مظبوط فرقے
ایم اے اسلامیات پڑھتے تھے تو وہاں پر قرآن و سنت کے مطابق حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی فقہ کے اصول و قانون کو پڑھایا جاتا تھا۔ اُس وقت یہ سوال پوچھا کہ ایم اے اسلامیات میں فقہ جعفر اور غیر مقلد اہلحدیث کیوں شامل نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں اہلسنت نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے دو بڑے فرقے یا جماعتیں ہیں جن کو مالی سپورٹ دے کر پاکستان میں پھیلایا گیا ہے جیسا کہ بہت کچھ غلط ملط ہو رہا ہے۔ اس پر استادوں سے پرسنل طور پر سوال کئے تو یہ سمجھ آیا:
پہلا فرقہ: اہلتشیع حضرات ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی تعلیم کو مٹانے کے لئے غدیر خم کے موقع پر نبی کریم ﷺ کا فرمان "جس کا میں مولا اُس کا علی مولا” کے بیانئے پر تمام صحابہ کرام سیدنا علی سمیت سب کو اسلام سے خارج کر کے، حضور ﷺ کے تقریبا 400 سال بعد عقیدہ امامت کی بنیاد پر ایک نیا دین بنا کر اپنی برین واشڈ عوام کو 14 معصوم اور 12 امام کا عقیدہ دیا۔ ان 12 امام کا دور دیکھ لیں ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ جس نے ہم کو نہیں مانا وہ مسلمان نہیں مگر اہلتشیع کے نزدیک جو 12 امام کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔
1۔ سیدنا علی کی شہادت 40ھ تقریباً عمر 63 سال
2۔ سیدنا حسن (3 – 49ھ) عمر 46 سال
3۔ سیدنا حُسین (4 – 61ھ) 57 سال
4۔ سیدنا زین العابدین (38 – 95ھ) عمر 57 سال
5۔ سیدنا باقر (57 – 114ھ) عمر 46 سال
6۔ سیدنا جعفر صادق (82 – 148ھ) عمر 66 سال
7۔ سیدنا موسی کاظم (128 – 183ھ) عمر55 سال
8۔ سیدنا علی رضا (148 – 203ھ) عمر55 سال
9۔ محمد تقی (195 – 220ھ) عمر 25 سال
10۔ سیدنا علی نقی (212 – 254ھ) عمر 42 سال
11۔ سیدنا حسن عسکری (232 – 260ھ) 28سال
12۔ اہلتشیع کے نزدیک 12واں امام پیدا ہو کر کسی غار میں غائب ہو چکا ہے، اب وہ قیامت والے دن ہی آئے گا، اہلسنت کے نزدیک ابھی وہ پیدا نہیں ہوا۔
نتیجہ: اہلتشیع حضرات منکر نبی، منکر صحابہ، منکر قرآن اور منکر اہلبیت ہیں مگر تاریخ کی کتابوں سے ثابت کریں گے کہ اہلبیت پر بہت ظلم ہوا ہے اور خود مظلوم بن کر اہلبیت کا مقدمہ لڑنے کے لئے ایک نیا دین بنانے کا نہیں بتائیں گے۔ ان کا دین نبی کریم کا دین نہیں ہے جس پر تمام صحابہ کرام اور خلفاء تھے۔
اہلتشیع حضرات یہ بھی پوچھتے ہیں کہ تم کونسے اہلسنت ہو جو دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، حیاتی و مماتی میں بٹے ہوئے ہو۔
دوسرا فرقہ: خلفاء راشدین، بنو امیہ و بنو عباس کے دور کے بعد جو اسلام خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں پھیلا وہ اہلسنت کا بہت اچھا دور تھا۔ اس دور میں نہ تو فقہ جعفر اور نہ ہی وہابیت و اہلحدیث موجود تھے۔ البتہ 1924 میں سعودی عرب کے وہابی علماء نے ساری دنیا کے اہلسنت علماء کرام سے مذاکرات کئے بغیر اس 600 سالہ دور اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک قرار دیا۔ اہلحدیث حضرات سے سوال کر لیں:
1۔ مقلد نماز کا منکر نہیں ہے لیکن اگر ضعیف احادیث کے مطابق نماز ادا کرے تو کیا نماز ہو گی یا نہیں؟
2۔ صحیح احادیث کے مطاق کس امام نے کونسے اصول پر کس دور میں تمہیں نماز کا طریقہ سکھایا؟
ان دو سوالوں کے جواب نہیں دیں گے بلکہ اہلتشیع حضرات کی طرح اٹیک کریں گے اور آئیں بائیں شائیں کریں گے۔ البتہ اہلحدیث یا سعودی عرب کے وہابی علماء، دیوبندی و بریلوی کی احادیث کی کتب ایک ہیں مگر ان احادیث کی شرح کے اصول میں فرق ہے۔ خوفناک صورت حال یہ ہے کہ اہلتشیع حضرات کی احادیث کی کتب ہیں ہی نہیں بلکہ انہوں نے امام جعفر کے 400 سال بعد امام جعفر کے اقوال کو گھڑ کر اصول اربعہ یعنی چار کتابیں تیار کر کے یہ اعلان کیا کہ ہم اہلبیت سے دین لیتے ہیں۔
دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک ہے مگر دونوں پر غلبہ رافضیت و خارجیت کا ہے، دونوں جماعتیں خود کو خلافت عثمانیہ کے دور میں منظور کئے گئے قانون کا پابند ظاہر نہیں کرتے جس کی وجہ سے عوام مستحب اعمال کو فرض سمجھتی ہے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتی ہے۔
سوال: پوچھ لیں اہلسنت سے کہ کیا دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک نہیں جس کو سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات نے بدعت و شرک کہا۔
اتحاد امت: اگر دیوبندی و بریلوی عوام کو تعلیم اہلسنت سے روشناس کروا دیں تو فرقہ واریت کا عفریت اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اس سوال پر اگر عوام غور و فکر کر لے تو مسلمانوں کو اتحاد کی دولت مل جائے گی۔ طاقتور کے ساتھ سب کھڑے ہیں مگر اللہ کے نبی کا دین ایک ہے اُس کے ساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے۔ اختلاف بتائیں، اختلاف مٹائیں، مسلمان بنائیں۔