكَبِّرُ فِى الْمَغْرِبِ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ اللَّهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا”. (السنن الكبرى للبيهقي:6504)
۳۔ عن عبد الله أنه كان يكبر أيام التشريق: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد”. (المصنف إبن أبي شيبه : 5694)
حضرت علی و ابن عباس و عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ایامِ تشریق میں یہ تکبر یں پڑھاکر تے تھے۔
3۔ ان دنوں کو ایام تشریق کیوں کہتے ہیں؟
پہلی بات: ایام “یوم“ کی جمع ہے اور یوم دن کو کہتے ہیں جیسے یوم پاکستان وغیرہ۔ عید الاضحی کے بعد کے تین دنوں (11,12,13 ذی الحج) کو ”ایام تشریق“ کہتے ہیں۔
دوسری بات: ایام تشریق کو "ایام تشریق” کہنے کے متلعق یہ قول ہیں:
1۔ تشریق کا معنی ہے گوشت کے پارچے (ٹکڑے) بنا کر ان کو دھوپ میں سکھانا اور عربوں میں گوشت خشک کرنے کو”تشریق“ کہتے ہیں۔
2۔ قربانی کے جانور کو اس وقت تک ذبح نہیں کیا جاتا جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا اور عید کی نماز سورج کے طلوع ہونے (شروق الشمس) پر ادا کی جاتی ہے، لہذا پہلے روز کے بعد آنے والے ان تمام دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔
3۔ سورہ بقرہ کی آیت 203 (وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ) کے مطابق ایام تشریق کو ”ایام معدودات“ بھی کہا جاتا ہے۔
تیسری بات: حقیقی ایام تشریق 11,12,13 ذی الحج کے تین ایام کو کہتے ہیں۔ 9 تا 13 ذی الحج (5 دن) کو مجازاً ایام تشریق اسلئے کہتے ہیں کہ 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصرتک (5 دن) تکبیر تشریق (الله اکبر الله اکبر لا الہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد) پڑھی جاتی ہیں (ہدایہ 420/4) حقیقی تین دن اور مجازی پانچ دن ایام تشریق کے ہیں۔
چوتھی بات: ان تین حقیقی ایام تشریق (11,12,13 ذی الحج) کے متعلق رسول کریمﷺ کا فرمان ہے کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ البتہ یومِ نحر(قربانی کا دن) بھی کھانے پینے کا ہے اور یہ تین دن اس کے تابع ہیں لہذا ان چار دنوں اور عید الفطر(کل پانچ دن پورے سال) میں روزہ رکھنا حرام ہے۔
پانچویں بات: ایام تشریق میں روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے حقیقی معنی ہیں کیونکہ اگرتکبیر تشریق والے ایام بھی مراد لیں گے تو پھر روزے کے ممنوع ایام پانچ نہیں بلکہ چھ ہو جائیں گے جو کہ خلاف شریعت ہے۔
پانچ دن: ابوداود 2416 "حضورﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا”۔ صحیح مسلم 2677 "ایام تشریق یعنی ذوالحجہ کے 11, 12, 13 تاریخ کے ایام کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا: ایامِ تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔
چھٹی بات: یہ دن خوشی کے دن ہیں لیکن پھر بھی فرمایا گیا کہ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ (اور یاد کرو اللہ تعالی کو گنتی کے چند دنوں میں) اس آیت سے مراد ایام تشریق میں نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی تکبیرات، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت کی تکبیرات اور حج کرنے والوں کے لئے رمی جمار کی تکبیرات وغیرہ ہیں۔
تکبیرات تشریق: ہر مرد کے لئے اونچی آواز میں اور عورت کے لئے آہستہ آواز میں 9 ذوالحجہ کی فجر سے لے کر13ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات تشریق کا ایک مرتبہ کہنا واجب ہے۔ سلام کے فوری بعد یہ تکبیرات کہنی چاہئیں۔
اہم بات: یہ تکبیریں ہر نماز کے فورا بعد قبلہ رُخ رہتے ہوئے، کسی سے بات چیت کئے بغیر کہنی ہیں۔
عرفہ کے دن کی فضیلت
1۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ (البروج: 3) اکثر مفسرین کا موقف ہے کہ آیت کریمہ میں ’’شاھد‘‘ سے مراد ’’جمعہ‘‘ کا دن اور ’’مشھود‘‘ سے مراد عرفات کا دن ہے۔ (تفسیر طبری)
2۔ یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحج کے روزے کا ثواب ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (ترمذی 749)
3۔ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم ضرور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کونسی آیت ہے؟ وہ کہنے لگا: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدۃ: 3) تو عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جس میں یہ نبی ﷺ پر اتری، اس وقت آپ عرفات (کے میدان) میں جمعہ کے دن کھڑے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري: 45، 7268، صحیح مسلم: 3017)
4۔ بے شک یہ آیت دو عید کے دنوں میں اتری، جمعہ اور عرفہ کا دن۔ (ترمذی 3044 ) یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں۔ (ابو داود 2419، ترمذی 773، نسائی 3007)
5۔ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ (دو) سالوں کے (گناہوں) کا کفارہ ہو گا۔ (صحیح مسلم: 1162)
7۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن قربانی کا دن، پھر ’’یوم القر‘‘ ہے۔ (ابوداود 1765) یَوْمُ الْقَرّ: عید الأضحی کا دوسرا دن مراد ہے۔