قریش قبیلہ
قریش کی عزت اسلئے بھی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ہی قریش رکھ دیا ہوا ہے۔
ترمذی 3605: اللہ کریم نے سیدنا ابراہیم کی اولاد میں سے حضرت اسماعیل کا انتخاب فرمایا اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا ﷺ انتخاب فرمایا۔
قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں یہ ہیں:
(1) بنو ہاشم (2) بنو امیہ (3) بنو نوفل (4) بنو عبدالدار (5) بنو اسد (6) بنو تمیم (7) بنو مخزوم ( بنو عدی (9) بنو عبد مناف (10) بنو سہم ان کے علاوہ دیگر شاخیں بھی ہیں۔
خلفاء کرام اور حضرت معاویہ
1۔ سیدنا ابوبکر صدیق قریش کے قبیلہ بنو تمیم میں سے تھے۔
2۔ سیدنا عمر فاروق قریش کے قبیلہ بن عدی سے تھے۔
3۔ سیدنا عثمان قریش کے قبیلے بنو امیہ سے تھے۔
4۔ سیدنا علی قریش کے قبیلے بنو ہاشم سے تھے۔
5۔ حضرت معاویہ قریش کے قبیلے بنو امیہ سے تھے۔
غوروفکر: قریش کے قبائل کا تعلق حضور سے ہے اور جو بنو امیہ کو گالیاں دے اللہ کریم اُس کو ذلیل کرے گا۔ ہر قبیلے میں اچھے برے ہوتے ہیں مگر اہلتشیع حضرات کا تعلق کسی سے نہیں ہے کیونکہ تعلق عیسائی یا یہودی کی طرح نبیوں سے نہیں ہوتا بلکہ تعلیم سے ہوتا ہے۔ اہلتشیع کے پاس نبوت کی کوئی تعلیم نہیں ہے اور خلافت کے وہ منکر ہیں یعنی قریش کے منکر ہیں۔ عقیدہ امامت گھڑ کر سیدنا علی پر امامت کا بہتان لگایا ہوا ہے۔
صحیح بخاری 7139: یہ امر یعنی خلافت قریش میں رہے گا۔ کوئی بھی ان سے اگر دشمنی کرے گا تو اللہ کریم اسے رسوا کر دے گا لیکن اس وقت تک جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے۔
صحیح بخاری 7140: یہ امر خلافت اس وقت تک قریش میں رہے گا جب تک ان میں دو شخص بھی باقی رہیں گے۔
صحیح بخاری 3495: اس خلافت کے معاملے میں لوگ قریش کے تابع ہیں، عام مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں۔
صحیح مسلم 4703: لوگ تابع ہیں قریش کے خیر اور شر میں۔“
ترمذی 3905: جو قریش کی رسوائی چاہے گا اللہ اسے رسوا کر دے گا۔
صحیح مسلم 4705: ”یہ خلافت تمام نہ ہو گی جب تک کہ مسلمانوں میں بارہ خلیفہ نہ ہو لیں۔“ پھر آپ نے آہستہ سے کچھ فرمایا، میں نے اپنے باپ سے پوچھا: کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: کہ ”یہ سب خلیفہ قریش میں سے ہوں گے۔“
صحیح بخاری 3506: قرآن شریف قریش کی قرات، زبان یا محاورے میں نازل ہوا۔
صحیح بخاری 3504: قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، اشجع اور غفار ان سب قبیلوں کے لوگ میرے خیرخواہ ہیں اور ان کا بھی اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی حمایتی نہیں ہے۔
قریش کے سردار
ابو طالب (بنو ہاشم) اسد بن ہاشم (بنو ہاشم) عبد المطلب بن ہاشم (بنو ہاشم) ابو لہب (بنو ہاشم) عاص ابن وائل (بنو سہم) ابو جہل (بنو مخزوم) ابو لہب (بنو ہاشم) ابو سفیان بن حرب (بنو امیہ) اخنس بن شریق (حلیف بنوعدی) اسود بن مطلب (بنو اسد) حکیم بن حزام (بنو اسد) مطعم بن عدی (بنو نوفل) مغیرہ بن عبداللہ (بنو مخزوم) نبیحہ بن حجاج (بنو جمح) نذر بن حارث (بنو عبدالدار) سہیل بن عمرو (بنو عامر) امیہ بن خلف (بنو جمح) عقبہ بن معیط (بنو عبدالدار)عتبہ بن ربیعہ (بنو عبدالشمس)
قریش قبیلے کے پاس کون کون سی ذمہ داریاں تھیں
1۔ سداتہ، یعنی کعبہ کی حفاظت اور کعبہ کی کنجی، کعبہ کی زیارت کا شعبہ بنو ہاشم کے پاس تھا آپ کے دادا عبد المطلب اس عہدے پر مقرر تھے۔
2۔ سقایہ، یعنی پانی کا انتظام کرنا بھی بنی ہاشم سے متعلق تھی۔
3۔ رفادہ زائرین، کعبہ میں آئے مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پہلے بنی نوفل سے متعلق تھی پھر بنی ہاشم کے حصے میں آئی۔
4۔ عُقاب، قریش کے قومی جھنڈے کا نام، لڑائی کے وقت میں جھنڈے کا محافظ بنو امیہ کے خاندان میں سے ہوتا تھا۔
5۔ ندوہ، یہ مکہ کی قومی اسمبلی کا انتظام بنی عبد الدارکے پاس تھا۔
6۔ قیادہ، یعنی قافلہ کی راہنمائی، قریش کسی معاملہ کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے مشیر کی رائے ضرور حاصل کر لیتے تھے۔ یہ منصب بنی اسد کے پاس تھا۔
7۔ سفارہ، یعنی ایلچی گری، جب کسی دشمن قبیلہ سے صلح کی بات چیت ہوتی تو کسی سمجھ دار آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کیا جاتا۔ ابتدا اسلام میں قریش کے آخری سفیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ بن خطاب تھے۔